عید اشتہارات ۔ بقر عید ۔ اسپیشل

کہتے ہیں کہ زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتیں ہیں جو بھلائے نہیں بھولتیں، ان میں سے سرفہرست بچپن اور بچپن کی عیدیں۔ جی ہاں بھلا وہ کون ہوگا کہ جسے اپنا بچپن اور اس بچپن کی عیدیں نہ یاد ہوں۔ صاحب ہمیں تو یہ دونوں ہی بخوبی نہ صرف یاد ہیں بلکہ اپنے بچپن کی عیدوں کے ساتھ منسلک بہت سی باتین اور یادیں آج بھی زہین کے نہاں گوشوں میں روزِ اول ہی کی طرح سے روشن ہیں

ان عیدین کی دیگر باتوں میں سے ایک بات جو ہمیں آج بھی مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے وہ ہے عید کے تین دنوں میں ٹی وی پر چلنے والے صُوتی اشتہارات ۔ جی ہاں صُوتی اس لیئے ہم نے کہا کہ چلتے تو یہ اشتہار ٹی وی پر ہی تھے لیکن اسکرین پر عموماً انتہائی چھوٹے پیمانے کے کاروباری مشتہریں کی ساکت تصاویر کے پس منظر میں انکا تجارتی پیغام پڑھ کر سنا دیا جاتا تھا۔ ہاں البتہ پیغام سے قبل کچھ اس طرح سے بگل بجایا جاتا تھا کہ مانوں جسے کسی لشکرِجرار کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا جارہا ہو، شاید انکا ارادہ سوئے ہوئے ناظرین و سامعین کو بیدار کرنے کا رہا کرتا ہوگا۔

بحرحال ارادہ انکا جو بھی ہو لیکن وہ اشتہارات خوُب ہوا کرتے تھے۔ دراصل وہ اشتہار اشتہار کم اور کمپنی کی مشہوری اور کمپنی کی مشہوری سے بھی بڑھ کر ان کے اکلوتے مالکان یعنی کہ سول پروپرائیڑوں (جیسکہ خود ان اشتہارات میں پرُزور انداز میں بتایا بلکہ جتلایا جاتا تھا) کی مشہوری کی اسکیم زیادہ معلوم ہوتے تھے، اب بھلے ہی سے وہ مشہوری ان کے گلی محلے سے آگے نہ بڑھ سکے لیکن ان اشتہارات کے چلنے کے بعد کم از کم گلی محلے کے لونڈے لپاڑے بھی انہیں دور سے نہ سہی اگر ایک آدھ گز کے فاصلے سے ہی پہچان لیں تب بھی یہ سودا کچھ خاص مہنگا نہ تھا اور اگلی عید تک وہ اپنی اسی سرشاری کیفیت کا مزہ لوٹتے رہتے، بالکل ویسے ہی جیسے اگر گلی کے کسی میلے کچییلے موالی لڑکے کو کوئی حسینہ محض غلطی سے مسکرا کر دیکھ لے اور وہ محلے بھر میں اپنی چھاتی چوڑی کیئے پھرتا رہے۔ ویسے ان اشتہارات کے پیغامات بھی بڑے ہی نرالے ہوا کرتے تھے مثلاً:

کالی پیلی چائے بنانے والے میاں عبدالقدوس کی جانب سے اھلیانِ وطن کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں، ہماری چائے کا ایک کپ ہی آپکے لئے کافی ہے (اب پتہ نہیں کہ اس سے انکی مراد کہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تو نہیں تھی؟)

ململ لان بنانے والے حضور بخش شکار پوری کی طرف سے قوم کی تمام ماں، بہن اور بیٹوں کو عید کی دلی مبارکباد (چونکہ مرد حضرات ان کے خریداروں میں شامل نہیں لہٰذا مبارکبادی میں بھی انہیں شامل کرنے کی زحمت گواراہ نہیں کیجاتی تھی) ململ لان بنانے والوں کا پیغام ہے کہ اس عید خریدئے اور اگلی عید تک پہنئیے۔

نیستی چھالیہ ، چھی چھی سونف سپاری اور تھو تھو پان مصالحہ بنانے والے بابو بھائی پنواڑی کیجانب سے قوم کو عید کی بھرپور خوشیاں مبارک ہوں: انکا پیغام ہے کہ جو ایک بار ہماری نیستی چھالیہ، چھی چھی سونف سپاری اور تھو تھو پان مصالحہ کھائے وہ پھر زندگی بھر اور کچھ نہ کھائے۔ (جی ہاں، کیوں نہیں، یہ سب کچھ کھا کر منّہ اور حلق کے جان لیوا امراض سے بچ پائے گا تو کچھ کھائے گا نا؟)

علاقہِ لالو کھیت کی خود ساختہ محلاتی پنچایت کمیٹی کے صدر، چیرمین، جنرل سیکریٹری کی جانب سے سارے محلے دارن کو عید مبارک ہو، منجانب پروپیگنڈا سیکریٹری: مسئلہ گھریلو ہو کہ محلہ داری کا، الجھے سے الجھے مسائل کو سلجھانا ہماری کمیٹی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔(اور وہ جو آپکا دایاں ہاتھ پہلے ہی ان تمام مسائل کو مذید الجھانے میں مصروف ہوتا ہے، اسکا کیا؟)

تیری بیڑی، میری بیڑی، سب کی بیڑی، بابو بیڑی بنانے والے دادا بیڑی (غور سے نہ سننے پر دادا بیڑی، داداگیری سنائی دیتا تھا) منیوفیکچرنگ کمپنی (پرائیوٹ ) لمٹیڈ کی جانب سے تمام بیڑی نوشوں اور فروشوں تک عید کی دھواں دھار مبارک باد پہنچے، انکا پیغام ہے: لگے دم، مٹے غم! (بالکل درست فرمایا، دم ہوگا تو غم ہوگا نا؟) ویسے تو انکا پیغام خاص الخاص نوجوانانِ ملت کیلئے ہے ، البتہ دیگر درمیانی، ادھیڑ عمر ، پکی عمر ، گئی گزری عمر اور آخری عمر کے لوگ بھی کان دھرلیں تو افاقہ ہونے کی قوی امید ہے۔

بھینس سوپ بنانے والے (واضح رہے کہ یہ بھینس سوپ ہے، بھینس سُوپ نہیں) ناگوری برادران کی جانب میلی کچیلی قوم کو دُھلی دھلائی اور صاف ستھری عید مبارک قبول ہو۔ داغ چاہے خود بھینس سے بھی زیادہ کالے کیوں نہ ہوں، بھینس سوپ کا ایک ہی وار کافی ہے، البتہ دل اور کردارپر لگی سیاہی کی ذمہ داری ہرگز ہماری نہ ہوگی، انکی صفائی کا بندوبست خود آپکی اپنی اور ذاتی زمہ داری ہے۔

دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ڈیری فارمز کی جانب سے پوری قوم کو عید کی خوشیاں مبارک ہو۔ ہمارے یہاں خالص بھینسوں (تو مطلب یہ ہے کہ دودھ خالص ہو کہ نہ ہو البتہ بھنیسیں ضرور خالص ہیں) کا تازہ دودھ دستیاب ہے، ایک کلو دودھ کی خریداری پر دودھ اور پانی آدھا کلو کی علحیدہ علحیدہ تھیلیوں میں دیا جاتا ہے، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ وہ پانی دودھ میں ملادیں ، خود پی لیں یا اس سے اپنا منّہ دھولیں۔

بحرحال یہ تو اس وقت کی بات ہے کہ جب آتش جواں تھا اور اب تو ویسے بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، ویسے ایک دور تھا کہ جب پلوں کے نیچے نا تو پانی اور نہ ہی کیچڑ ہوا کرتا تھا اور اب تو سیلاب کے بعد اوپر پل رہا ہو کہ نہ رہا ہو، نیچے پانی البتہ خوب ہے اور اس سے پہلے کہ سیلاب زدگان کے آنسو ہمیں اور آپ کو پانی پانی کرجائیں ، موجودہ حکمرانوں کی طرح سے فوری طور پر اصل موضوع کی جانب آجائیے، اوہ نہیں سمجھے، بھئی جسطرح ہمارے حکمرانِ اعلیٰ بیرونِ ملک گھومنے بھی جائیں تو اپنا اصل ایجنڈا امداد کھپے، کھپے، کھپے کبھی نہیں بھولتے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ یہ کھپے، کھپے، کھپے بھی خوب زُومعنی چیز ہے، سندھی میں کھپے کہتے ہیں چاہیے کو جبکہ اردو میں وہ جو کہتے ہیں نا کہ بے چارہ کب کا مر کھپ چکا۔۔۔۔۔۔۔۔!

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانِ اعلیٰ پاکستان کھپے، کھپے، کھپے کا جو یہ نعرہ بلند کرتے ہیں تو آیا یہ پاکستان کی بلاشرکتِ غیرے ملکیت چاہتے ہیں یا پاکستان کو بددعائیں دیتے ہیں۔ ویسے دونوں ہی صورتوں میں نقصان پاکستان کا ہی ہے۔ محض کچھ کہنا تو عالموں کی نظر میں تھیوریٹیکل بات ہوتی ہے، خیر یہ تو عالموں کی عالمانہ باتیں ہیں اور وہ موصوف تو اُن ظالموں میں سے ہیں جو نہ صرف کہتے ہیں بلکہ جو کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھاتے ہیں، تو اس وقت وہ اپنا تن من دھن لگا کر (معاف کیجئے گا تن من تو شاید انکا ہی ہو البتہ اسمیں کوئی شک نہیں کہ دھن ملک و قوم کا ہی ہے اور جسے وہ خود اور انکے ہم پیالہ و نوالہ مال مفت دلِ بے رحم کے مصداق بٹور رہے ہیں) اپنے کہے کو پورا کرنے میں سرگرم ِ عمل ہیں۔

دیکھئے وہی ہوا نا جو ہم نے کہا تھا، بھٹک گئے نا اصل موضوع سے، تو اس لحاظ سے تو یہ ہمارے حکمران ہی اچھے ٹھرے نا کہ جو بھی کرتے ہیں اچھا یا برا، مکمل دل جمعی اور عظمِ مصمم کے ساتھ تو کرتے ہیں۔ جبھی تو اللہ نے ہمیں حکمرانیت سے دور دکھا ہوا ہے کہ جو اگر کہیں غلطی سے بن بھی جاتے تو ان کی طرح سے سرے محل تو کیا سرے سے ایک معمولی سا چھوٹا گھر تک نہ بنا سکتے شاید اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ جسکا کام اسی کو ساجھے۔

بحرحال یہ تو تھے نمونے ہمارے بچپن کی عیدوں میں چلنے والے چند چیدہ چیدہ اشتہارات کے، لیکن اب جبکہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے تو پھر یقیناً مذکورہ اشتہارات بھی زمانے کی رفتار کا ساتھ دیتے دیتے قیامت خیزی کا شہاکار بن چکے ہونگے۔ ویسے تو یہاں امریکا میں رہتے ہوئے الحمد اللہ ہمیں آٹھ دس پاکستانی چینلز دستیاب ہیں لیکن ان میں اشتہارات امریکا میں مقیم پاکستانی و ھندوستانی کمیونیٹی کے مقامی کاروباروں ہی کے چلتے ہیں اور انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ماشأ اللہ ہم دیسیوں کو سوأ ہوٹلوں میں کھابے اور بوفے اڑانے ، شادی ہالوں میں شادیاں کرنے اور کروانے، اندرون و بیرون ملک فضائی سفر کرنے و کروانے، گھر خریدنے و بکوانے اور مسجدوں ، دنیا بھر اور چراغ تلے اندھیرا کے مصداق خود امریکا بھر ، جی ہاں ہم نے درست لکھا اور آپ نے بالکل درست پڑھا ہے کہ امریکا کے آفت ومصیبت زدہ مسلمانوں کیلئے چندہ جمع کرنے و کروانے کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہی نہیں اور راوی ہم سب دیسیوں کے نصیبوں میں فقط چین ہی چین لکھتا ہے۔

لہٰذا اب ان اشتہارات سے براہ راست شناسائی نا ہونے کے باوجود بھی ہم اپنی چشمِ تصور میں ان عیدینی اشتہارات کو چلتے پھرتے دیکھتے ہیں لیکن اب زمانے کے ساتھ ساتھ ان کے انداز واطوار بھی خاصے بدل چکے ہیں، بھئی آخر انہیں بھی تو ضروریات اور تقاضہِ زمانہ کا ساتھ تو دینا ہی تھا نا، تو وہ بھی آج کے اس نفسانفسی کے دور کے رنگ میں رنگ گئے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جناب یہ مقابلہ بازی،اکھاڑ پچھاڑ ، مار ڈھار،گھراؤ جلاؤ اور مارو یا مرجاؤ کا زمانہ ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ایسے کلُ جگ کے دور میں بننے والے اشتہارات بھی تو اسی زمانے کی وہشت خیزی کا پرتو لیئے ہوئے ہونگے کے نہیں؟

اب ہم اپنے ذہن میں پنپتے نئے دور کے ان اشتہارات کا مختصراً جائزہ لینگے:

کھوپڑی مارکہ تابوت بنانے والے ملک الموت اینڈ کمپنی کی جانب سے تمام جینے مرنیوالوں اور زندہ درگوروں کو عید مبارک۔ جملہ اقسام کے مردوں کیلئے ہمارے مضبوط اور پائیدار تابوت حاصل کریں، ملک بھر میں ہونے والے انگنت دہشت گردی کے واقعات اور روز افزوں بڑھتی ہوئی اموات اور طلب و رسد میں انتہائی تیزی کے ساتھ پڑھتے ہوئے تفاوت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہماری عوام الناس سے اپیل ہے کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں اپنے سائز کے تابوتوں کی پیشگی بکنگ کروالیں ۔ پھر نہ کہیے گا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی لیکن یہ کہنے کے آپ قابل ہی کہا ہونگے، لہٰذا اپنے پسماندگان کو پریشانیوں سے بچانے کا نادر موقعہ، اپنے دو دوستوں یا جاننے والوں کو لا کر انکی بکنگ کروانے والوں کا اپنا تابوت بالکل مفت۔ یہ سنہری موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ورنہ آپ کے پسماندگان محض ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ بکنگ پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر شہر بھر کے قبرستانوں میں جاری ہے۔

زحمت سوئیٹس (مٹھائیاں) بنانے والے زحمت فوڈز انڈسڑیز کی جانب سے اس عید کے پرُمسرت موقعہ پر ساری قوم کو عید کی مبارک بار کے ساتھ ایک انتہائی شاندار اعلان: ملک بھر میں جاری چینی کے عظیم بحران کو مدِنظر رکھتے ہوئے زحمت فوڈز انڈسڑیز کے سائنسدانوں نے اس عید کے پرمسرت موقعہ پر عوام کی خوشیوں کو دو بالا بلکہ ہفت بالا کرنے کیلئے خالص پہاڑی نمک سے تیار کردہ ایسی مٹھائیاں ایجاد کیں ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی کہ آپ کو عید پر کھانے کو انتہائی ازاں قیمتوں پر مٹھائیاں بھی میسر آ جائیں اور ہم نے ان منافع خوروں کی ناجائز منافع خوری سے ملک و قوم کو بال بال بچالیا ہے اور سب سے بڑھکر یہ مٹھائیاں شوگر کے مریضوں کیلئے بالکل محفوظ و مناسب ہیں۔خود بھی کھائیں اور اپنے گھر والوں اورعزیز واقارب کو بھی کھلائیں، ہائی بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کی پہنج سے دور رکھیں۔

انجمن وکلأ برائے طلبگارانِ طلاق کی جانب سے ان تمام خواتین و حضرات کو جو کہ اپنے شوہر یا بیوی سے فوری طلاق چاہتے ہیں کو ہم عید کی مبارک باد پیش کرنے کے ساتھ اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ خدمات حاصل کرنے کی سرِعام کھلم کھلا دعوت دیتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ صرف دو سے تین پیشیوں میں آپکی آزادی کا پروانہ آپکے ہاتھوں میں ہوگا۔ ۔ عدالت کی جانب سے دادرسی نہ ہونے کی صورت میں ہمارے نامی گرامی غنڈے، معاف کیجئے گا معزز وکلأ صاحبان خود ڈرا دھمکا کر حتیٰ کہ مار پیٹ سے کام لیکر بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یقین نہ آنے کی صورت میں حالیہ عدلیہ بحالی تحریک میں وکلأ حضرات کے جلالی و جلادی کردار کا کماحقہ جائزہ لیکر بھرپور سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پہلی بار طلاق کے لئے آنے والوں کی اگلی طلاق بالکل مفت بشرطیکہ دوسری طلاق کا جراتمندانہ فیصلہ، پہلی طلاق کی اولین سالگرہ سے قبل ہی ہمارے صدر رفتر میں ذاتی طور پر تشریف لاکر مبلغ ایک ہزار روپے کی معمولی سی (ارادہ ڈاواں ڈول ہونے یا یکسر بدلنے کہ صورت میں) ناقابلِ واپسی فیس ادا کرکے رجسٹرڈ کروالیا گیا ہو۔ ماضی کے بیشمار تلخ تجربات کی وجہ سے فیس کی وصولی صرف اور صرف کیش کی صورت میں کی جائیگی، چیک کسی صورت میں قابلِ قبول نہ ہوگا کیونکہ جو خاوند اپنی بیوی کا اور جو بیوی اپنے خاوند کی وفادار نہ ہو سکی بھلا وہ ہم سے وفا کے خوگر کیسے ہوسکتے ہیں۔ بقول غالب:
ہم کو ہے ان سے وفا کی امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔

نقیب بنک ان لمیٹڈ ملک بھر کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں، سرکاری ٹھکیداران، بیورو کریٹوں، منافع خوری، چور بازاری، بھتہ خوری، اغوأکاری اور دوسروں کی املاک پر اپنا قبضہ جاری رکھنے والوں کو عید کی دل کھول کر مبارک باد دیتا ہے (کہ اصل عید تو انکی ہی ہوتی ہے) اور ان سب کیلئے اپنے نئے سلیمانی کھاتے کے اجرأ کا اعلان کرتی ہے جسمیں یہ اور ان جیسے تمام معزز افراد اپنا وہ سارا کا سارا سرمایہ (عرف کالا دھن) رکھ کر چین کر بانسری بجا سکتے ہیں جو انہوں نے ملک و ملت پر نقب لگا کر حاصل کیا ہو اور جس کی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام ہو کر رہ گیا ہو اور اس کھاتے میں پڑی تمام رقوم انتظامیہ اورمحکمہ انکم ٹیکس کی نظروں سے بالکل ایسے اوجھل ہوجاتی ہے جیسے گدھے کے سر پر سینگھ۔ علاوہ ازیں معمولی فیس کی ادائیگی کر کے پیسہ یہاں جمع کروائیں اور سوئزرلینڈ سمیت دنیا بھر کے کسی بھی بنک سے کسی بھی کرنسی میں وصول کرسکتے ہیں۔

قوم کے حاکمین کی جانب سے اپنے محکومین کو عید کی دلی مبارک باد: امید ہے کہ ملک بھر میں عوام مسائل کی اسقدر بھرمار کے بعد اپنے حکمرانوں کے عظیم اقدامات کے سبب حاصل ہونے والے اس عیدِسعید کے موقعہ کو خوب انجوائے کررہے ہونگے اور آنے والے مذید سخت ترین وقت کی بے پناہ سختیوں کیلئے خود کو اسرنو تیار کرہے ہونگے اور اپنے حکمرانوں کی عوامی پالیسیوں، عوام دوست ٹیکس، سیلاب ٹیکس، آنسو ٹیکس، آہ ٹیکس، سانس ٹیکس، کھانسی ٹیکس، شادی ٹیکس، بچہ ٹیکس، تعلیم ٹیکس، بیماری ٹیکس اور مرگ ٹیکس کے اجرأ پر اور تیل، گیس، بجلی، چینی اور آٹا وغیرہ کی کمیابی و نایابی اور گرانی کے سبب ہنستے کھیلتے اور یہ کہتے اپنی جان ان پر نچھاور کرتا چلے جا ئینگے کہ:
چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کریگا۔

تو دوستوں یہ تو تھا اک بہانہ مل بیٹھ کر کر چند دکھ سکھ کی باتیں کرنے کا، اپنے اور آپ کے دل پر پڑے کسی نامعلوم بوجھ کو ہلکا کرنے کا ، اور آپ سب اپنے اپنے دلوں پر ہاتھ دھر کر کہئے کہ ہوا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ تو دل کا جوجھ ہلکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

آخر میں آپ سب کو ہماری جانب سے دلی عید مبارک۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 51168 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.