محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔اس مہینہ میں
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو کام کرنے کا حکم فرمایا :
(1)……محرم الحرام کے روزے ۔(2)……اہل وعیال پر کھانے میں وسعت وفراخی کرنا ۔
محرم الحرام کے روزے
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے افضل روزے رمضان المبارک
کے بعد محرم الحرام کے روزے ہیں ،اور سب سے افضل نماز فرض نماز کے بعد رات
(تہجد )کی نماز ہے ۔(مسلم )
اسلام نے جب کسی دن یا رات کو عظمت و احترام کے لائق ٹھہرایا اور خوشی کا
حکم دیا تو اس کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی عبادت کو ضرور منسلک کر دیا ہے تاکہ
ان بابرکت ایام اور خوشی کے دنوں میں انسان رب تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو
جائے ۔جمعہ کو ’’یوم عید ‘‘قرار دیا تو اس میں غسل و صفائی کے ساتھ ساتھ
ایک (جمعہ کی )نماز بھی فرض کر دی ،عید الفطر یا عید الاضحی میں اگر ایک
طرف (شریعت کے دائرے میں رہ کر )زیب و زینت کی اجازت دی تو ایک نماز بھی
واجب کر دی (یعنی عید کی نماز )،شب قدر کو معظم و محترم قرار دیا تو اس میں
عبادت کرنے کا بیشمار اجر و ثواب رکھ دیا ،ایسے ہی عاشورہ (دس محرم )کے د ن
کو رمضان کے بعد دنوں میں سب سے افضل دن کا اعزاز بخشا تو اس میں ایک روزہ
بھی مسنون فرمایا ۔
جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں تھے اس وقت تک عاشورہ (دس محرم )کا روزہ فرض
تھا ۔
(ماہ نامہ مناقب ص17……محرم 1413 ء)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ’’بے شک نبی کریم اخود بھی عاشورہ (دس محرم
)کا روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ کا حکم فرماتے ‘‘۔
حضرت قتادہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲ ا سے عاشورہ (دس محرم)کے روزہ کے بارہ
میں پو چھا گیا تو آپ ا نے فرمایا کہ (یہ روزہ )گذشتہ سال کے گناہوں کا
کفارہ ہو جائے گا ۔(مسلم ص368)کیونکہ یہودی بھی عاشورہ (دس محرم )کا روزہ
رکھتے تھے کہ فرعون کے ظلم سے نجات ملی تھی اس لیے کفار کی مشابہت سے بچنے
کیلیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں
تاریخ کو روزہ رکھوں گا ‘‘۔(ابن ماجہ ص124) ایک اور روایت میں ہے کہ عاشورہ
(دس محرم )کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں سے فرق کرو (اس طرح کہ اس سے
ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ رکھو۔ (البشیر والنذیر 61/2بحوالہ مسند
احمدوبزار)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آئندہ سال یوم عاشورہ (دس
محرم )کے کے آنے سے پہلے ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس دنیا فانی سے رحلت فرما
گئے ۔
علامہ ابنِ ہمام رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے
مگر اس کے ساتھ ہی عاشورہ سے ایک دن پہلے 9محرم یا ایک دن بعد 11محرم کو
بھی روزہ رکھنا مستحب ہے ۔یعنی مطلب یہ کہ صرف عاشور ہ(دس محرم )کار وزہ
رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے یہودیوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ۔لہٰذا
ساتھ 9یا 11محرم کا روزہ ملانا چاہیے ۔(مظاہر حق جدید339/2)
اہل وعیال پر کھانے میں وسعت
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں
کہ جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کو (کھانے میں )وسعت دی اﷲ تعالیٰ اس
پرآئندہ پورے سال وسعت وفراخی رکھے گا۔(بیہقی )
مشہور محدث حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ہمارے تجربہ میں یہ
صحیح ثابت ہوا ہے(البشیر والنذیر 62/2)
حضرت مولانا مفتی عبدالشکور صاحب ترمذی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں ’’شریعت اسلامیہ
نے اس دن کے لیے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ اپنے اہل وعیال پر کھانے میں فراخی
اور وسعت کرنا اچھا ہے ،اس پر تمام سال فراخی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں
چونکہ اس روز رحمتوں کی بارش ہوتی ہے ،اس لیے مسلمان جس حالت میں اس روز
اپنے کوحق تعالیٰ شانہ کے سامنے پیش کریں گے ،حق تعالیٰ شانہ بھی ان کے
ساتھ تمام سال وہی معاملہ فرمائیں گے ۔
یہیں سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ آپ نفلی عبادت اور دعا واستغفار میں مشغول
رہیں تو حق تعالیٰ شانہ سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ تمام سال آپ کو اعمال
صالحہ کی توفیق عطا فرماتے رہیں گے ۔جب آپ نے اپنے کو اس دن عبادت میں پیش
کیا ہے تو اُمید ہے کہ حق تعالیٰ شانہ آپ کے ساتھ تمام سال یہی معاملہ
فرمائیں گے ۔‘‘(السعی المشکور فی احکام العاشور)
|