8اکتوبر2005کے تباہ کن و قیامت خیز زلزلہ کو ایک دہائی سے
زیادہ عرصہ بیت گیا۔جب بھی اکتوبر آتا ہے تو اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم تازہ
ہو جاتا ہے ۔آٹھ اکتو بر کی صبح تین رمضان المبار ک کی مبارک ساعتوں میں
زمین نے ایسی قیامت خیز انگڑائی لی کہ ایک ہی آن میں آزاد کشمیر کے اضلاع
مطفرآباد ،باغ،راولاکوٹ اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے پی کے اضلاع
بالاکوٹ،بڈگرام، مانسہرہ سمیت کئی علاقے تباہ و برباد ہوگے۔اس ہولناک و
قیامت خیز زلزلہ میں ایک ہی آن لاکھوں لوگ لقہ اجل بن گئے اور ہزاروں لوگ
زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے۔
8اکتوبر2005 کے اس قیامت کے زلزلہ جس کی شدت7.6تھی شمالی علاقہ جات اسلام
آباد سمیت آزاد کشمیر میں چھیاسی ہزار لوگ جابحق ستر ہزار لوگ زخمی ہوئے جن
میں سے اکثریتی ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔اس قیامت خیز زلزلہ میں چھ لاکھ
مکانات تباہ ہوئے جبکہ تیتیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے جبکہ کئی لوگ لاپتہ
ہوئے۔کئی سرکاری عمارتیں اور سکولز تباہ ہوئے۔اس قیامت خیز زلزلہ میں سب سے
زیادہ نقصان آزاد کشمیر ضلع مظفرآباد میں اور کے پی کے کے ضلع بالاکوٹ میں
ہوا۔اس خوفناک زلزلہ میں موصلات سمیت تمام انفراسٹرکچر تباہ اور برباد
ہوگیا۔ان تمام تباہ کاریوں کو دیکھ کر اوس وقت کے وزیراعظم نے ایک عالمی
نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہو کہنے پر مجبور ہوگئے کہ میں قبرستان کا
وزیراعظم ہوں۔سب سے زیادہ نقصان شہری علاقوں میں ہو جہاں بلند و بالا بے
ہنگم عمارتوں کے گرنے سے اموات واقع ہوئیں۔اس خوفناک زلزلہ سے تیس ہزار
مربع میل کلو میٹر کا علاقہ متاثر ہوا۔اس خوفناک زلزلہ کے بعد پاکستانی
حکومت عوام بیرون ملک اور ملکی اور غیر ملکی این جی اوز بھی متاثر علاقوں
کی مدد کے لیے آن پہنچی۔اس خوفناک زلزلہ کے بعد صدارتی ریلیف فنڈ اور
وزیراعظم آزاد کشمیر ریلیف فنڈز کے لیے اکونٹ کھولے گئے جہاں عالمی اداروں
سمیت ملکی اور غیر ملکی مخیرحضرات نے ان فنڈز میں اپنا حصہ ڈالا۔پاکستانی
حکومت کی میزبانی پر پاکستان اور دنیا بھر میں متاثرین زلزلہ کے لیے ڈونر
کانفرنسیں ہوئی جس میں بے پناہ فنڈنگ بھی ہوئی۔اب جب ایک دھائی سے زیادہ
عراصہ گزر جانے کے بعد ابھی تک معامالات حل نہ ہوئے ۔متاثرین کو جزوی مد د
کر کے اربوں ڈالر نہ جانے کہاں گئے۔وفاقی حکومت اورآزاد حکومت سمیت کسی کے
پاس ریکارڈ نہیں یا پھر وہ بتانا نہیں چاہتے کہ ڈونر کانفرنسوں میں کتنا
پیسہ جمع ہو یا کتنا پیسہ این جی اوز کو دیا گیا اور کیا کام ہوا۔کسی نے
متاثرین کی آباد کاری کے حوالہ سے دیانتدار ی سے کام نہیں کیا۔اس خوفناک
سانحہ میں جہاں دیگر امداد ملی وہیں ترکی ،سعودی عرب،عرب امارات سمیت کئی
اہم ممالک کی حکومتوں اور این جی اوز نے براہ راست کئی منصوبے پایہ تکمیل
تک پہنچاہے اور کچھ منصوبوں پر ابھی تک کام جاری بھی ہے ۔اب بھی گزشتہ دور
حکومت میں اور اس قبل بھی آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ 55ارب
روپے وفاقی حکومت نے متاثرین زلزلہ کے لیے آنے والی رقم کو استعمال کیا۔اس
ایشو کو لیکر بڑی بڑی باتیں ہوئیں یہاں تک کہ موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق
حیدر خان بھی اس ایشو کو لیکر وعدے کیے لیکن فاروق حیدر خان کی حکومت بنے
ہوئے ایک سال کا زیادہ عرصہ گزر جانے بعد اس حوالہ سے اپنی ہی جماعت کی
وفاقی حکومت سے اس ایشو پر بات تک نہیں کی۔المیہ یہ ہے کہ متاثرین کے نام
سے آنے والی رقوم کو مادر شیر سمجھ کر آزاد و پاکستان کی حکومت اور ان کے
چہتوں میں بانٹٰ گئی اور آزاد کشمیر کی حکومتوں سے لیکر ایک عام آدمی اور
این جی اوز نے دل کھول کر کرپشن کی۔ابھی بارہ سال بعد زلزلہ کی یاد اور
انفراسٹرکچر کے حوالہ سے سیرا کے سکرٹری نے میڈیا کو بتایا کہ فنڈز کی قلت
کی وجہ سے نو سو سے زائد اداروں کی تعمیر نہیں ہوسکی ۔میدیا رپورٹس کیمطابق
زلزلہ میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع مظفرآباد میں ابھی بھی تیس فیصد کام
بقایا ہے ایر ااور سیرا کی رپورٹ کیمطابق اگر جاری منصوبوں کے لیے اگر
حکومت فنڈ مہیا کرتی ہے تو تین سال کے عرسہ میں یہ منصوبا جات مکمل کر لیے
جاہیں گئے۔ایرا کے مطابق جن منصوبوں پر کام بہت کم ہو ا ہے ان میں تعلیمی
اداروں کی بڑی تعداد ہے جو ابھی تک مکمل نہیں ہوسکے۔ابھی تک ایک لاکھ کے
قریب طلبہ و طالبات چھت کے بغیر سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔
حکومت آزاد کشمیر کو چاہیے کہ وہ جلداز جلد تعمیر نو کے کام کو مکمل کرے
اور اب بھی تعمیرات جو کہ ماہرین کے رائے کے برعکس ہورہیں ہیں ان کے خلاف
کاروائی کرے تاکہ اس طرح کی کسی ناگہانی آفت میں زیادہ نقصان سے بچا
جاسکے۔وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کو جس طرح اپوزیشن میں
متحرک تھے آج جب اقتدار میں ہیں تو وہی کام کریں جن کی ااپ تلقین کرتے
تھے۔بہت دکھ ہوتا ہے جب آزاد کشمیر اپنے پیاروں کی یاد میں تھے تو ریاست کا
وزیراعظم لندن پیرس میں گھوم پھر رہا ہے۔ان غریبوں کی کون داد رسی کرے گا
جن کے بچے اب بھی کھلے ااسمان تلے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے
ہیں۔جو ابھی تک اپنی چادر و چار دیواری کا بندوبست کرنے سے قاصر
ہیں۔وزیراعظم صاحب آپ نے خدا کے حضور جو اب بھی دینا ہے۔قوم کے خزانے سے جو
لندن پیرس میں آپ خرچ کرتے ہیں وہی رقم خرچ کرکے ایک سکول کی چھت بن سکتی
تھی۔ہمارا المیہ ہے کہ اس قیامت کے گزر جانے کے بعد نہ ہمارے حکمران رائے
راست میں آئے اور نہ ہی ہم عوام نے نے اپنے انداز ورویے بدلے۔یاد رہے کہ یہ
زلزلہ ایک امتحان تھا اور اب کی بار ہمارے جو کارنامے ہیں ان کی وجہ سے اب
امتحان نہیں بلکہ عذاب ہوگا۔اس خوفناک زلزلہ نے جہاں قیمتی جانوں اور املاک
کو نقصان پہنچایا وہیں اس ہولناک سانحے نے ہماری معاشرتی اقدار کو بھی
نقصان پہنچایا۔
آج پھر جاگ اٹھے ہیں بچھڑے ہووں کے غم
آج پھر اکتوبر جوآیا ہے یاد رفتہ کی یاد دلا نے
اﷲ پاک شہدا زلزلے کی مغفرت فرمائے |