چین نے عالمی برادری میں دیگرحوالوں کے ساتھ ساتھ ایک
ایسی بڑی طاقت کی حیثیت سے بھی منفرد شناخت قائم کی ہے، جو قومی سلامتی کو
لاحق خطرات کا سامنا کرنے کے معاملے میں طاقت کے استعمال اورجارحیت کوپہلے
یا بہترین آپشن کی حیثیت سے بروئے کارنہیں لاتی۔چینی قیادت ہمیشہ کوشاں
رہی ہے کہ ہرقضیے کوسفارتی اطوار کے ذریعے نمٹایاجائے۔
چین نے عالمی برادری کو یہ پیغام دینے میں بھی کبھی تساہل نہیں دکھایاکہ
اگرسفارتی طریقوں سے قومی سلامتی کادفاع ممکن نہ ہوتووہ طاقت کے استعمال
کیلئےبھی ہمہ وقت تیارہے اور کسی بھی نوعیت کی جنگ کیلئےبھی مکمل تیاری کی
حالت میں ہے۔ اب تک چین نے جب کبھی طاقت کااستعمال کیا ہے، یہ بات کھل
کرسامنے آئی ہے کہ وہ اپنے طے شدہ مقاصد سے ہٹ کرکچھ نہیں کرناچاہتا،طاقت
کے استعمال کومحدوداورمعاملات نظم وضبط کے دائرے میں رکھتاہے اورکسی بھی
حالت میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کرناچاہتاجومعاملات کومکمل طور پرپلٹ
کررکھ دے۔
جزیرہ نماکوریا میں چین نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک امریکاکاسامناکیا اور اس کے
بعدایک ایسی صورت حال کوقبول کرنے پرآمادگی ظاہرکی،جس میں اُس کیلئےفتح
کاپہلونہیں تھاتوشکست کاآہنگ بھی نہیں تھااورپھراس نے ۱۹۵۸ء میں شمالی
وجنوبی کوریاکے درمیان پائی جانے والی سرحدی پٹی سے اپنی عسکری موجودگی ختم
کردی۔
۱۹۶۲ء میں چین اوربھارت کے درمیان سرحدی جھڑپیں جنگ کی شکل اختیار کر گئیں۔
چین نے چند دن کارروائیاں کیں،مطلوبہ نتائج کے حصول کے بعد بھارت پریہ واضح
کرنے کے بعداپنی معمول کی پوزیشن پرواپس چلاگیا کہ پیپلز لبریشن آرمی طاقت
کاغیر ضروری استعمال کسی بھی طوربرداشت نہیں کرے گی۔۱۹۷۹ء میں چین
اورویتنام کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں بھاری نقصان برداشت کرتے ہوئے
چین نےویتنام کوپیغام دیاکہ روس کے ساتھ مل کر ایک عظیم سلطنت قائم کرنے
کیلئےوہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کوتیارہے۔ یہ پیغام ویتنام کی سمجھ میں
آگیااورچند ہی دنوں میں جنگ ختم ہوگئی۔
بحیرۂ جنوبی چین سے متعلق تنازعات میں چین نے اب تک غیرمعمولی تحمّل
کامظاہرہ کیاہے۔ فلپائن،ویتنام اور ملائیشیا بحیرۂ جنوبی چین کے مختلف
جزائرپر ملکیت کے دعویدار ہیں۔ فلپائن کاروّیہ اس معاملے میں خاصا جارحانہ
رہا ہے۔ اُس نے ۱۹۷۸ء میں چندجزائرپرقبضہ کیا۔ ۱۹۸۲ءمیں ویتنام نے بھی ہمت
دکھائی اورپھر ۱۹۸۳ء میں ملائیشیا بھی اِس دلدل میں کودپڑا۔ ۱۹۸۸ء میں چین
نے معاملات درست کرنے کی ٹھانی اوراِن تمام ممالک کو واضح پیغام دیاکہ اُن
کے کسی بھی غیر ضروری اورحدسے بڑھے ہوئے اقدام کوآسانی سے قبول یابرداشت
نہیں کیا جائے گااور یوں بحیرۂ جنوبی چین میں کشیدگی کے خاتمے کی راہ
ہموار ہوئی۔
اس بحری خطے میں چین نے اپنی سرزمین پرمتعدد ممالک کی قائم کردہ چوکیوں
کوہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اب تک مصنوعی زمینی خطوں پر اپنی موجودگی
برقراررکھنے پر زیادہ توجہ مرکوزکی ہے۔ چین نے کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کی
ہے جس سے فلپائن،ویتنام، ملائشیایاپھر امریکامشتعل ہو۔سینکاکو جزائر کے
معاملے میں بھی چین غیرمعمولی حد تک محتاط رہاہے۔ چین ان جزائر کوتائیوان
کاحصہ قراردیتاہے جبکہ جاپان کادعوٰی ہے کہ یہ جزائر اس کے جزیرے اوکی
ناواکاحصہ ہیں۔ چین نے اس خطے میں کوسٹ گارڈزکو معمولی کشتیوں میں تعینات
کیاہے تاکہ جاپان مشتعل نہ ہو۔ جاپان بھی محتاط رویہ اختیار کرتاآیا ہے۔
ہانگ کانگ اورمکاؤکواپناحصہ بنانے کے معاملے میں بھی چین نے غیر معمولی
تحمل کامظاہرہ کیاہے۔ اس نے کسی بھی مرحلے پرطاقت کے استعمال کا عندیہ نہیں
دیا۔ دوسری طرف ایسی ہی صورت حال میں بھارت نے گواکے معاملے میں طاقت کے
استعمال کوترجیح دی اوراس علاقے کو اپنا باضابطہ حصہ بنالیا۔ کرغیزستان،
قازقستان، ویتنام، نیپال، پاکستان، افغانستان اورروس سے ملنے والی اپنی
سرحد کے تعین میں بھی چین نے اب تک کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی، جس سے
معاملات کے خراب ہونے کی راہ ہموارہو۔بھارت،بھوٹان اورمیانمار (برما) کے
معاملے میں بھی چین مجموعی طورپرامن پسندہی رہاہے۔ ان تینوں ممالک سے ملنے
والی سرحد باضابطہ طے شدہ نہیں تاہم مجموعی طورپرپرامن رہی ہے۔
مختلف قضیوں کے حوالے سے چین نے اب تک جورویہ اپنایاہے وہ اسامرکا غمازہے
کہ وہ تنازعات کوبہترطورپرحل کرنے کے معاملے میں طاقت کے استعمال کوکسی بھی
حال میں اولیت نہیں دیتااوراس کی کوشش ہوتی ہے کہ نوبت طاقت کے استعمال تک
نہ پہنچے۔ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے یہ بہت بڑی قابلیت ہےجس سے جنگ
ٹالنے میں مددملتی ہے۔(جاری ہے) |