ایک دفعہ ایک گاؤں کا چودھری سودا لینے شہر گیا تو اس نے
دیکھا کہ لوگ ایک وکیل کی بہت تعریف کر رہے کہ وہ تو سو سو روپے کی ایک بات
بتاتا اور ہزار ہزار روپے کا ایک نکتہ سمجھاتا ہے۔۔چودھری نے سوچا کہ ہم
بھی اس وکیل کی کوئی بات سن آئیں تو اچھا ہو۔۔ یہ سوچ کر وہ وکیل کے مکان
پر پہنچا اور کہا وکیل صاحب : میں نے آپ کی باتوں کی بہت تعریف سنی ہے ہمیں
بھی کوئی بات سمجھا دیجئے۔۔۔ وکیل نے کہا کہ ہم تو ایکبات کی ایک اشرفی لیا
کرتے ہیں۔۔ یہ سن کر چودھری کا شوق اور بھی بڑھا اور اس نے پندرو روپے نکال
کر وکیل کے سامنے رکھے۔۔ روپے لے کر وکیل صاحب نے ایک کاغذ کے پرزے پر یہ
مصرع لکھ دیا " آج کا کام رکھو
کام رکھو نہ کل پر "۔۔
چودھری واپس آیا تو مزدوروں نے کھیت کاٹ کر بہت سا غلہ نکال رکھا تھا۔۔ شام
کو وہ چودھری سے مزدوری لینے آئے تو اس نے کہا اس اناج کو گھر میں پہنچاؤگے
تو مزدوری ملے گی۔۔ مزدوروں نے کہا کہ اب تو وقت گزر چکا ہے کل دن نکلتے ہی
رکھوا دیا جائے گا۔۔ چودھری نے کہا کہ بھائیو میں نے تو آج ہی یہ بات پندرہ
روپے دے کر سیکھی ہے۔۔۔ پس میں تو آج ہی رکھواؤں گا۔۔آخر مزدوروں کو اناج
گھر میں رکھنا ہی پڑا۔۔۔ اتفاق سے اسی رات زور کی بارش ہوئی کہ سارے گاؤں
والوں کا غلہ پانی میں بہہ گیا یا خراب ہو کر رہ گیا۔۔ مگر چودھری کا غلہ
بلکل محفوظ رہا۔۔ اور بیچتے وقت اسے اتنا نفع ہوا کہ ایک اشرفی کے بدلے
بیسیوں اشرفیاں وصول ہو گئیں۔۔سو ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ آج کا کا م
کل پر مت چھوڑو۔ چودھری نے یہ بات پندرہ روپے دے کر سیکھی ، آپ مفت میں
سیکھ لیجئے۔ |