مغربی اظہار رائے کی آزادی کا پول

گزشتہ دنوں نوبل پیس سنٹر اوسلو میں آل پاکستان مسلم لیگ نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جہاں خطاب اور سوال و جواب کے سیشن کے دوران بلوچ علیحدگی پسندوں نے مداخلت کی۔ تقریب میں سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے عالمی امور پر انگریزی میں لیکچر دینا تھا لیکن بھارت کے زر خرید بلوچ علیحدگی پسندوں کو موقع دیا گیا جنہوں نے ہنگامہ کھڑا کیا اس طرح بین الاقوامی ثقافتی میلے کی افتتاحی تقریب کے دوران پاکستان کے وقار کو مجروح کیا گیا۔ بعد میں نوبل پیس سنٹر کی انتظامیہ نے ایک پریس ریلیز میں واضح کیا کہ نوبل پیس سنٹر آل پاکستان مسلم لیگ نے اپنے پروگرام کے لئے کرائے پر حاصل کیا تھا اس لئے وہاں ہونے والے واقعہ کا نوبل پیس سنٹر سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی آف لندن نے بھی پاکستانی طلبہ کے احتجاج کے خوف سے طے پانے والا ایک سیمینار منسوخ کردیا۔ مختلف بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پروگراموں کا منسوخ کرنا اور اس طرح کی سرگرمیوں سے مداخلت سوالیہ نشان ہے جبکہ مختلف گروپوں کے خوف سے اس طرح کے پروگراموں کو ملتوی کرنا مغرب کے نام نہاد حق اظہار آزادی کے پراپیگنڈے کے ڈھول کا پول کھول دیتا ہے۔

آخر بلوچ علیحدگی پسندوں کو ناروے سمیت یورپی ممالک میں کھلی چھٹی کیوں ہے کہ وہ جب چاہیں اور جس پروگرام کو چاہیں وہاں گڑ بڑ کر دیں۔ آخر ایسے تخریب کاروں سے سکیورٹی فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جس کا جواب سمجھ نہ آتا ہو۔ اُردو محاورے کے مطابق بات صاف ظاہر ہے کہ ’’کتی چوروں سے ملی ہوئی ہے‘‘۔ دراصل عالمی ایجنڈا کے تحت آزاد بلوچستان کاشور مچایا جارہا ہے ہے۔جس کا اندازہ جنیوا میں ’’آزاد بلوچستان‘‘ کی حالیہ اشتہاری مہم سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔ فرانس ہو یا امریکا ،برطانیہ ہو یا ناروے ، جرمنی ہو یا سوئزرلینڈ،انڈیا ہو یا پھر افغانستان ،بلوچ علیحدگی پسند باغیوں کو سپورٹ کرنے میں سرفہرست ممالک ہیں۔ چنانچہ آپ بلوچ علیحدگی پسند باغیوں کی لسٹ نکال کر دیکھ لیں سب کے ٹھکانے انہیں ممالک میں ہوں گے یا کم ازکم ان ممالک سے انہیں مالی ،سفارتی سپورٹ ضرور ملتی ہوگی۔

سوال یہ ہے کہ یہ علیحدگی پسند باغی بلوچ کون ہیں؟ کیا واقعی سارے بلوچ آزاد بلوچستان چاہتے ہیں؟ بلوچستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بلوچوں میں مذہب اور اسلامی روایات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان کو نظریہ لاالہ الا اﷲ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا اور بلوچ رہنماؤں کو پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی گئی تو اس وقت بلوچ عمائدین ، علما کرام اور عوام نے صرف اس بنیاد پرپاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا کہ چونکہ پاکستان ایک خاص نظریے کی بنیاد پرحاصل کیا گیاہے۔بلوچوں کے مذہب سے لگاؤ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے، کہ خان آف قلات کی طرف سے باقاعدہ علما کرام ،آئمہ عظام،خطباء کرام اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کرام کے لیے باقاعدہ وظیفہ دیا جاتاتھا۔دین سے لگاؤ کا اثر تھا کہ اکثر بلوچ برطانیہ سامراج کی سامراجیت سے محفوظ رہے۔اگرچہ سامراج برطانیہ خان آف قلات کو اپنے دباؤ میں رکھتے تھے ،لیکن بلوچ جرگے میں علماء کو ایک خاص مقام حاصل تھا جس کا رعب خان آف قلات پر ہمیشہ رہتا۔بہرحال پاکستان کے ساتھ الحاق کی بنیادی وجہ پاکستان اور بلوچستان میں صرف اور صرف نظریہ لاالہ الااﷲ کا اشتراک تھا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت بھی چند لوگوں کو کرسی،اقتدار کا لالچ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی،جس کا نقصان انہیں بھگتنا پڑا، لیکن 95 فیصدبلوچ عوام پاکستان کے حق میں تھی۔ بدقسمتی سے بعد میں علما کرام کا اثرورسوخ بلوچ عمائدین اور قائدین میں کم ہوتا گیا،جس کی وجہ سے پاکستانی گورنمنٹ اور بلوچ عمائدین میں اختلافات سراٹھاتے رہے۔

بلوچستان میں شورش کی دوسری بڑی وجہ چند سرداروں کو نوازا جانا بھی بنا۔جنہوں نے اقتدار کی خاطر خود تو خوب مزے لوٹے ،مگر عوام کو بنیادی سہولیاتِ زندگی اور تعلیم تک سے محروم رکھا۔جس کا خمیازہ بایں صورت نکلا کہ عوام کا اعتماد بلوچ رہنماؤں سے اٹھنے کے ساتھ پاکستانی حکومت سے بھی اٹھ گیا۔ آج بھی بلوچ عوام پاکستانی حکومت سے صرف اس وجہ سے ناراض ہیں کہ انہیں وہ حقوق حاصل نہیں جو پنجاب،سندھ، خیبرپختونخواہ کی عوام کو حاصل ہیں۔ اس کی اصل وجہ وسائل کی صحیح تقسیم کا نہ ہونا اور مقتدر بلوچ حکمران طبقے کا عوام کے نام پر حاصل کیے گئے وسائل کو ان تک نہ پہنچانا شامل ہے۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 39112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.