خُدا خُدا کر کے قومی اسمبلی کا کورم پور ا ہوا تھا،
اس سے قبل والے اجلاس میں تو کوئی ایک وزیر بھی شامل نہیں ہوا، کیونکہ وہ
اپنے الیکشن کی سیاست سے نااہل ہو جانے والے قائد کو دوبارہ پارٹی کی صدارت
دینے میں مصروف تھے۔ اگلے روز وہ آئے تو ایوان نے عجیب نظارہ دیکھا کہ ایک
وزیر نے کھڑے ہو کر جذباتی تقریر کی اور احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے، دیگر
حکومتی ارکان نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کے اس
انتہائی اقدام کی وجہ یہ بتائی کہ انہیں دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے
ہیں، اگر ہم دہشت گرد ہیں تو ہمیں وزیر کیوں بنایا گیا؟ انہوں نے انکوائری
تک ہر روز احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔ معاملہ سادہ اور آسان نہیں،بلکہ الجھا
ہوا اور وضاحت طلب ہے۔ ن لیگ کی قیادت تو پریشان تھی ہی اب حکومتی ارکان
بھی پریشانی کے اس ریلے میں بہتے جارہے ہیں۔ کچھ وزراء کے ساتھ دہشت گردی
کے تعلق کی خبر چھوٹی بات نہیں، انکوائری تو بالکل ہونی چاہیے، وزراء تو
حکومت کے سب سے زیادہ ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں، اگر ان کے معاملات ہی مشکوک ہو
جائیں تو بات آگے کیسے بڑھے گی۔ ساتھ وزراء اور 37ارکان کا واک آؤٹ عام بات
نہیں۔
نئی کابینہ کے اپنے مسائل ہیں، نئے قائد کو شاید وہ اتنا بااختیار تصور
نہیں کرتے، یعنی کمزور جانتے ہیں، اسی عمل کے اثرات وزارتوں پر بھی موجود
ہیں، یہاں وزیروں کی بات نہیں سنی جارہی، یہاں وزیر داخلہ کو بھی یہ معلوم
نہیں ہوتا کہ فلاں موقع پر رینجر کو کس نے بلا یا تھا، اختیارات کس نے دیئے
تھے، اگر وزیرداخلہ ہی بے خبر ہیں تو انجام کیا ہوگا؟ دوسری طرف وزیرخارجہ
کا یہ عالم ہے کہ ہر بیان جذبات کی رو میں بہہ کر ہی دیتے ہیں۔ اکثر وزراء
سکتے کے عالم میں ہیں، نہ کھل کر بیان دے رہے ہیں، نہ تقریبات کی ریل پیل،
نہ گرم سرد بیانات کی بہار، نہ آنیاں جانیاں، نہ مخالفین کو خاموش کروانے
کے لئے خود ساختہ ترجمانی کا فریضہ۔ اسمبلی ویران، خود پریشان ۔ اپنے قائد
کے لئے ترمیم کا مسئلہ تھا تو اسمبلی کا بھر پور اجلاس، عام اجلاس تھا تو
غیر حاضر۔
اسمبلی میں اپنے مطلب کی ترمیم تو ہوگئی، جن کے نام سے پارٹی رجسٹرڈ ہے،
انہی کو ایک مرتبہ پھر صدر منتخب کر لیا گیا ہے، جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے
کہ ایک نااہل شخص حکومتی پارٹی کا صدر بن سکتا ہے۔ اس حسن کا عملی پہلو یہ
بھی ہے کہ قائد بلا مقابلہ ہی منتخب ہوئے، شاید یہ ان کی مقبولیت کی وجہ سے
ہوا، کسی نے ان کے مقابل الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں کی۔ خیر وہ پارٹی کے صدر
بننا چاہتے تھے، اور ووٹر انہیں صدر بنانے پر مصر تھے، ادھر قومی اسمبلی نے
قانون میں ترمیم کی ادھر میاں نواز شریف کو پارٹی صدر منتخب کر لیا گیا۔
مگر اسی موقع پر کسی ’’نامعلوم اور نادیدہ طاقت‘‘ نے اپنا ہاتھ دکھایا، ایک
ایسے ایشو کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی، جس کے ساتھ مسلمانوں کے ایمان وابستہ
تھے۔ بات بڑھی اور باہر نکلی تو سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ کے ذریعے معاملے
کی تردید کی کوشش کی گئی، اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش شروع ہوئی کہ غلط
فہمی پھیلائی جارہی ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ حکومتی ارکان صفائیاں
پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کہ یہ سازش ہوئی، اس قسم کے بیانات کربناک
لطیفوں سے کم نہیں، جب ترمیم ہو رہی تھی کہ ارکان کو بہت زیادہ جلدی تھی کہ
کسی طرح ایک سیکنڈ میں ایسا وقت آجائے جب وہ اپنے لیڈر کو پارٹی صدر بنانے
کا قانون منظور کرلیں۔ چنانچہ انہی جذبات کے دوران ہی ان کے ساتھ ’’سازش‘‘
ہوگئی، کوئی سازشی یا مخالف یا دشمن آیا اور ان لوگوں کی آنکھوں میں دھول
جھونکتے ہوئے اپنا کام کر گیا۔ دوسری ’’سازش‘‘ یہ ہوئی کہ مسلم لیگ ن کے
بھولے اور سیدھے سادے معزز ارکان کو یہ اندازہ بھی نہ ہو سکا کہ ان کے ساتھ
کیا ہاتھ ہوگیا ہے، وہ تو راز اس وقت کھلا جب مخالفین کمر کس کر میدان میں
اترآئے اور یار لوگوں نے ختمِ نبوتﷺ کی خاطر جانے لڑانے کے لئے خود کو پیش
کردیا۔ تب بات بل کی واپسی تک آگئی، یوں یہ ’’سازش‘‘ بالآخر ناکام ہی
ہوگئی۔ مگر ان کا کیا بنے گا جو اس ترمیم کے بارے میں وضاحتیں کرتے پھر رہے
تھے کہ مسئلہ کوئی نہیں بس غلط فہمی ہوئی ہے۔ سابق وزیر ظفراﷲ جمالی نے اس
ضمن میں کہا ہے کہ ایسا بل لانے سے بہتر ہے کہ اسمبلی کو موت آجائے۔ جمالی
صاحب! موت ایسے فیصلوں پر آتی تو یہاں کون زندہ ہوتا؟ |