میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے بلا مقابلہ صدر منتخب
ہوگئے ہیں، جو آئندہ چار سال مسلم لیگ (ن) کے صدر رہیں گے۔ چیف الیکشن
کمشنر مسلم لیگ ن نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے کاغذات نامزدگی کی جانچ
پڑتال کا عمل مکمل کیا اور پارٹی الیکشن کمیشن نے نواز شریف کے کاغذات بلا
اعتراضات قبول کیے۔اس سے پہلے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی اپوزیشن کی
شدید مخالفت کے باوجود انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی کثرت رائے سے منظوری دے
دی ، جس کے بعد نواز شریف ہی مسلم لیگ (ن) کے صدر برقرار رہیں گے، جبکہ صدر
کی دستخط کے بعد بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گیا، جس کے تحت کوئی
بھی شخص جو عوامی عہدہ نہ رکھتا ہو، وہ پارٹی صدر بن سکے گا۔ قبل ازیں نون
لیگ کی مرکزی جنرل کونسل نے سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے فیصلوں کی منظوری دیتے
ہوئے پارٹی صدر کے عہدہ کے لیے انتخاب، جبکہ پارٹی آئین سے آرٹیکل 63,62 کو
نکالنے کی بھی منظوری دی۔ وزیر قانون زاہد حامد نے جب اجلاس میں بل پیش کیا
تو اپوزیشن نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے ہوئے سپیکر سردار ایاز صادق
کے ڈائس کا گھیراؤ کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں۔
دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں پیر کے روز نیب عدالت میں سابق وزیراعظم
نوازشریف کی پیشی کے موقع پر سیکورٹی پر مامور رینجرز اہلکاروں نے مسلم لیگ
ن کے کارکنوں اور صحافیوں کو عدالت کے احاطہ میں جانے کی اجازت نہیں دی۔
تاہم معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے
ماتحت رینجرز نے انہیں بھی اندر جانے سے روک لیا۔ اس واقعہ پر پاکستان مسلم
لیگ ن سمیت بہت سے دیگر سیاسی حلقوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑگئی۔
بہرحال یہ واقعہ سول اور پیرا ملٹری فورس کے حکام کے مابین کوآرڈینیشن کے
انحطاط، بلکہ مکمل بد انتظامی کی ایک تلخ مثال کے طورپر تعبیر کیا جاسکتا
ہے، تاہم یہ بد انتظامی ہے، سازش ہے یا پھر ڈرامہ ہے۔ یہ تاحال ایک معمہ ہے۔
تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی حلقوں کے خیال میں وفاقی وزراء اور
پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان کو نااہل سابق وزیراعظم کی حمایت کے لیے پیشی
کے موقع پر عدالت نہیں جانا چاہیے تھا، جبکہ دوسری جانب رینجرز کی جانب سے
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو بھی روکنے کو دارالحکومت میں ایک ’’خاص
پیغام‘‘ کے طورپر قرار دیا جارہا ہے، ان حلقوں کے مابین یہ ’’خاص پیغا م‘‘
آئندہ آنے والے سیاسی منظر نامے کا صرف ایک ’’ٹریلر‘‘ ہے۔ احتساب عدالت کے
باہر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج
اچانک پتہ چلا کہ رینجرز نے پوزیشن سنبھال لی ہے اور چیف کمشنر کے احکامات
ماننے سے انکار کر دیا۔ احسن اقبال نے کہا میں بطور وزیر داخلہ اس بات کا
نوٹس لوں گا اور اس کی تحقیقات ہوں گی۔ ایک ریاست کے اندر دو ریاستیں نہیں
چل سکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملہ حل نہ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا۔
پیر کے روز رات تک ملک بھر میں اس تنازعہ سے پیدا ہونے والی خبریں ہی زیر
بحث تھے کہ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے رات کے وقت معزول وزیراعظم
محمدنوازشریف کے دوبارہ پارٹی سربراہ بننے میں رکاوٹ بننے والی نااہلی کی
شق کو پارٹی آئین سے نکال کر نوازشریف کی سیاست میں واپسی کو قانونی تحفظ
دینے کے لیے اسمبلی سے بھی اس متنازعہ ترمیم کو منظور کروایا لیا گیا۔ قدرے
عجلت میں گزشتہ رات ہی صدرمملکت ممنون حسین نے بھی اس بل پر دستخط کرکے
نوازشریف کے لیے دوبارہ پارٹی صدربننے کے راستے کھول دیے۔ مبصرین کا کہنا
ہے کہ موجودہ حالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعات
سیاسی و اخلاقی لحاظ سے قابل تحسین نہ تھے۔ اسلام آباد میں محاذ آرائی کے
ماحول میں اضافہ ہورہا ہے۔ رینجرز کی جانب سے وزیر کو عدالت میں جانے سے
روکا گیا ہے اور عدالت کی جانب سے نااہل ہونے والے وزیراعظم محمد نوازشریف
کو پارٹی صدارت دوبارہ سونپنے کے تمام انتظامات کو تیزی کے ساتھ حتمی شکل د
ی گئی۔ ایک ہی دن میں تمام قانونی رکاوٹیں ہٹادی گئیں۔ اگرچہ عالمی جمہوری
اقدار کے حوالے سے اس اقدام کی اخلاقی حیثیت کمزور ہے اور اس پر سوالات
اٹھائے جارہے ہیں، لیکن حکمران جماعت کے اکابرین حامی اور کارکنوں میں یہ
تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ انہیں سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی کوششیں
ہورہی ہیں۔ گزشتہ روز کے حالات نے بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں، جس سے سول
ملٹری تنازع کی بڑھتی ہوئی خلیج نے اصل معاملہ کو دھندلا دیا ہے اور حالات
کا رخ ظاہر کر رہا ہے کہ معاملات میں ٹھہراؤ کی بجائے ٹکراؤ غا لب ہے اور
اس صورتحال میں خود ریاستی مفادات حکومت کی رٹ اور اداروں کا وقار داؤ
پرلگتا نظر آ رہا ہے۔ لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں اور حکومت میں کہیں نہ کہیں
خرابی ضرور موجود ہے۔ یہ امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر اداروں اور
حکومت کے درمیان اختیارات کی آئینی تقسیم اور حدود کا سلسلہ اسی طرح جاری
رہا تو بہتری کا امکان کم اور سیاسی ابتری کا امکان زیادہ ہے، جس کا نقصان
بہرحال ملک میں جاری جمہوریت اور ان قوتوں کو ضرور ہوگا، جو اس جمہوری عمل
کے ذریعے اس ملک کو آگے لے کر جانے کا عزم رکھتی ہیں۔
وطن عزیز بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف افغانستان کے ساتھ کشیدگی
عروج پر ہے، افغان صدر بھارت کی شہہ پر عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف
الزامات لگا رہے ہیں، دوسری جانب بھارت نے نہ صرف سرحد پر گولہ باری کا
سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا
جارہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے
کے مشن پر ہے، جبکہ امریکا کے ساتھ بھی پاکستان کے معاملات کشیدہ ہیں۔
امریکا پاکستان کے خلاف قوانین منظور کر رہا ہے اور پاکستان پر الزامات لگا
رہا ہے، جبکہ پاکستان امریکا کی جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔ خواجہ آصف کے
امریکا میں دیے گئے بیانات سے بھی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ان
کے علاوہ بھی پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات ہیں۔ اس وقت جن نازک اور حساس
حالات سے دوچار ہے، ان کا اولین اور ناگزیر تقاضا ہے کہ آئین کی بالادستی
اور قانون کی حاکمیت کو یقینی بنایا جائے۔ یہی وہ طرز عمل ہے، جس میں ملک
کی سالمیت، بقااور عوامی خوشحالی مضمر ہے۔ آئین کی بالادستی ہوگی تو اداروں
کو بھی اپنی کی حدودو قیود کا خیال رہے گا، کوئی بھی ادارہ اپنی حدود سے
تجاوز نہیں کر پائے گا اور نہ ہی ایک ادارے کو کسی دوسرے سے شکایت ہوگی۔ ہر
ادارے کو وہ فرائض سرانجام دینا ہوں گے، جن کی آئین میں صراحت ہے اور جن سے
روگردانی کی صورت میں تادیبی کارروائی کا بھی تعین ہے۔
کچھ عرصے سے یہ کہا جارہا تھا کہ حکومت اور فوج بیشتر معاملات میں ایک صفحے
پر نہیں اور ڈان لیکس کے بعد سے لے کر اب تک دونوں اداروں میں راہ پا جانے
والی سرد مہری ہنوز قائم ہے، بلکہ اس میں روزافزوں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
گزشتہ روز رینجرز کی طرف سے حکومتی زعما اور میڈیا کو عدالت میں جانے سے
روکا جانا اور حکومتی ارکان کی جانب سے صرف ایک شخص کی خاطر آئین میں
تبدیلی کردینا موجودہ حساس حالات میں کوئی نیک شگون نہیں، بلکہ یہ اداروں
میں چپقلش کا ثبوت ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ اداروں کا تصادم کسی بھی
صورت ملک و قوم کے حق میں بہتر نہ ہوگا۔ اس سے بہرصورت گریز کیا جانا
چاہیے۔ ہرادارے کو دوسرے اارے کا احترام کرنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ افہام و
تفہیم کی راہ اپنائی جائے اور معاملات کی مشترکہ تحقیق کی جائے۔ عمل سے
ثابت کیا جائے کہ اداروں میں کوئی بْعد نہیں اور سب ادارے اس امر سے بخوبی
آگاہ ہیں کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات جتنے گنجلک ہیں، انہیں
سلجھانے کے لیے سب کو متحد ہو کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ سیاسی اور عسکری
قیادت کو اس حوالے سے اپنا قومی فریضہ بطریق احسن انجام دینا ہوگا اور ایسے
کسی بھی تاثر کو زائل کرنا ہوگا کہ خدانخواستہ ملک کے ادارے ایک صفحے پر
نہیں ہیں۔
درحقیقت حکمرانوں، سول اور ملٹری بیوروکریسی کو آئین پر من وعن عمل کرنا
چاہیے۔ اگر تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض ادا کرتے رہیں
تو تضادات پیدا نہیں ہوتے، ورنہ اداروں کے مابین تناؤ اور تصادم پیدا
ہوجاتا ہے۔ بہر کیف ریاست کے تمام ستونوں اور اداروں کو آئین کے اند ر رہ
کر کام کرنا چاہیے۔ مگر منتخب حکومت کو بھی عدلیہ ہو یا فوج دوسرے اداروں
کا احترام کرنا چاہیے۔ ڈان لیکس اور عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کی
شکل میں وسرے اداروں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ
کسی کو پسند ہو یا نا پسند، اسے تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ انتخابی اصلاحات
بل کے ذریعے ترامیم کرکے اس فیصلے کو پس پشت ڈالنا واضح طور پر ایک محاذ
آرائی کا راستہ ہے اور اس پر چل کر جمہوریت کبھی مضبوط نہیں ہو گی اور دیگر
اداروں کو بھی پارلیمنٹ کے جائز اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی
چاہیے۔
حقیقت کا اعتراف یہی ہے کہ میاں نواز شریف کے کیس کے حوالہ سے سول اور
ملٹری تصادم بڑھتا نظر آ رہا ہے، مگر اس بڑھتے ہوئے تناظر میں اگر کسی کا
نقصان ہوگا تو وہ پاکستان اور پاکستانی معیشت اور پاکستانی جمہوریت کو ہوگا
اور پھر ملک کی اگلی سمت کا فیصلہ حالات کریں گے۔ معاملات کو کسی انتہائی
پوزیشن پر لے جانے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ معاملات اور حالات کا کوئی
سیاسی حل نکالا جائے اور سیاسی حل موثر اور کارگر ہو سکتا ہے۔اداروں کے ما
بین تصادم میں نہ کوئی ہیرو ہوگا اور نہ کوئی شہید، بلکہ سب کے سب ہارنے
والے اور خسارہ اٹھانے والے ہوں گے اور سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم کا
ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ پچھلے چند برسوں میں سول اور ملٹری قیادت نے قومی
وقار کے تحفظ، کھوئی ہوئی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کو دوبارہ حاصل کرنے کے
لیے اقدامات کیے ہیں، مگر جب تک قوم کے اندر یکجہتی پیدا نہیں ہوتی اور
اداروں کے مابین محاز آرائی کا خاتمہ نہیں ہوتا، ملک دشمن ایسی صورت حال سے
فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ |