حالیہ چند ہفتوں سے سماجی اور سیاسی حلقوں میں وزیر خارجہ
خواجہ آصف کا بیان زیر بحث ہے کہ ’’عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کے لیے
ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے ‘‘ ۔ان کے مطابق 1980کی دہائی میں
پاکستان کا سوویت یونین کے خلاف امریکہ جنگ میں پراکسی کا کردار ادا کرنا
ایک غلطی تھا ہمیں اسے تسلیم کرنا ہوگا اور غلطیوں کو سدھارنا ہوگا ۔ اس
بیان کے بعد تواتر سے اعلیٰ حکومتی شخصیات بشمول وزیراعظم شاہد خاقان عباسی
نے اس بیان کی تائید کرتے ہوئے گھر کی صفائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے
دیا ۔جس پر چوہدری نثار نے برملا کہا کہ ہمیں دشمنوں کی کیا ضرورت ہے ۔۔ہندوستان
اور افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں مگر کوئی انھیں اپنا
گھر ٹھیک کرنے کا مشورہ نہیں دیتا لہذاہمیں ایسے بیانات سے گریز کرنا
چاہیئے جو کہ بین الاقوامی برادری میں ملک کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں
پاکستان کی سالمیت اس وقت خطرے میں ہے اور ہم اپنے لیے حصول اقتدار یا
استحکام اقتدار کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ ویسے چوہدری نثار نے ڈان لیکس کے
وقت بھی ایسا ہی مشورہ دیا تھا اور حلقہ 120کی انتخابی مہم کے دوران اداروں
کے خلاف اختیار کی جانے والی جارحانہ پالیسی پر بھی برہم ہوئے تھے بعض
لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار کا اسٹیبلشمنٹ سے واسطہ ہے اس لیے بھی وہ
لیگی قیادت کی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی پر نالاں ہیں مبصرین ان کے پیچھے
ہٹنے کی بھی یہی وجہ بتاتے ہیں مگر وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ میں ووٹ کے
تقدس میں جماعت کے ساتھ ہوں مگر طریقہ کار سے اختلاف ہے یعنی یہ پرانی
اختلاف رائے چلی آرہی ہے ۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ خواجہ آصف کا بیان فارن پالیسی اگینسٹ
پاکستان کا عکاس ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے نقطہ نظر کو سابق وزیر داخلہ
چوہدری نثار نے ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا ہے ۔بدقسمتی سے آجکل لیگی قیادت
سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہی ہے تاکہ اداروں پر دباؤ ڈال کر پانامہ کیس
سے پیچھا چھڑوایا جا سکے اور میاں صاحب کی بحالی کا کوئی راستہ نکلوایا جا
سکے ایسے میں سیاسی مخالفین سے بھی ملاقاتیں عروج پر ہیں مگر ایسے بیانات
سے سول حکومت اور اسٹیبلشمینٹ تناؤ کھل کر سامنے آرہا ہے کیونکہ جن لوگوں
نے دنیا پر واضح کرنا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پر عزم ہیں وہی لوگ
ابہام پیدا کر رہے ہیں جبکہ پاک افواج کی طرف سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر
سختی سے تردید اور وضاحت سامنے آئی تھی لیکن جب سے نا اہلی کیس سامنے آیا
ہے مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانات برملا اور
درپردہ بھی کچھ زیادہ ہی آرہے ہیں جو کہ سول حکومت اور اسٹیبلشمینٹ کے بیچ
کشمکش کو ثابت کرتے ہیں ۔ یہی بیان بازی مسلم لیگ ن کی ناکامی کی ہمیشہ بڑی
وجہ بنتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سبھی ن لیگی گھر کی صفائی پر زور دے رہے
ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت دو دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے
کہ جن لوگوں کو میاں صاحب نے نوازا ہے وہ ہر پلیٹ فارم پر میاں صاحب کی نا
اہلی کو بنیاد بنا کر اداروں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں اورایسے زہریلے گولے
داغتے رہتے ہیں کہ عام آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔ حالانکہ ایسا کرنا
برسر اقتدار حکمرانوں کی شان کے بھی خلاف ہے ۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہ بیانات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں اور پاکستان
دشمن عناصر کی تنقید کو تقویت دے رہے ہیں کیونکہ امریکہ کی نئی افغان
پالیسی میں پاکستان کو مسئلے کے حل کا حصہ سمجھنے کی بجائے اسے اصل مسئلہ
قرار تسلیم کر لیا گیا ہے اور گذشتہ ماہ چین میں منعقد ہونے والی برکس
کانفرنس میں پہلی بار پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدام پر زور
دیا گیا ہے اور طالبان پاکستان ،حقانی نیٹ ورک ، لشکر طیبہ ، جیش محمد حزب
التحریر اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں کی سرکوبی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ
کیا گیا ہے ۔بھارتی میڈیا نے تو اسے نریندر مودی کی فتح قرار دے رہا ہے اور
وہ اپنی کاوشوں پر کیوں فخر محسوس نہ کریں کہ ان کے خواب کو موجودہ
’’دھیاڑیے حکمرانوں ‘‘نے پورا کر دیا ہے ۔ جبکہ پاکستان کے لیے یہ لمحہ
فکریہ ہے کہ برادر ملک چین جو کہ ہمیشہ پاکستانی مؤقف پر ڈٹ جاتا تھا اس
بار وہ بھی اس مشترکہ اعلامیہ میں شامل تھا ۔حالانکہ پاکستان پہلے ہی ان
تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے چکا تھا اور دنیا پر واضح بھی تھا کہ’’ ضرب
عضب‘‘ کے ذریعے پاکستان دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پا چکا ہے اور ان گنت
قربانیاں دی جا چکی ہیں مگر اب بھارت اس مشترکہ اعلامیہ کے حصے کو پاکستان
کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر استعمال کر رہاہے اور مسلسل زہر اگلتے ہوئے
پاکستان کو دہشت گرد ڈکلئیر کر رہا ہے بدیں وجہ سیز فائر کی خلاف ورزیاں
آئے روز جاری ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور
اپنے ہی ملک میں مسلمانوں پر مسلسل زمین تنگ کی جا رہی ہے اور پاکستان میں
بھی ’’را‘‘ کی معاونت سے مذموم سرگرمیاں جاری ہیں اور پھر بھی بھارت ا من
کا داعی بنا پھر رہا ہے۔اور پاکستانی حکمران افواج پاکستان کی قربانیوں اور
کاوشوں کی داد دینے کی بجائے ازخود ہی ڈومور کے ہم نوا صرف اور صرف آرمی سے
تعصب کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں جو بہت ہی خطرناک ہے ۔یہ رویہ ترک کرنا
ہوگا کیونکہ ایسے کشیدہ حالات میں چین کا موقف جہاں سوالیہ نشان ہے وہاں
پاکستان کے لیے یہ واضح پیغام بھی ہے کہ شاید دشمن منصوبہ بندی کر چکے ہیں
کہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر افغانستان میں ان مقاصد کو حاصل کیا جاسکے جو
کہ موجودہ حالات میں ناممکن ہے اور بھارت جو کہ پاکستان کا ازلی وابدی د
شمن ہے اور روز اول سے ہی اس نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا وہ امریکہ
سے ہاتھ ملا کر خطے پر اپنا تسلط قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارے دوست ملک چین میں
یہ اعلامیہ پیش ہوا جس میں پاکستان کو سخت پیغام دیا گیا اور چین نے بھی اس
کی تائید کردی جو کہ ہمیشہ پاکستان کے حق میں ڈٹ جاتا تھا حالانکہ یہ
اعلامیہ اس کے بر خلاف بھی ہو سکتا تھا کہ بھارت کی مذموم کاروائیوں پر اسے
حسب معمول سخت پیغام دیا جاتا اسے پاکستانی وزارت خارجہ کی نا اہلی اور
بدنیتی نہ کہیں تو کیاکہیں کہ پانچ ممالک چین ،روس ،بھارت ،برازیل اور
جنوبی افریقہ پر مشتمل تنظیم نے اسے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا
مبینہ الزام دیکر پوری دنیا کے میڈیا اور عوام الناس میں تماشا بنا دیا ہے
۔اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی رنجشوں اور دیرینہ مفادات پر مبنی
دوستیوں کی بنا پر ایک دوسرے پربیان بازیاں کر رہے ہیں ۔ حکمران جماعت کی
سینئر قیادت کی باہمی رنجشوں نے مغربی میڈیا کے پراپیگینڈے کو مزید تقویت
دے دی ہے ۔کیا قومی سلامتی کے ایشوز پر غیر ذمہ دارانہ بیان بازیاں مناسب
ہیں ؟ اور کیا پاکستان ان کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان امریکہ معاشی
پابندیوں کا دباؤ برداشت کر سکتا ہے ؟ بھارت چین ڈوکلام سرحدی تنازعہ بھی
ختم ہو چکاہے اور چین کا حالیہ مؤقف اس اعلامیہ کے ساتھ واضح ہو چکا ہے
توکیا حالیہ صورتحال ملکی مفاد میں ہے ؟آج جبکہ پاکستان ہر طرف اور ہر طرح
سے تنہائی اور تنقید کا شکار ہو چکا ہے اورماضی کے اپنے بھی دشمنوں کے
ہمنوا نظر آرہے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ ہمارا بیانیہ ذمہ دارانہ اور ملکی
سلامتی و وقار کا آئینہ دار ہو ۔سول اور ملٹری اختلافات کا جو ابہام پیدا
ہو چکا ہے اس کو ختم کیا جائے اور مناسب حل تلاش کیا جائے تاکہ اداروں کا
وقار مزید مجروح نہ ہو کیونکہ ریاست بے سیاست نہیں ہوتی اور سیاست سے مراد
ملک و ملت اور ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود ہے ۔
اب آپ ہی دیکھ لیں کہ پاکستان مخالف پالیسیوں میں بھارت کسی حد تک پیش پیش
ہے اور بھارت کے لیے ہمارے بیانات کیسے ہیں یعنی خواجہ آصف کہتے ہیں کہ
ہندو اور مسلمان ایک ہی تنے کی دو شاخیں ہیں ۔ہمارا خمیر ایک ہی ہے درمیان
میں ایک لکیر لگا دی گئی ہے ہم ایک جیسے لوگ ہیں ہمیں الگ کرنے والوں نے دو
الگ الگ ملک بنا دیے ۔ اور برکس کانفرنس کے بارے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ
یہ برکس اعلامیہ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کے
لحاظ سے ہمیں نئی خارجہ پالیسی بنانا ہوگی ۔ ایسے ہی بیانیے لیگی قیادت کے
خلوص اور نیت کو مشکوک کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر بھی اس حکومتی
روش کو نا پسند کیا جاتا ہے کہ کھل کر بھارت کے خلاف بیان نہ دینا اور
بھارتی پاکستان مخالف پالیسیوں پر آوازہ بلند نہ کرنا کس مصلحت کے تحت ہے ؟
حکومتی ایوانوں میں پکنے والی کھچڑی کونسی دانشمندی کا ثبوت پیش کر رہی ہے
؟ آئین بدلنے میں جو توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں اگر وہ ملکی استحکام میں
لگائی جاتی تو آئین بدلنے کی نوبت ہی نہ آتی مگر افسوس کہ حکومتی ایوانوں
کی اعلیٰ سطحی قیادت اس وقت میاں نواز شریف کو بچانے کے لیے سر جوڑے بیٹھی
ہے اور پرانے فارمولے پر عمل کیا جا رہا ہے جبکہ آج وقت اور حالات دونوں
تبدیل ہو چکے ہیں ایسے میں میاں صاحب بحال ہوں کہ نہ ہوں اس کا تو علم نہیں
مگر ملکی استحکام داؤ پر لگ چکا ہے اور حکمران جماعت کی سینئر قیادت کی
بیان بازی سے آج یہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہمیں
دشمنوں کی کیا ضرورت ہے ! |