جمہوریت کی روح یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی پارٹی سے کوئی
اختلاف ہے تو آپ اسمبلی میں بیٹھ کر اس پر بات کریں اس کے بعد آپ اس کا
بائی کاٹ کرتے ہیں تو گوارہ۔ لیکن اگر آپ اسمبلی میں جانے والوں کی ٹانگیں
توڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو یہ لب و لہجہ ، یہ انداز جمہوریت کی صرف نفی
نہیں بلکہ تذلیل کرتا ہے ۔اس کے بعد آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جمہوریت آ پ
کی سیاست ہے۔اور اگر سماجیت آپ کی معیشت ہے تو پھر آ پ کو اپنے پہلے نعرے
سے دستبردار ہو جانا چاہئے کیونکہ اسلام میں ریاست کوئی کاروباری ادارہ
نہیں ریاست افراد کے وسائل اور ان کے کاروبار پر قبضہ نہیں کر سکتی ہر شخص
کو کاروبار کا حق ہے بس اسے اسلامی ٹیکس ادا کرنے ہوں گے غریب نادار اور
مسکین لوگوں کیلئے اسے صدقہ و خیرات کرنے کی تلقین بھی کی گئی اور ترغیب
بھی دی گئی۔اﷲ نے ان سے بہت بڑھا کر اجر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔چلیں ۔۔۔۔ ان
پر ریاستی اخراجات کیلئے انکم ٹیکس بھی لگا دیجئے لیکن اسلام ریاست کو
افراد کے کاروبار ان کی ملیں اور کارخانے سرکاری تحویل میں لینے کا حق نہیں
دیتا تو کیا یہ ہے پیپلز پارٹی کا منشور؟؟ ہو سکتا تھا کہ ان بائیں بازو
والوں کے پاس اس کیلئے کوئی پلاننگ ہوتی جس سے عام لوگ اور خوشحال ہوں اور
ملک کی معیشت اور مستحکم ہو ،لیکن اس پر عمل نہیں ہوا اور گلے دو یا تین
سالوں میں وہ لوگ یا تو بھٹو صاحب کے خوشامدی بن گئے یا دودھ میں سے مکھی
کی طرح نکال کر پھینک دئیے گئے ۔یہ اصل میں دو طرفہ کھیل تھا بھٹو صاحب بڑے
جاگیر دار تھے اور بادشاہوں کا سا مزاج رکھتے تھے بائیں بازو والے بھٹو
صاحب کی کرشماتی شخصیت کو استعمال کرنا چاہتے تھے اور بھٹو صاحب کو ان سے
آئیڈیاز اور عوامی نعرے درکار تھے لیکن ترپ کے سارے پتے بھٹو صاحب کے پاس
تھے اور بعد ازاں بھٹو صاحب کو ان کی ضرورت نہیں رہی ۔اپنے اقتدار کو
مستحکم کرنے کیلئے بھٹو صاحب نے اداروں کو قومیا کر دیا عام لوگوں کو احسان
مند بنا کر ووٹ بنک مستحکم کیا گیا کیونکہ انہیں ملازمتیں دی گئیں صرف
سرکاری ملازمتیں تو ناکافی تھیں اس لئے قومیائے گئے اداروں میں بڑے اور اہم
لوگوں کو بڑے عہدے ملے ،کارکنوں اور حامیوں کو خوش کرنے کیلئے کھپایاگیا ۔اس
لئے ان با اختیار لوگوں نے ضرورت نہ ہونے کے با وجود ملازمتیں فراہم کیں ۔لیکن
اس کے نتیجے میں ان اداروں کا منافع کم ہو ا ظاہر ہے ۔۔۔ اور وہ بتدریج
کمزور ہوتے گئے اور ملکی معیشت پر اثر پڑا ۔جبکہ اس وقت یہ اقدام ملکی
معیشت کیلئے انتہائی خطرناک تھا کیوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے
ہی پاکستانی معیشت کو گہر ا جھٹکا لگا تھا ۔معیشت دن بدن کمزور ہوتی چلی
گئی اور یوں لگتا تھا جیسے ملکی معیشت دس سال میں ڈھیر ہو جائے گی لیکن
ہمارے مضبوط صنعتی ڈھانچے کے باعث آج تک ملک چلتا رہا ہے ۔پٹ سن سے بھاری
زرِ مبادلہ آتا تھا جس سے ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد محروم ہو گئے
اس سلسلے کو روکنا چاہئے تھا اور جمہوریت تھی تو عوام طاقت کا سرچشمہ ہونے
کے ناطے اسے روک سکتی تھی مگر ایسا نہ ہو سکا ۔۔۔۔ کیونکہ !!ہم مسلمان واحد
اﷲ کے ماننے والے ہیں جن میں شخصیت پرستی کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن
تحریک پاکستان کے عرصے میں یہ بیماری ہمیں لاحق ہو گئی چلو اس وقت تو
مسلمانوں کے اتحاد کیلئے اس کی ضرورت تھی لیکن بیماری اور خاص طور پر
اجتماعی بیماری پر قابو نہ پا یا جائے تو وہ بڑھتی ہے اور بہت بڑھتی
ہے۔پاکستان بننے کے صرف تیرہ ماہ بعد محمد علی جناح ؒ کا انتقال ہو گیا یہ
ہر لحاظ سے ملک کی بد قسمتی تھی وہ زیادہ جیتے تو یہ بیماری بڑھ نہ پاتی ۔بہر
حال اس کے بعد یہ ہوا کہ محمد علی جناحؒ پر تنقید قوم سے غداری قرار پائی
وجہ یہ تھی کہ لیاقت علی خان کے بعد کے لوگوں کے پاس عوام کو لبھانے کیلئے
قائد اعظم کے کارڈ کے سوا کچھ تھا ہی نہیں جس کسی نے قیام پاکستان کی
مخالفت کی تھی اس کے با وجود پاکستان چلا آیا ملک دشمن قرار دیا گیا ۔ صرف
اپنی مضبوطی کیلئے نام نہاد سیاست دان یہ کھیل کھیلتے رہے اس کے نتیجے میں
جمہوریت ڈیویلپ ہی نہ ہو سکی ۔ ملکی اور قومی معاملات میں بھی ذاتی پسند
اور نا پسند غیر ضروری طور پر اہم ہو گئی۔پھر جب تمام سیاست دانوں نے اپنی
نااہلی کو تسلیم کرتے ہوئے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی
انتخاب لڑایا تو یہ مرض تیزی سے بڑھا سب جانتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی
نہ ہوتی تو محترمہ جیت جاتیں ۔اس کے بعد کیا ہوتا ؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں
لگا سکتا لیکن ایسا ہوا نہیں لیکن یہ بہت بری مثال قائم کر دی گئی ۔کیونکہ
محترمہ نہ تو سیاسی شخصیت تھیں اور نہ ہی ملکی امور کو سمجھنے اور چلانے کی
اہلیت رکھتی تھیں۔ان کی بس ایک ہی خوبی تھی کہ وہ محمد علی جناح ؒ کی بہن
تھیں اور عوام کے نزدیک انہیں صدرِ پاکستان منتخب کرنے کیلئے بس یہی بات
کافی تھی۔ حالیہ دور میں ن لیگ نے بھاری مینڈیٹ سے اکثریت حاصل کی تو دو
مرتبپ پہلے ہی نااہل ہونے والے شخص میاں محمد نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا
گیا جو کہ اس بات کی گواہی ہے کہ شخصیت پرستی کی بیماری نے اس قوم میں کس
حد تک جڑیں پھیلا لی ہیں ۔اس بار پھر سے وہی شخص تا حیات نااہل ہو چکا ہے
جبکہ اس کے دور حکومت میں ہوا کیا ہے قرضے لے لے کر اور داخلی و خارجی امور
کی پالیسیاں نا ہونے کے باعث اس وقت ملک دیوالیہ ہونے کے در پے ہے،عالمی
عدالتوں کے تمام کیسز ہم ہار چکے ہیں رینٹل پاور والا کیس بھی ہم ہار چکے
ہیں جس کا روزانہ کی بنیاد پر پچانوے کروڑ ڈالر صرف سود لگ رہا تھا،لیکن
نااہل وزیر اعظم آج بھی اس قوم کے دلوں کا وزیر اعظم ہے۔کیایہ ہے عوام کا
جمہوری شعور؟؟جاری ہے۔۔۔۔
|