سائیں رفیق بڑا سرگرم مسلم لیگی کارکن ہے ، ہر وقت جماعت کی
تعریفیں اور قصے سنانا اس کا بہترین مشغلہ ہے اگر کوئی اس کے سامنے عزت مآب محترم
میاں محمد نواز شریف کی شان میں گستاخی کر دے تو اس کی منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو
جاتی ہے ،یکدم چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور سامنے والا پہلے تو حیران ہو تا ہے
پھر سائیں رفیق کی گالیاں اور اول فول بکواس سن کر پریشان بھی ہو جاتا ہے، لیکن
میرے ساتھ اس کا رویہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ سائیں رفیق سوچتا ہے کہ اگر اس نے میرے
سامنے یہ حرکات کیں تو اس کا میڈیا میں امیج بری طرح خراب ہو جائے گا میری گستاخیاں
سن کر وہ صرف یہی کہ پاتا ہے کہ آپ میڈیا والے تو عمران خان اور قادری سے پیسے لیتے
ہو اس لیے میاں صاحب کو برا بھلا کہتے ہو۔اس دن بھی سائیں نے کافی پرانا ادھار رکھا
ہوا تھا اس لیے جیسے ہی میں اس کے سامنے پہنچا مجھے دیکھ کر وہ طنزیہ سی مسکراہٹ لے
کر مجھ سے خیر خیریت پوچھنے لگا میں بیٹھا توبغیر لگی لپٹی کے اس نے سوال کیا کہ آج
تین بجے کی خبریں سنی ہیں آپ نے ؟ میں نے کہا سنی تو ہیں کیا خاص بات ہے؟ اس نے بے
چینی سے پہلو بدلا اور کہا کیا واقعی اس میں آپ کو کوئی خاص خبر نظر نہیں آئی ہمارا
عبا سی زیر اعظم نامزد ہو گیا ہے اب ہمارا نام اونچا ہو گا اور بڑی سعادت کی بات یہ
ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے سے تعلق رکھتا ہے کل پرسوں تک حلف اٹھا لے گا اور پھر راوی
چین ہی چین لکھے گا ۔اب لوگ ہمیں وزیر اعظم کے نام سے پہچانیں گئے سینکڑوں سالوں
بعد خلافت عباسیہ کی یاد تازہ ہو گی اب سائیں کو چپ کروانا تو مشکل تھا اس لیے
اٹھنے میں ہی عافیت جانی ، اس کے دو دن بعد شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم کے عہدے
کا حلف اٹھا لیا اور اپنے ابتدائی بیانات میں ہی عباسی صاحب نے نواز شریف کو اپنا
وزیر اعظم قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ نواز شریف صاحب نے مجھ پر اعتماد کر کے
اہلیان مری کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں اور 45 دن کے لئے وزیر اعظم بنا ہوں لیکن
ان 45 دنوں میں 45 سال کا کام کروں گا مجھ سمیت مری کے ہر باسی نے وزیر اعظم کی
تقریر بڑے شوق سے سنی اور تھوڑی سی امید پیدا ہوئی کہ وزیر اعظم صاحب 45 سال کا نہ
سہی 45 دن کا کام بھی ان دنوں میں کر لیں تو خلافت عباسیہ کی پگڑی گرنے سے بچ جائے
گی اور اہلیان مری کو بھی لوگ صدیوں یاد رکھیں گئے ان دنوں ملک کے بیشتر حصوں کی
طرح مری میں بھی کافی بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری تھے مسیاڑی کی روڈ
،گیس کا کام، سانٹھی میں گیس کا کام راجہ اشفاق سرور کی آبائی یونین کونسل گھوڑا
گلی کے گاؤ ں جاوہ،پٹھلی اور دیگر بہت سے علاقوں میں سڑکوں اور گیس کا کام جاری تھا
اس وجہ سے لوگوں کی خوشی بے مقصد نہیں تھی کہ کم از کم مری کے وزیر اعظم ہیں اور
ساتھ عباسی بھی ہیں کم از کم مری کی حد تک تو ترقیاتی کام بھی پایہ تکمیل تک پہنچیں
گئے بلکہ موقع غنیمت دیکھ کر اپنے ووٹ بینک میں بھی اضافہ کریں گئے چند دن تو مری
والے سکتے کی کیفیت میں رہے ہوش اس ٹائم آیا جب پتا چلا کہ روڈ کا کام تو 4 دن سے
بند ہے اور گیس کے تو دور دور تک چانس ہی نہیں ہیں پھر دیگر علاقوں سے بھی خبریں
ملنی شروع ہو گئی کہ فلاں فلاں جگہ پر کام بند ہو گیا ہے لیکن قربان جاؤں مسلم لیگی
کارکنوں کی وضاحتوں پر اور مری کے سادہ لوح عوام کی سادگی پر خود ہی صفائی دینا
شروع ہو گئے کہ بس ہفتے ، دس دن تک کام دوبارہ شروع ہو جائے گا لیکن دس دن 2 ماہ
میں بدل گئے پھر پتا چلا کہ ترقیاتی فنڈز ختم ہو گئے ہیں جیسے ہی جاری ہوں گئے تو
آگے کام ہو گا 2 ماہ پہلے تو فنڈز کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اچانک میاں صاحب کے جانے
سے فنڈز کہاں غائب ہو گئے ؟مری کے لو گ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلم لیگ نون کو ووٹ
دیتے آرہے ہیں اور موجودہ عوامی نمائندوں کو ذاتی یا جماعتی ووٹ بنک کے بجائے ان کے
آباء واجداد یعنی شاہد خاقان عباسی کو ان کے والد خاقان عباسی کے نام پر اور راجہ
اشفاق سرور کو ان کے والد محترم راجہ غلام سرور کے نام کے ووٹ ملتے ہیں اور جو
ترقیاتی منصوبے خاقان عباسی نے اپنے دور میں مکمل کیے اس کے بعد آج تک مری میں کوئی
میگا پراجیکٹ نہیں لگا آبادی کے لحاظ سے مری کے عوام کو جو پانی تیس سال پہلے فراہم
کیا گیا آج بھی اابادی کئی گنا بڑھنے کے بعد بھی اسی پر گزارہ کیا جا رہا ہے بلکہ
اس ٹائم پانی کے کئی چشمے بھی ضروریات پوری کرتے تھے آج وہ چشمے موسمی تبدیلیوں کی
وجہ سے خشک ہو چکے ہیں بلک واٹر سپلائی منصوبے پر اربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن صرف
سیاسی دشمنی کی وجہ سے اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دیا گیا جو کسی حد تک پانی کی
کمی دور کر سکتا تھا اب گاؤں کی عورتیں میلوں دور سے اپنے سروں پر پانی کے گھڑے
اٹھا کر لاتی ہیں اور مری کے ہوٹل مالکان ، مساجد اور مدارس مہنگا پانی خریدنے پر
مجبور ہیں، ہسپتالوں کے حالات دیکھیں تو لاکھوں نفوس کی آبادی کے لیے ایک ہی تحصیل
ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے جس کے بارے میں مری کا بچہ بچہ بتا سکتا ہے کہ یہاں کیا
سہولیات میسر ہیں ایمبولینس گاڑیاں نہیں نرسنگ سٹاف کی کمی ، باتھ رومز کا برا حال
اور ایمرجنسی یا آپریشن کی صورت میں پنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے چھوٹے چھوٹے مراکز
صحت میں عطائی ڈاکٹر بیٹھے ہوئے دو ،تین رنگوں کی گولیاں تھما دیتے ہیں جو ہر
بیماری کا علاج ہوتا ہے، سڑکوں کی صورت حال کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ
لوئر ٹوپہ سے کوہالہ تک ملک کی اہم ترین شاہراہ جہاں روزانہ سینکڑوں گاڑیوں کی آمدو
رفت ہوتی ہے علیوٹ، پھگواڑی، دیول اور آزاد کشمیر کے تما م اضلاع کا رستہ ہے شہباز
شریف کا دوسرا دور اور ویسے تیسے دور حکومت سے حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے ،خود
وزیر اعظم صاحب نے اسی روڈ پر کئی بار سفر کیا ہے اور حکومتی عہدیدار بھی اکثر اس
روڈ سے گزرتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی گاؤں کے جتنے
بھی لنکس روڈ پکے ہوئے ہیں زیادہ تو مشرف دور حکومت میں ہوئے، تعلیم کے میدان میں
بھی مری کے عوام کے ساتھ بھیانک سلوک کیا گیا مری کے عوام کو دس سال سے یونیورسٹی
کا لالچ دے کر ووٹ لیے جاتے رہے اور اتنی بڑی تحصیل میں کوئی یونیورسٹی نہیں اور
مری شہر کے قرب و جوار میں کوئی کالج تک نہیں مری کا اکلوتا کالج مال روڈ کے قریب
واقع ہے جہاں شریف النفس لوگوں کی بچیاں اپنی عزت بچاتے ہوئے مال روڈ جیسے ماحول سے
گزر کر کالج پہنچتی ہیں اور مری کے 80% کوگ صرف اسی وجہ سے میٹرک تک اپنی بچیوں کو
نہیں پڑھنے دیتے۔ مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان پر ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے
لیکن ایک چھوٹے سے کالم میں صرف ’’ادھوری باتیں ‘‘ ہی لکھی جا سکتی ہیں ۔ مری کے
عوام کی طرف سے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی اور صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور
سے گزارش ہے کہ خدارہ ہمارے ووٹ دینے کی اتنی بڑی سزا ہمیں نہ دی جائے اور ہماری
جوتیاں ہمارے سر پر ہی نہ ماری جائیں ، مری کے باسیوں سے میری یہی التجا ہے کہ اپنا
حق لنے کے لیے اجتماعی آواز بلند کریں اور موجودہ نمائندوں سے اپنے منصوبے مکمل
کروائیں کیونکہ آج مری میں تین وزیر موجود ہیں ، آج آپ کے کام نہ ہوئے تو پھر کبھی
نہیں ہوں گئے اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
|