شکوہ، جواب ِ شکوہ

انتخابی دھاندلیوں سے جنم لینے والا حکومت مخالف طوفان 120دن کے دھرنے کے بعد بھی تھم نہ سکا بلکہ اس میں تغیانی کی کیفیت رہی جیسے زلزلے کے بعد بھی آفٹر شاکس آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ پاناما پیپر ز کے اجراء سے ایسی لگی کہ حکومت کا سب کچھ جل کر خاکستر ہونے لگا، کوئی جائے پناہ دستیاب نہ ہوسکی ۔ اس آگ کے شعلے اس قدر بلند ہوئے کہ تیسری بار بڑی چاہ ، انتھک جدوجہد اور آئین میں ترمیم کے بعد میاں نوازشریف وزیراعظم منتخب ہونے کے باوجود نااہل ہوگئے ۔ یہ میاں نواز شریف کی بدقسمتی سے بڑھ کیا ہوسکتی ہے کہ ہر بار و ہ کسی نہ کسی طرح آئینی مدت پورا ہونے سے قبل ہی مخالفین کا نشانہ بن جاتے ہیں ، پہلی بار 58-2bنے انہیں اقتدار سے الگ کیا ، اگلی بار وہ ایک فوجی جرنیل کا شکار بنے البتہ اس بار وہ اپنی ہی غلط پالیسیوں کے باعث کسی کا لقمہ بن گئے۔ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے وقت2013 میں بازگشت تھی کہ وہ اگر اس عہدے سے نااہل ہوئے تو عدلیہ وجہ بنے گی کیونکہ انہوں سبق حاصل کررکھا تھا کہ فوج یا کسی اور ادارے سے ٹکراؤ نہیں کرنا ، اس معاملے پر ان کے دوست سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ محاذ سنبھال رکھا تھا کہ یہاں کی اونچ نیچ یہ دیکھ لیں گے، 58-2bاب موثر نہیں تھی ،تاہم صدر پاکستان ان کا اپنا تھا ،جو ان کو مشکور اور ممنون تھا کہ اسے اس قابل سمجھا گیا اور اس قابل بنادیا گیا تھا۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ عدلیہ آزادی تحریک میں ان کا کردار کافی معنی خیز رہا ہے لہٰذا عدلیہ ان کی احسان مند ہوگی اور ان کے خلاف اقدام اٹھانے کا نہیں سوچے گی لیکن پاناما اسکینڈل میں انہوں جان بوجھ کر خود ہی عدلیہ کو دعوت دی کہ وہ اس کا فیصلہ کرے ، گمان تھا کہ بال ان کے کوٹ میں ہی رہے گی جبکہ ہوا ان ہی کے مخالف ہی کیونکہ انہوں نے اپنی کج فہمی اور درباری ذہنیت کے مطابق بے شعور وزراء کی مانی ، اس غلطی پر چھوٹے میاں اور چوہدری نثار کے اعترضات تھے، تحفظات تھے جن پر میاں صاحب نے کان نہ دھرے اور وہ ایک بار پھر وزیراعظم کے لقب سے پکارے جانے ، عہدے پر قائم رہنے کے اختیار سے الگ کردئے گئے ۔ ان کے ارمانوں پر پھر سے پانی پھر گیا، کشتی کنارے کے قریب تھی کی ڈوب گئی ، ساحل پانے کی تمنا پھر سے ادھورے خواب کی مانند ثابت ہوئی ، اخلاقی سطح پر ان کی آبرو ، عزت سب پامال ہوگئی ، انہیں تیسری بار اس کے کوچے سے بہت بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا ۔ پہلی بار وہ قدرے کم بے آبرو ہوئے تھے، اگلی بار بہت برا ہوا ، ملک بدری تک سہنی پڑی البتہ اس بار تو عزت کا ہی جنازہ نکل گیا تھا۔ بہت بڑا سانحہ تھا، وہ سہہ نہیں پارہے تھے ، جس عدلیہ کیلئے وہ سڑکوں پر حمایت کی خاطر نکلے تھے اسی نے انہیں سڑک پر لاکھڑا کردیا تھا۔ انہوں نے بہت سوچا، ہر وزیر، مشیر ،دوست ، ساتھی ، ہمدرد سے استفسار کیا کہ ان کا کیا قصورتھا، کیوں نکالا گیا، جواب نہ ملا ، حالانکہ انہیں فیصلہ سناتے ہوئے منصفوں نے بتلا دیا تھا کہ آپ مسند اقتدار کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز تھے، قوم کے امین تھے ، سب سے زیادہ سچ بولنے والے ، اس پر عمل پیرا ہونے والے اور اسی سچ کو ابلاغ کرنے والے عہدے پر براجمان تھے ، آپ نے امانتداری کی نہ دیانت داری نبھائی اور ہی سچ بات کہنے ، اس پر عمل کرنے کی کوشش کی اور نہ اس کے ابلاغ کیلئے مثال بنے ، لہٰذا آپ اس عہدے کے قابل نہیں رہے ، صادق و امین نہیں رہے ، دیانت دار نہیں رہے اور آپ اس وجہ سے نکالے گئے۔ اگر آپ کسی شخص کے ساتھ ایک بار غلط انداز اختیار کریں ، وہ ممکن ہے کہ ناراض ہو لیکن کوئی خاص ردعمل نہ ، دوسری بار بھی اسی جیسا سلوک ہوتو ردعمل آنا ضروری ہے البتہ تیسری بار پر وہ اس کا متحمل نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہی رویہ رکھا جائے تو یقینی طور شدید ردعمل آنا ناگزیر ہے ، اس درمیان یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انتہائی اقدام بھی اٹھا سکتا ہے ، میاں صاحب ک سا تھ تیسری بار بھی ذلت آمیز سلوک ہوا حالانکہ یہ سب کچھ ان کی ہی مرہون ِ منت تھا ، ذہنی صدمہ ہوا، شاعروں کے بارے میں ایک بات غلط العام ہے کہ وہ قدرے نفسیاتی اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ، دھتکارے ہوئے اور ستائے ہوئے ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کا بس کسی پر نہیں چلتا چنانچہ وہ لفظوں سے کھیل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی مظلومیت کا پرچار کرتے ہیں ، میاں صاحب کو بھی غالباًاس بار ذہنی صدمہ ہوا ہے ، مجھے کیوں نکالا ، میرا کیا قصور تھا جیسے الفاظ کا تواتر سے استعال کرنے لگے یہاں تک کہ یہ الفاظ ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ہر فردہر فورم پر اظہار کرنے لگا، یہ ایک غم زدہ غزل بن گئی ، ایک راگ بن گیا جو ہر محفل میں آلاپا جانے لگا، نون لیگ کے حامی اسے پکا راگ بنا بیٹھے ہیں ، پکا راگ۔۔۔آپ پکے راگ سے بخوبی واقفیت رکھتے ہوں گے ، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے بلکہ آگے چلتے ہیں ۔آپ نے طرحی مشاعروں کا سن رکھا ہوگا ، جہاں ا یک طرحی مصرعہ یا شعر پڑھا جاتا ہے اور پھر اسی زمین پر غزل کہی جاتی ہے ۔ نواز شریف نے بھی شاید شعر مصرعہ اپنی نااہلی کے موقع پر اپنی پارٹی کی نظر کیا تھا،
میرا قصور کیا تھا ، محفل سے مجھے کیوں نکالا گیا
سب کچھ میرے دم سے تھا ، کیوں بھلایا گیا

اسلام آباد سے لاہور واپسی پر براستہ جی ٹی روڈ اسی شعر سے گفتگو کا آغاز ہوا اور انجام بھی اسی پر ہوا کہ مجھے کیوں نکالا گیا، قصور کیا تھا نہیں بتلایا گیا، کیوں نکالا گیا۔ کیوں نکالا گیا۔ ۔۔۔

2 اکتوبر تک اسی شعر پر شریف خاندان ، مشیر اور وزیر رکے ہوئے تھے ، 2 اکتوبر کو احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت ترین انظامات کئے گئے تھے، وزیروں مشیروں اور نون لیگی رہنماؤں سمیت کارکنوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی، ابلاغ کیا گیا تھا کہ نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والے آج زحمت نہ کریں ، ممکن ہے کہ روک لیا جائے جس سے بد مزگی ہوسکتی ہے، پاناما کیس کی سماعتوں اور جے آئی ٹی میں شریف فیملی کی پیشی کے موقع پر یہ سہولت دستیاب تھی ، عدالت اور جوڈیشل اکیڈمی کے باہر اظہار خیا لہوتا بھی رہا، پابندی کا اطلاق نہیں تھا ، البتہ یہاں صورتحال مختلف تھی سو ایسا کیا گیا۔ سوائے وفاقی وزیر داخلہ کے سب نے اس پر آمین کہا، احسن اقبال جن کا اقبال اس لئے بلندتھا کہ تمام داخلی معاملات کے سربراہ تھے وہ ضد کربیٹھے کہ وہ اپنے قائد کی نصرت کو لازم ہے کہ جائیں گے لیکن انہیں بھی عدالت میں جانے کی اجازت نہ مل سکی تو احسن اقبال خوب برہم ہوئے ، غصہ بھی بہت کیا ساتھ ہی انہوں نے میاں صاحب کی غزل میں اگلے شعر کا اضافہ کرڈالا گویا غزل کو آگے بڑھایا کہ
مجھ میں تھی طاقت ،جرائت ایک کوروکنے کی
میں روک سکتاسب کو، مجھے کیوں روکا گیا

احسن اقبال کو شاید نہ روکا جاتا اگر صرف پولیس تعینات ہوتی ، یہاں تو رینجرز اہلکار غیر معمولی طور پر ڈیوٹی دے رہے تھے جو سوائے کمانڈ کے کسی کی نہیں سنتے۔ انہوں نے ملک کے وزیر داخلہ کو داخلے سے روک کر جرائت کا مظاہرہ کیا ۔ احسن اقبال کا اقبال سطح ِ زمین پر تھا اور ان کا حسن سلوک سب نے دیکھ لیا، اب وہ احسن رہے اور نہ ہی ان کااقبال بلند رہا ۔ یکایک انہیں دو باتیں سوجھیں ، اول وہ بنانا ڈیموکریٹک اسٹیٹ میں نہیں ہیں ، دوسری قائد کی غزل مکمل کرنے کا خیال آیا۔ انہوں نے دونوں کا اظہار کرکے ثابت کردیا کہ اسلامی جمہوری پاکستان کے وزیر ہیں اور ہر پابندی کے باوجود اپنے قائد کے کھینچے خط ہی پر چلتے رہیں گے۔وفاقی وزیر صاحب نے 72گھنٹوں میں رینجرز کی تعیناتی کی تفصیلات طلب کرلیں ، ان کے علاوہ بھی کسی کا اقبال اس قد بلند ہے کہ وہ انہیں بھی روک سکتا ہے جس کی انہیں خبر تک نہیں ۔

5اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے کئی باتوں سمیت اس گلے شکوے کا جواب بھی دے دیا کہ انہیں کیوں روکا گیا۔ کہا ضروری نہیں کہ ہر حکم تحریری ہو ، سیکیورٹی خدشات پر رینجرز کو تعینات کیا گیا، قانون نافذ کرنے والے ادارے ریاست کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔ احتساب عدالت کے باہر پیش آنے والا ناخوشگوار واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔قوانین کے مطابق اسپیشل کارڈ کے بغیر آری چیف کو بھی ایک سپاہی جانے سے روک سکتا ہے ۔ اگر رینجرز کے جوان نے کسی کو روکا تو اسے سراہا جانا چاہئے کیونکہ آئندہ بھی اسے ڈیوٹی کرنی ہے ، مقامی طور پر غلط فہمی ہوئی ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو پاس جارہ ہوئے ان کی اطلاع وہاں تعینات سپاہیوں تک نہ پہنچ سکی ہو ۔یہ کیوں روکے کا جواب تھا، یعنی شکوہ کا جواب شکوہ ۔ شکوہ جواب شکوہ گو کہ علامہ محمد اقبال سے وابستہ شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے لیکن نون لیگ کی جانب سے بھی فی زمانہ ترتیب دیا جانے والا سیاسی شعری مجموعہ بن رہا ہے ، یہ ابھی ابتداء ہے ، ابھی کئی منزلیں اس میں آیا چاہتی ہیں ۔ ابھی تو فقط کیوں نکالا گیا،کیوں روکا گیا کا شکوہ اور جواب شکوہ آیا ہے ، ابھی کیس احتساب عدالت میں چل رہی ہے ۔ کیوں ٹوکا گیا، کیوں پکڑا گیا، کیوں بھیجا گیا، کہاں بیجھا گیا، اس طرح کی کئی منازل آنا باقی ہیں ۔امید ہے کہ 2018تک عام انتخابات سے قبل یا پھر انتخابات کے نتائج کے بعد تک لازم ہے کہ یہ شکوہ جواب شکوہ مکمل شعری مجموعہ بن جائے گا ۔ انتظار کیجئے ، ہم بھی یہی کام کررہے ہیں ۔

Mujahid Hussain
About the Author: Mujahid Hussain Read More Articles by Mujahid Hussain: 60 Articles with 43321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.