جس کاڈرتھا،وہی ہوا۔چنددن قبل جب یہ خبرمیڈیاتک پہنچی کہ
مرکزی وزیربرائےاقلیتی امورمختارعباس نقوی ۸؍؍اکتوبرکوممبئی کےحج ہائوس میں
حکومت ہندکی نئی حج پالیسیوں کااعلان کریں گے تواندازہ یہی تھا کہ کچھ نہ
کچھ ’’نیا‘‘ہوگااورکچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوگا جوبی جے پی کی پالیسیوں کے
مطابق ہوگااورجس سے مسلمان ایک بارپھردفاع پراترآئیں گے۔مختارعباس نقوی
تواعلان کرکے چلے گئے مگرپورے ملک کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہردوڑاگئے
اورخاص طورپروہ حضرات زیادہ ہی مضطرب ہیں جودین سے قریب ہیں ،ظاہرہے انہیں
تومضطرب ہوناہی ہے کیوںکہ حکومت کی ایک پالیسی توواضح طورپرایسی ہے جو
شریعت سے متصادم ہےاورجس سے کسی بھی حال میں مفاہمت نہیں کی جاسکتی ۔وہ
پالیسی یہ ہے کہ ۴۵سال سے زائدعمرکی خواتین کوغیرمحرم کے ساتھ حج پرجانے کی
اجازت دے دی گئی ہے ۔اس پر ہمارے مذہبی حلقو ں کی جانب سے احتجاج
کیاجانافطری ہے مگراس ضمن میں مجھے ایک اہم بات عرض کرنی ہے ۔غیرمحرم
کےساتھ حج کرنا شریعت کی نظرمیں توجرم ہے ہی ،خودسعودی عرب کے قانون کی
نظرمیں بھی جرم ہے اس لیے اب یہ مسئلہ براہ راست طورپرسعودی عرب حکومت سے
متعلق ہو گیاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اگرکوئی عورت غیرمحرم کے ساتھ حج پرجاتی
ہے توکیاسعودی عرب اسے حج کرنے کی اجاز ت دےگا؟یہ عورت نامحرم کےساتھ سعودی
عرب کی زمین پرقدم رکھتے ہی مجرم بن جائے گی ۔ حکومت ہندکی وزارت اقلیتی
امورنے کیاحج پالیسی بناتے وقت سعودی عرب سے کوئی رائے مشورہ طلب کیاتھا یا
محض ہمارے معزز وزیراعظم اورآرایس ایس نوازطبقے کی خوش نودی ہی مدنظررکھی
تھی ۔؟ہم اپنے مذہبی حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں ہندوستان
میں مقیم سعودی سفیرسے رابطہ کریں اور ان سے پوچھیں کہ کیا ان کی حکومت
ایسی عورت کوحج کرنے کی اجازت دے سکتی ہے ؟حکومت ہندکے سامنے ہمارے احتجا ج
سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والاکیوں کہ جوہمارے مودی صاحب قبلہ فرمادیتے
ہیں وہ پتھرکی لکیر ہو جاتا ہے اوراس لکیرکوعبورکرناجرم عظیم قرارپاتاہے اس
لیے بے چارے مختارعباس نقوی اور ان کے ہم نوابھی مجبورمحض تھےبلکہ غلام محض۔
حکومت کاحصہ بنے رہناہے توانہیں ایسی ہی پالیسیا ں بنانی ہوں گی جو ان کی
حکومت کی پسندیدہ ہوں اور جومسلمانوں کی ذہنی اذیتوں کاسامان لیے ہوئے ہوں۔
مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیاکہ حج جیسے مذہبی فریضے کی پالیسیاں وہ لوگ
بناتےہیں جومحض دکھاوے کے مسلمان ہیں ۔پالیسیاں بناتے وقت علماسے رابطہ بھی
نہیں کیاجاتااوراگرعلماسے پوچھابھی جاتاہے توبس انہی سے جوحکومت کے ہم
نواہیں ۔یہ کیسامذاق ہے کہ پالسیاں وہ لوگ بنارہے ہیں جن کااسلام سے
توکیاکسی بھی مذہب سے کوئی لینادینانہیں ہے کیوں کہ ان لوگوں کامذہب صرف
اورصرف موقع پرستی ، ضمیر فروشی ، مفادپرستی اورکاسہ لیسی ہے ۔آپ ان سے
کوئی توقع بھی نہیں رکھ سکتے اس لیے مطالبےاوراحتجاج سے ہماری ’’دینی ذمے
داری‘‘توپوری ہوسکتی ہے ،تبدیلی نہیں آسکتی کیوںکہ مطالبہ ان سے کیا جاتا
ہے جومطالبہ تسلیم کریں مگرجوغلام ہوں ،جن کے ضمیرہی فروخت شدہ ہوں ان سے
کسی تبدیلی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ۔غلامی میں انسان کاضمیربدل جاتاہے
بلکہ ضمیرنام کی کوئی شی ہوتی ہی نہیں ۔اس معاملے میں مختارعباس نقوی صاحب
ہوسکتاہے کہ اندرسے ان پالیسیوں کے مخالف ہوں مگروہ چاہتے ہوئے بھی کچھ
تبدیلی نہیں کرسکیں گے کیوں کہ ذہنی اورفکری غلامی زبان میں آبلے ڈال دیتی
ہے۔
یہ پالیسیاں دراصل اب ہمارے ہندوستانی علماکے لیے سخت امتحان ہیں۔ ان کواس
سلسلے میں بہت ہوش مندی سے حکومت ہندسے رابطہ کرکے اس نئے بحران سے مطلع
کرناہوگا۔حالاں کہ حکومت اس بحران سے اچھی طرح واقف ہے بلکہ وہ توان
پالیسیوں کے اعلان سے قبل بھی واقف تھی ،یہاں یوں کہاجاناچاہیے کہ یہ
پالیسیاں لائی ہی اسی لیے گئی ہیں تاکہ بحران پیداہوجائے ۔اس سیاق میں یہ
کہنابالکل بجاہے کہ سب کچھ طے شدہ اورمنصوبہ بندہواہے اس لیے اگرچہ
احتجاجات سے کچھ ہونے والانہیں ہے مگرہماراخاموش رہنابھی جرم ہے اس لیے کچھ
نہ کچھ توکرناہی پڑے گا۔دیکھتے ہیں کہ کس طرح اس بحران پر قابو پایا جا
سکتا ہے ۔اس پورے معاملے میں مجھے سب سے زیادہ رحم مختارعباس نقوی
پرآرہاہے جو کچھ بھی نہیں کرسکے،بے چارے مختار عباس نقوی۔ |