پرانے زمانے کی بات ہے ایک سنار جو کہ بمبئی کا رہنے والا
تھا لاہور آیا اس کے پاس کافی موتی تھے اس نے وہ موتی ایک مجلس میں کھولے
اور سب کو دکھانے لگا۔ اس نے ایک موتی جیب میں سے نکالا اور لوگوں کو
دکھاتے ہوئے بولا کہ یہ موتی شب افروز ہے(یعنی رات کو چمکتا ہے)جب اس نے
سامان سمیٹا اور اٹھ کر جانے لگا تو ایک چور جو اسی مجلس میں بیٹھا پوچھنے
لگا جناب کہاں کے ارادے ہیں۔ سنار نے جواب دیا بمبئی جا رہا ہوں۔ چور نے
کہا اتفاق دیکھیں نہ میرا بھی وہیں کا پروگرام ہے چلیں مل کر چلتے ہیں۔
ابھی سنار بھی سمجھ گیا کہ یہ میرا ہمسفر نہیں ہے۔ یہ اس موتی کے پیچھے ہے
لیکن سمجھدار تھا کہنے لگا آؤ چلتے ہیں۔
دونوں مل کر چل پڑے سارا دن سفر سارا دن سفر کیا اور شام کو جب سونے لگے تو
چور نے اپنی واسکٹ وغیرہ جو قمیض کے اوپر پہنی ہوئی تھی اتار کر علیحدہ ایک
جگہ پہ لٹکا دی ۔ سنار نے وہ موتی اپنی جیب سے نکالا اور نظر بچا کے وہ
قیمتی موتی اس کی جیب میں رکھ دیا اور خود بے فکر ہو کر سو گیا ۔ ابھی چور
رات کو اٹھا اور اس کی جیب اس کا سامان سب دیکھنے لگا لیکن کہیں بھی موتی
نہ ملا آخر وہ سو گیا۔ صبح اٹھتے ہی سنار نے نظر بچا کر وہ قیمتی موتی اس
کی جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا جب چور اٹھا تو اس نے ناشتہ کرتے ہوئے
سنار سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ وہ تمہارے پاس وہ جو قیمتی موتی تھا وہ
کہاں ہے رات کو چمک بھی نہیں رہا تھا۔ سنار نے موتی جیب سے نکال کر دکھایا
اور کہا کہ یہ تو میرے پاس ہے ، چور حیران ہو گیا کہ میں نے اس کی پوری جیب
چھان ماری لیکن مجھے یہ نہ ملا لیکن اس نے ابھی جیب سے نکال کر دکھا دیا
خیر آج رات نکال لوں گا۔ سنار نے اگلی رات پھر وہی عمل کیا ادھر چور بھی
ساری رات ڈھونڈتا رہا لیکن کچھ نہ ملا ،صبح کو پھر وہی ماجرا کے موتی سنار
کی جیب سے نکل آتا ، یہی کام تین سے چار دن چلتا رہا۔ آخر چور نے ایک صبح
سنار سے کہا کہ میں آپ کا ہم راہی نہیں تھا میں بس آپ کے ساتھ اس موتی کی
خاطر تھا آج میں آپ کو استاد مانتا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ یہ موتی
رکھتے کہاں تھے رات کو اس نے کہا میاں تو اوروں کی جیبیں ٹٹولتا رہا کبھی
اپنی جیب میں بھی ہاتھ ڈالا ہوتا۔آج ہماری مثال اس چور کی سی ہے جو لوگوں
کے عیب ڈھونڈتا پھر رہا ہو اور کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تک
نہیں۔ ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی غلطیاں ہی ڈھونڈتے
رہتے ہیں، کبھی اپنے آپ کو ہیں ٹٹولتے ، کبھی بھی اپنے آپ پہ نظر نہیں
دوڑائی۔ |