انتخابی اصلاحات کا ترمیمی قانون سپریم کورٹ کی نظر میں

آئین میں ترمیم کا بہت زیادہ شور ہے اور اِس ترمیم کا مقصد جناب نواز شریف کو پھر سے مسلم لیگ کا صدر منتخب کیے جانا ہے۔ اِس ترمیم کے مطابق ایسے شخص کو بھی سیاسی جماعت کا سربراہ منتخب کیا جاسکتا ہے جوکے پارلیمنٹ کے ممبر بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ اِس حوالے سے ایک سیر حاصل گفتگو عام قارئین اور قانون کے طالب علموں کی دلچسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک لینڈ مارک فیصلہ شاہد پرویز بنام اعجاز احمد2017scmr206 میں دیا تھا۔ اِس فیصلے میں جو مسٹرجسٹس عامر ہانی مسلم نے تحریر فرمایا تھا "کہ اگر کوئی قانون ایک مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کسی بھی وجہ سے غیر آئینی قرار دے دیا جائے اِس کی بدولت جو کچھ بھی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہوں وہ بھی رُک جائیں گے۔ اِس لیے ایسا کوئی بھی قانون جو کہ آئین سے متصادم ہو تو کورٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اُسکا جائزہ لے اور اُس کے خلاف فیصلہ دے۔اِس لیے سپریم کورٹ کایہ بالکل واضع فیصلہ ہے کہ اگر کوئی ایسا قانون اگر پارلیمنٹ میں اِس مقصد کے لیے بنایا جائے جس سے سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرادر دیے جانے والے فیصلے کی نفی ہوتی ہو تو ایسا قانون چونکہ اِس نیت کی بنا پر بنایا گیا ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثر کو ختم کرئے تو پارلیمنٹ کی جانب سے سے بنایا جانا والا ایسا قانون نل اینڈ وائیڈ قرار دے دیا جائیگا۔ کیونکہ ایسے قانون کے بنائے جانے کے پیچھے سب سے بڑا محرک یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی کی جائے ۔اِسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ" کہ قانون ساز قانون سازی کے حوالے سے اہم کردار ہیں اِس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ قانون ساز جو بھی قانون بنائیں وہ آئین کی روح کے مطابق ہو اِس لیے قانون کو آئین کے پیرا میٹرز ر پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا کہ قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں" قانون کو آئین کے پیرا میٹز پر پرکھنے کا کام سپریم کورٹ کا ہے ۔ سوموار دو اکتوبر 2017 کو قومی اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے ۔ قومی اسمبلی نے گزشتہ روز انتہائی تلخ اور ہنگامہ آرائی کے ماحول میں انتخابی اصلاحات سے متعلق سینٹ سے منظور کردہ بل کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔ جبکہ جماعت اسلامی کے ممبران قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق ا ﷲ، صاحبزادہ محمد یعقوب، شیر اکبر خان اور محترمہ عائشہ سید کی طرف سے بل میں پیش کردہ 5ترامیم میں سے دو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردی جبکہ محرک صاحبزادہ طارق اﷲ نے باقی تین احتجاجاً پیش نہیں کی اور اپنی نشست پر کھڑے ہوکر ترامیم کا مسودہ پھاڑ دیا جبکہ سپیکر نے انہیں ’’ڈراپ‘‘ قرار دیا۔ واضح رہے کہ سینٹ نے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کیا تھا اور اس کی سیکشن 203میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایک ترمیم پیش کی تھی جس کے تحت ایسا فرد جو اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ تاہم سینٹ میں یہ مہم ایک ووٹ کی اکثریت سے مسترد کردی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کی صدارت کا منصب دوبارہ سنبھالنے کے اہل ہوگئے تھے۔ سینٹ سے منظور کردہ بل منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس کی شق 203میں کہا گیا تھا کہ ہر شخص جو پاکستان کی سروس میں نہ ہو پارٹی کی تشکیل کرسکتا ہے، کسی سیاسی جماعت کا رکن بن سکتا ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے اور کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار بن سکتا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان نے قومی اسمبلی میں اس شق میں ترمیم پیش کی تھی کہ ایسا شخص کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں بن سکتا جو بطور رکن پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیدیا گیا ہو یا جو قانون ہذا کے نفاذ سے پہلے کسی دیگر نافذالعمل قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو۔ جماعت اسلامی کے ارکان نے اس کے علاوہ چار دوسری ترامیم بھی پیش کی تھیں جن میں خواتین کے لئے 10فیصد لازمی ووٹ ڈالنے کی پابندی ختم کرکے عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کو خلاف قانون قرار دینے، امیدوار کے کاغذات میں ختم نبوت پر حلفیہ اقرار نامہ برقرار رکھنے کی ترمیم بھی شامل تھی۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی نے بھی بل میں ترامیم دی تھیں جو تاخیر سے جمع کرائی گئیں۔ اس لیئے قواعد کے مطابق زیر غور نہیں آسکتی تھیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ ایم کیو ایم نے انہیں آج ترمیم ’’ہاوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی‘‘ کے اجلاس میں دی۔ اس سے قبل انتخابی اصلاحات کے بل اور اس میں ترمیم کے حوالے سے پی پی پی کے سید نوید قمر، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، ایم کیو ایم کے ایس اقبال قادری، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ نے خطاب کیا۔ قومی اسمبلی کی طرف سے ’’انتخابی اصلاحات کے بل 2017‘‘ کی منظوری کے بعد صدر مملکت بل پر دستخط کریں گے اور یہ ایکٹ بن جائے گا۔ اور اس سے میاں نواز شریف کے مسلم لیگ ن کے صدر کا منصب سنبھالنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سیکشن 203آئین کی روح کے سپرٹ سے متصادم ہے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ اس بل کو ڈیفر کیا جائے۔ ترمیم کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ جس طریقہ سے ترمیم لائی گئی ایک شخص کو فائدہ دینے کیلئے جو غیر جمہوری طریقہ کار ہے۔ اتنے دنوں اگر میاں نواز شریف صدر نہیں تھے تو وزیراعظم انہوں نے بنایا اور کابینہ بھی انہوں نے بنائی۔ جسے کورٹ نے نااہل کیا ہے یہ اس کے سامنے چیلنج ہوتا ہے۔ ہم تصادم کی طرف جارہے ہیں۔ شفقت محمود نے کہا کہ ہم نے نیک دلی سے سارے عمل میں حصہ لیا تھا۔ کئی سو اجلاس ہوئے۔ ہم نے خلوص کے ساتھ عمل میں حصہ لیا۔ ہم نے بہت ساری ترامیم دیں۔ ہم آخری دن تک بیٹھے رہے۔ جس طریقہ سے دھوکہ دہی سے یہ کیا گیا ہے اس پر افسوس ہے۔ ایس اقبال قادری نے کہا کہ یہ اہم بل تھا کہ اس پر 100 اجلاس ہوئے تاکہ برائی دور ہو۔ لیکن جو برائی 203 آ رہی ہے اس تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ سیاست میں سینئر لوگ ہیں کسی کو شک ہے کہ شاہد خاقان عباسی کا انتخاب میاں نواز شریف نے کیا۔ 55 وزیر نواز شریف نے بنائے۔ حامد سرفراز ہمارے ساتھ تھے اور مشرف کا این آر او لکھا کرتے تھے۔ شہباز شریف ان کو پارٹی لیڈر کے طور پر قبول نہیں ہے۔ آج جمہوریت اور پارلیمنٹ کو خطرہ ہے۔ ایک شخص کے لئے جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کے پاس متبادل قیادت نہیں ہے۔ کل اس پارٹی کا سربراہ اجمل پہاڑی بن جائے گا۔ کیا آپ میں کوئی ایک آدمی بھی قابل نہیں۔ کیا شہباز شریف بھی قابل قبول نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں جاؤں گا۔ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ ہمارے گمان میں نہیں تھا کہ بہت سے چیزوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ انتخابی اصلاحات کو متنازعہ بنا دیا۔ یہ طریقہ اپنایا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے جس طرح بات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں جتنے لوگ عدالتوں کے غلط فیصلے سے مرے ہیں میدان جنگ میں اس سے کم مرے ہیں۔ کیا بے نظیر بھٹو اہل تھیں؟ یہاں بار بار کہا گیا کہ ’’مائنس ون‘‘۔ کیا نواز شریف چور تھا؟ جب نواز شریف لندن میں تھا تو کہا گیا کہ شہباز شریف ہمیں قبول ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس لئے پھانسی نہیں دی گئی کہ اس نے نواب پر حملہ کرایا تھا بلکہ وہ آئین کی حکمرانی چاہتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بار بار کہا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ سقراط کو عدالت نے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا تھا۔ نواز شریف اس وقت بھی ناقبول تھا جب وہ باہر تھا۔ بل کے نمایاں نکات کے مطابق کوئی بھی شہری ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں بن سکے گا۔ سیاسی جماعت کارکن پارٹی کے ریکارڈنگ تک رسائی کا حق رکھے گا۔ منظور شدہ بل کے تحت مکمل طور پر خود مختار بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشن انتخابات سے 6 ماہ قبل ایکشن پلان پیش کرنا ہوگا۔ یہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی۔ نادرا سے شناختی کارڈ لینے والوں کے نام ازخود ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں گے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی فارمولہ کی بنیاد پر ہو گی۔ ممبر کی ویلتھ سٹیٹمنٹ وہی ہو گی جو انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت جمع کرائی جاتی ہے اِسکے علاوہ ختم نبوت پر مکمل ایمان رکھے جانے کے حوالے سے بھی ممبر پارلیمنٹ کے حلف میں تبدیلی کی گئی ہے" قانون کے طالب علم ہونے کی حثیت سے راقم یہ سمجھتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہو کر قانون بننے والا مجوزہ قانون سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا اِس مقصد کے لیے ہائی کورٹ کے واضع فیصلہ جات موجود ہیں اِس آئینی ترمیم کا مقصد سب پر واضع ہے اور اِس ترمیم کی وجہ سے جو ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے ایک سوال اُٹھ گیا ہے وہ بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ راقم کے اِس آرٹیکل کی تیاری میں جناب اعجاز چغتائی اور محمد احسان الحق رندھاوا ایڈووکیٹس کا مشکور ہے کہ اُنھوں نے راقم کی رہنمائی کی۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430148 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More