دوہرا میعار استحکام سے دور لے جاتا ہے کیونکہ سچائی یا
حقائق آجکل چھپائے نہیں چھپ رہے۔دنیاکے کسی بھی کونے میں ہونے والے دہشت
گردی کے واقعات ہم پاکستانیوں کی نیندیں اڑا دیتی ہیں جسکی وجہ ہونے والی
دہشت گردی نہیں بلکہ اس دہشت گردی کا تانہ بانہ ہمارے ہی کسی بھائی سے جوڑے
جانے کااندیشہ یا خوف اس کا سبب ہوتے ہیں۔ ۹ ستمبر ۲۰۱۱ سے لیکر آج تک ہم
پاکستانی سکون کا سانس نہیں لے سکے اس کے برعکس امریکی شہری کچھ دنوں کا
سوگ مناکر اپنی خر مستیوں میں مصروف ہوگئے ۔ یہ بات دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں
کہ امریکا اپنی بقاء کی جنگ پاکستان کے کاندھوں پر کھڑے ہوکر لڑ رہا ہے اور
پاکستان بھی امریکا کو کندھے پر بیٹھا کر سمجھ رہا ہے کہ وہ بھی دنیا میں
اہم مقام حاصل کئے ہوئے ہے جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ امریکہ شائد ہی ابھی
تک کسی ملک پر اپنی چاہ کیمطابق اپنا باقاعدہ تسلط قائم کر سکا ہے ایسا
تسلط جسکا خواب نا معلوم کب سے امریکی تھنک ٹینک اپنی آنکھوں میں سجائے
ہوئے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر بنتے بنتے کتنے ہی ادوار گزر گئے ہیں مگر تعبیر
کا کہیں دور دور تک کچھ پتہ نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا کا امن و
سکون تباہ وبرباد ہو کر رہ گیا ہے۔ جس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے
ممالک میں پاکستان سرِ فہرست ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ کی ریاست نواڈا کے شہر لاس ویگاس میں ایک انتہائی دل
خراش واقع رونما ہوا جس میں تقریباً ۶۰ زندگیاں موت کی آغوش میں چلی گئیں
اور ۵۰۰ کے قریب لوگ زخمی حالت میں ہسپتالوں میں منتقل کئے گئے ہیں جن میں
سے یقیناًکچھ کی حالت بھی تشویناک حد تک خراب ہوسکتی ہے۔ ایک مقامی فرد نے
اپنی گن سیدھی کی اور اس مجمع پر گولیوں کی بارش کردی جس کی زد میں آکر اور
بھگدڑ مچنے کی وجہ سے اموات کی ایک طویل فہرست مرتب ہوگئییہ واقع ایک
تھرکتی شام میں ہوا جہاں موسیقی کے دلدادہ ہزاروں کی تعداد میں جمع تھے ۔
واقع پر موجود لوگوں کے بیانات کیمطابق ایسا لگا جیسے گولیوں کی بارش شروع
ہوگئی پھر ہرطرف چیخ و پکار اور پھر بھگدڑمچ گئی۔ یہ ایک انتہائی دل گداز
اور افسردہ کرنے والی خبر تھی جوپاکستانی وقت کے مطابق ہوئی تو رات گئے مگر
ہماری انسانیت سے محبت کا ثبوت یہ تھا کہ یہ خبر اخباروں میں اپنی جگہ بنا
چکی تھی۔اکثر پاکستانیوں کے ذہنوں میں خبر دیکھتے ہی جس خیال نے سر اٹھایا
وہ وہی تھا کہ کسی طرح جلدی سے اس واقع کے ذمہ دار کا کم از کم نام پتہ چل
جائے تاکہ آگے ہونے والے عملی اقدامات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جو نام نکلا
وہ وہاں کہ ایک مقامی اور غیر مسلم فرد کا تھا اور اسکا نام سٹیون پیڈک
نامی شخص تھا جسکی عمر تقریبا ۶۴ سال بتائی جارہی ہے جو کہ ناتو فوجی تھا
اور نا ہی کسی اس قسم کی کاروائیوں میں ملوث تھا جن کا تعلق ہتھیاروں سے
ہو۔بین الاقوامی میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر کے مطابق جس ہوٹل (مینڈالابے)
میں یہ شخص ٹہرا ہوا تھا وہاں تو جیسے اسلحہ کی دکان لگی دیکھائی دے رہی ہے
۔ اب سب سے پہلے تو یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اتنا اسلحہ ہوٹل کے ۳۲ ویں فلور
تک پہنچا کیسے۔ یہ شخص دنیا کے طاقتور حفاظتی اداروں کی آنکھ سے زیادہ دیر
نہیں محفوظ رہ سکتا تھا اور ایساہی ہوا اسے اس کے کمرے میں ہی موت کے گھاٹ
اتار دیاگیا مگر ابھی یہ معمہ حل ہونا چاہئے کہ ایک عام سا فرد کس محاذ پر
کام کر رہا تھا اور کیوں اپنے ہی جیسے لوگوں کی جان لینے کے درپے ہوا۔ بہت
جلد امریکہ کے چاک و چوبند تحقییقی ادارے اس راز پر سے پردہ ہٹادینگے لیکن
کیا دنیا کو بھی بتائینگے؟۔ ایک شبہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عجیب و غریب پالیسیوں کا اجراء بھی
ہوسکتا ہے لیکن حقیقت تو وقت آنے پر ہی پتہ چل سکے گی۔
گزشتہ کئی ماہ کا جائزہ لیں تو امریکہ میں اسطرح کے کئی واقعات رونما ہوئے
ہیں جن میں اسی طرح معلوم افراد نے نامعلوم وجہ کے انسانی زندگیوں کو موٹ
کے منہ میں دھکیل دیا۔ کیونکہ امریکہ میں اسلحہ لے کر چلنے کی ممانعت نہیں
ہے اس لئے ایسے واقعات کو عملی جامہ پہنانابھی مشکل کام نہیں ۔ غور طلب بات
یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک کے شہر میں جہاں یقیناًدنیا کی ہر آسائش
میسر ہوگی اور اس شہر میں اتنی بڑی خونریزی کی واردات نا صرف آمریکہ بلکہ
دنیا کے ان تمام ممالک کیلئے آنکھیں کھولنے کیلئے ہے جو اپنے ملک کے
باشندوں کو آسائشیں دے کر اپنی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں۔
اگر کسی ایسی یا اس سے ملتی جلتی واردات میں کوئی مقامی مسلمان نکل آتا ہے
تو وہ دہشت گرد اور اسکی کی جانے والی کاروائی کو سیدھا سیدھا دہشت گردی
کہہ دیا جاتا ہے جبکہ لاس ویگاس اور اس طرح کی دیگر کاروائیوں کو دہشت گردی
کہنے تک سے گریز کیا جاتا ہے ۔ دینا کا یہی دوہرا میعار دنیا کو رہنے کے
قابل نہیں رہنے دینے والا ۔ آخر ایسی کون سی مصیبت آگئی ہے کہ نفسیاتی لوگ
اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برساتے پھر رہے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کے تھنک
ٹینک بیٹھے پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کیلئے سوچ بچار میں مصروف
رہتے ہیں ذرا یہ بھی تو سوچیں کہ آپکی نسل کو یہ نفسیاتی کون بنا رہا ہے
کہیں اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہی تو نہیں ہیں۔ آخر کب تک ہمیں دہشت گرد اور
اپنے لوگوں کو بیمار کہہ کر جان چھڑاتے رہینگے۔ایک دن یہ سارے بیمار ایک
ساتھ ہوکر آپ کی پالیسیوں کے خلاف ہی بغاوت نا کردیں۔ |