امن کا خواب

ایک تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی55 فیصد آبادی مفلسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بھارت کی خوشحال ریاستوں میں بھی 40 فیصد افراد غریب ہیں۔ تحیققاتی ادارے نے 20سے 30 فیصد غربت کے بھارتی دعوے کو مسترد کیا ہے۔

بھارت میں آزادی کی کم و بیش گیارہ تحریکیں چل رہی ہیں اور ان تحریکوں کو دبانے کے لئے اسے سالانہ اربوں ڈالرز خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ہوا کھڑا کر کے روایتی اور غیر روایتی اسلحے کی ایک ایسی دوڑ شروع کر دی گئی ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہا اور یوں بھارت کے جنگی جنون نے برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں لوگوں کو بھوک اور غربت کا جنون ' آزادی پسند لوگوں کو غلام رکھنے کا شوق اور جمہوریت کے لبادے میں عوام کا استحصال ایسے معاملات ہیں جن پر بھارت کے غیر متعصب تجزیہ نگار بھی اکثر لکھتے رہتے ہیں مگر کیا مجال ہے کہ دہلی کی پالیسیوں میں رتی برابر بھی فرق آیا ہو۔ اس وقت جبکہ ہم یہ سطور تحریر کر رہے ہیں بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے اور بھارتی حکومت ابھی تک بھارتی فوج کے لامحدود اختیارات اور کالے قوانین کے خاتمے کا فیصلہ نہیں کرسکی۔ اس حوالے سے کابینہ کمیٹی کا اجلاس بری طرح ناکام ہوچکا ہے کیوں کہ کشمیر میں امن کی خواہش تو ہے لیکن کشمیریوں کو غلام رکھنے کی قیمت پر۔ جب بھی ان کی آزادی کا سوال اٹھتا ہے تو بھارتی جمہوریت کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور وہ آمرانہ ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے۔

بھارت بنیادی طور پر ایک غریب ملک ہے جس کے لاکھوں لوگوں کو چھت بھی میسر نہیں۔ لاکھوں افراد روزانہ فٹ پاتھوں پر ہوتے ہیں دن بھر محنت مشقت کرنے والوں کو اتنا معاوضہ بھی نہیں ملتا کہ وہ پیٹ بھر کر روٹی کھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آبادی کا نصب حصہ کم خوراکی اور بیماریوں کی وجہ سے انتہائی لاغر اور کمزور نظر آتا ہے لیکن بھارتی حکمران دنیا کو Shining India کی جھوٹی تصویر دکھا کر بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ بھارت کا صرف خوبصورت چہرہ ہی دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے اور وہ نحوست زدہ چہرہ نہیں دیکھایا جاتا جس کے بارے میں کلدیپ نیئر اور اردن دتی رائے جیسے غیر متعصب اور غیر جانبدار صحافی لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔

یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بھارت نے اگر بروقت مسئلہ کشمیر حل کر دیا ہوتا تو آج پاکستان اور بھارت کے کروڑوں لوگ عزت اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ اس خطے کو خدا نے لاتعداد وسائل سے نوازا ہے اور اگر ان وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑ دیا جاتا تو آج دونوں ملک بہت اچھی حالت میں ہوتے۔ پاکستان میں ایشین ٹائیگر بننے کی مکمل صلاحیت موجود ہے لیکن بھارت کے جنگی جنون نے اسے بھی معاشی طور پر اس قدر متاثر کیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں بھی غربت بڑھتی جارہی ہے۔ اربوں ڈالرز کا وہ جنگی بجٹ جو بھارت اور پاکستان اسلحے اور بھاری فوج رکھنے پر خرچ کرتے ہیں اگر یہی پیسہ پاکستان اور بھارت میں غربت کے خاتمے پر خرچ ہوتا تو ذرا تصور کیجئے دونوں ملکوں کے عوام کی حالت کس قدر بہتر ہوتی۔

امر واقعہ یہ ہے کہ بھار ت میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہی طبقہ بھارت میں جنگی جنون پھیلا کر اپنے کروڑوں لوگوں کا بدترین استحصال کر رہا ہے۔ جب تک بھارت کے عوام اس جنونی طبقے کے خلاف جدوجہد شروع نہیں کرتے اس وقت تک ترقی اور خوشحالی ایک خواب ہی رہے گی۔ ہماری رائے میں اب بھارت کے ہوشمند لوگوں کو آگے آکر اس مسئلے کا کوئی نتیجہ نکالنا چاہیے ورنہ آج اگر بھارت کے 55فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں تو 2015ء نک یہ تعداد65 فیصد تک جا پہنچے گی اور ساتھ ہی پاکستان میں غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کو بھی اب اپنے شیطانی کھیل سے باہر نکل کر ان بھوکوں ننگوں کی فکر کرنی چاہیے جن کی تعداد دونوں ملکوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ان طاقتوں کو علم ہے کہ جنوبی ایشیاء میں امن کی کنجی کشمیر ہے اور اس مسئلے کو حل کرائے بغیر اس خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ بڑی طاقتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ اس خطے میں اسلحے کی دوڑ کی وجہ سے کروڑوں لوگ جانوروں کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ کم از کم یہ سوچ کہ یہ لوگ بھی بنی نوع انسان ہیں اور روٹی ' کپڑے ' مکان پر ان کا بھی حق ہے۔ بڑی طاقتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے کیونکہ جنگ و جدل کا کھیل اب بہت ہوگیا۔ اب لوگ امن کو ترس رہے ہیں اس لئے بھی تاکہ امن آئے تو ان کیلئے روزگار کے دروازے کھلیں اور وہ ایک باعزت ز ندگی گزار سکیں۔

امن بھارت کی بھی ضرورت ہے اور پاکستان کی بھی لیکن جس طرز عمل کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر میں کیا جارہا ہے اس کے ہوتے ہوئے امن کا خواب بھی کیسے دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ کشمیری کسی بھی قیمت پر اس کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ اس نے کشمیریوں کو اپنا بنانے کا ہر حربہ اختیار کر کے دیکھ لیا اس کے باوجود ہر کشمیری کی زبان پر آزادی کا نغمہ ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص غلام رہنا پسند نہیں کرتا۔ انسان آزاد فطرت پر پیدا ہوا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ریاست کے سارے وسائل استعمال کر کے بھی آزادی پسندوں کو غلام نہیں رکھا جاسکتا۔ نئی دہلی اب حقائق کو تسلیم کر ہی لے تو اچھا ہے کیونکہ جب ریاستیں سامنے نظر آتی حقیقتوں کو جھٹلاتی ہیں تو اس خود فریبی کی قیمت ان ریاستوں کے عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.