وہی ہواجس کی امید تھی،امریکااپنے ماضی سے کچھ سیکھنے
پرآمادہ نہیں۔ سات مہینے کے طویل غوروفکر کے بعد ٹرمپ نے افغان پالیسی کے
اعلان کے بعداپنی ١٦سالہ شکست وہزیمت کاملبہ پاکستان پرڈالنے کے بعداقوام
متحدہ کے اجلاس میں شمالی کوریاکومکمل تباہ اورایران کوسنگین نتائج کی
دہمکیوں سے پہلی مرتبہ بالخصوص امریکی اتحادی اوربالعموم اقوام عالم نے
انتہائی تشویش میں اسے غیرسنجیدہ قراردیتے ہوئے امریکا سےاپنی پالیسیوں
پرغورفکرکرنے کامطالبہ کیاہے۔یادرہے کہ ٢٠١٦ء کی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے
امریکا کی افغان پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکی عوام سے یہ وعدہ
کیاتھاکہ اگروہ صدربنے تو"امریکاکودوبارہ عظیم بنائیں گے''اورافغان جنگ سے
باہرآ جائیں گے،امریکی تجارتی پالیسیوں کو فروغ دیں گے،دنیا کے مسائل میں
الجھنا چھوڑکرامریکا کے مسائل کو حل کریں گے کہ اب تک امریکا نے افغان جنگ
میں امریکی فوجیوں کوکھونے کے سواکچھ حاصل نہیں کیالیکن جیت کے چندماہ بعد
ہی وہ اپنے وعدوں سے انحراف کی توجیحات بیان کرکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ
امریکا افغانستان میں تادیراپنا تسلط قائم رکھنا چاہتاہے،اب ٹرمپ یہ سمجھتے
ہیں کہ امریکا کو افغان جنگ جیتنی چاہیے۔
جن امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے وہ اس جنگ سے باہر آنا چاہتے تھے،اب
ان ہی کے خون سے وفاکرنے کے بہانے کاسہارالیتے ہوئے وہ اس جنگ کوجاری
رکھناچاہتے ہیں۔ حکمراں ری پبلکن پارٹی نے اس حکمت عملی کا خیرمقدم کیاہے
جبکہ ڈیموکریٹس نے اس جنگ کوجاری رکھنے کیلئے تفصیلات کامطالبہ کیاہے۔
افغان کٹھ پتلی حکومت جوٹرمپ کے انتخابی وعدوں کواپنے سیاسی مستقبل
کوڈوبتادیکھ کراپنی بقاءکیلئے ہاتھ پاؤں ماررہی تھی، اس نے بھی ٹرمپ کی
یوٹرن پالیسی کوخوش آمدیدکہتے ہوئے اسے افغان آرمی کیلئے خوش آئند
قراردیاہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ صدرٹرمپ چند ہزار فوجیوں کے ساتھ کیاوہ
سب حاصل کرسکیں گے جواوباماایک لاکھ چالیس ہزارفوجیوں کی موجودگی میں حاصل
نہیں کرسکے،اگر کسی بھی خوش فہمی کی بناپروہ یہ فیصلہ کرہی چکے ہیں
توپھربھی انہیں روس کے ماضی سے ضرورسبق سیکھنا چاہیے جونہ صرف امریکاکے
مقابلے میں ایک سپرپاوراور نصف یورپ کےعلاوہ دنیاکے کئی ممالک
کاتھانیدارتھابلکہ افغانستان کی سرحدوں سےجڑاہوابھی تھا۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس پر
اپنارد ّعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاہے کہ بہت جلدافغانستان اب ایک اور سپر
پاورکا قبرستان بنے گا۔افغان پہاڑوں کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے
سپرپاورزکے نشانے پرہے،ایک سپرپاورکانشان مٹ چکاہے جبکہ دنیاکی دوسری
سپرپاورسولہ سال کی جنگ کے بعدبھی فتح سے بہت دورکھڑی ہے،اس باربارکی جنگی
مشق نے افغانستان کے بچے بچے کوجنگ کی تربیت دی ہے اور ایسے میں افغان
مجاہدین ایک بارپھرآخری سانس تک لڑنے کااعلان کررہے ہیں ۔
صدرٹرمپ نے افغان جنگ میں اپنے ہی اہم اتحادی پاکستان کوخبردارکرتے ہوئے
کہاکہ وہ حقانی گروپ کی امدادبندکرے اورپاکستان میں موجوداس کے محفوظ
ٹھکانوں کوتباہ کردے۔امریکانے ایک بارپھراپنی پرانی حکمت عملی پرچلتے ہوئے
اپنی اسی ذہنیت کی عکاسی کی ہے جس میں وہ صرف اپنا مفاد چاہتاہے جبکہ
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے، دہشتگردی کی اس
آگ نے پاکستان کواپنی لپیٹ میں اس طرح لیاکہ ان١٦سالوں میں سترہزارسے
زائدافراددہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے اورایک سوبیس ارب ڈالرکے مالی نقصان نے
ابھرتے ہوئی ترقی یافتہ پاکستانی معیشت کی کمرتوڑکر رکھ دی۔ پاکستان کے
شہراوروہ قبائلی علاقے جوکبھی بہت پرامن تھے،اس دور میں شعلوں کی لپیٹ میں
رہے،سوات اورشمالی وزیرستان آپریشن میں ملک کے اندرجنگ زدہ ماحول
رہااورپاکستانیوں کی ایک بڑی تعدادنے اپنے ہی ملک میں دربدری کاعذاب
سہا،پاکستان کے تمام بڑے شہر مسلسل بم دھماکوں اورخودکش حملوں کی زد میں
رہے، دہشتگردی کی جنگ کی امریکی چھتری کے سائے تلے ''ڈومور''کے مطالبے کے
نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھی لرزاں رہی ہے جس کی تلافی کیلئے کئی عشرے
درکارہیں۔ ان تمام کارہائے نمایاں کے باوجود پاکستان کی امداد یہ کہہ کرروک
لی کہ امریکاپاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششوں سے مطمئن نہیں اوراب پھر''
ڈومور''کی صدابلندکی۔یہی وجہ ہے کہ امریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ''نے امریکی
پالیسی پرتنقیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ۲۰۰۱ءمیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی
ابتدامیں بھی امریکانے صرف اپنے مفادات کی بات کی تھی اورآج بھی امریکایااس
کے پالیسی سازپاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیداہونے والے
کسی پرانے یاممکنہ مسئلے کوحل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف
وہ بھارت کوافغانستان میں قدم جمانے کی دعوت دے رہے ہیں،جو پاکستان کے
علاوہ کسی بھی پڑوسی ملک قبول نہیں ۔پاکستان ایک اہم جغرافیائی محل وقوع
رکھتاہے،اس کی حیثیت کوتسلیم اور مسائل کوسمجھتے ہوئے سیاسی حل کے ذریعے ہی
افغانستان میں دیرپاامن قائم ہوسکتا ہے''۔
امریکی دبا ؤسے نکلنے اوراپنے مفادات کوپیش نظررکھتے ہوئے پاکستان چین اور
روس میں ایشیا میں پائیدار امن کیلئے تکونی اتحاد وجودمیں آگیاہے جس کے
نتیجے میں اس خطے کی معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کے خواب کوجلدہی''پاک چین
اقتصادی راہداری''کی تکمیل کی شکل میں تعبیرملنے والی ہے اور دوسری طرف
پہلی مرتبہ پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں نے مخالفین کواس خطے میں ایک واضح
تبدیلی کاپیغام بھی دیاہے اورایک مرتبہ پھرخطے میں دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے
عملی مشترکہ عسکری کوششوں کاآغازہوگیاہے۔
ٹرمپ نے افغان پالیسی کے اعلان میں خطے میں اپنے مفادات کے حصول کیلئے
بھارت کے مخصوص کردارکاذکرکرکے نہ صرف کام نکلنے کے بعداپنی ناکامیوں
اورہزیمت کاملبہ ''دوست کی قربانی'' کی روائت کوبرقراررکھاہے بلکہ پہلی
مرتبہ خطے میں اشتعال پیداکرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے۔ فوری طور پرنہ صرف
پاکستان بلکہ خطے کی دوایٹمی قوتوں روس اور چین نے فوری طور پرٹرمپ کی اس
پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی نہ صرف مکمل حمائت بلکہ اس کی
قربانیوں کے اعتراف کابھی مطالبہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ پچھلی سات
دہائیوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں ایک واضح تبدیلی کااعلان
بھی کیاہے۔حال ہی میں امریکاکے ایک تھنک ٹینک میں پاکستانی وزیراعظم خاقان
عباسی سے افغانستان کے مسئلے میں بھارتی کردارکے بارے میں پوچھے گئے سوال
کے برملاجواب نے سب کوششدرکردیاکہ افغانستان میں بھارتی کردارخارج ازامکان
اورقطعی ناقابل قبول ہے اور اب افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پرنہیں
لڑی جاسکتی۔پاکستانی وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیرمیں جاری
بھارتی مظالم کوروکنے اوراس کے حل کیلئے فوری طور پرایک نمائندہ مقررکرنے
کامطالبہ بھی کیا۔
اب آنے والاوقت میں بہت جلد یہ واضح ہوجائے گاکہ ٹرمپ کی حالیہ بھارت
نوازافغان پالیسی کے بعد وہ نہ صرف پاکستان جیسے مخلص دوست سےمحروم ہو جائے
گابلکہ پاکستان پرامریکی دباؤایشیاکوایک نئے کامیاب اتحاد کی شکل میں
خطےکوامریکی اثرورسوخ سے پاک کردے گا۔امریکاکواس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے
گاکہ اپنی کلائیوں پربہترین اوربیش قیمت گھڑیاں زیبِ تن کرنے کے باوجود وقت
ان کی مٹھی میں نہیں رہا۔ |