عبدالباری شفیق السلفی
(مدیرماہنامہ مجلہ النور ،ممبئی )
ماہ محرم جو اسلامی اور ہجری سال کے اعتبار سے عربی کا پہلا مہینہ ہے ۔ جسکی قرآن
وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔اس ماہ مبارک میںقتل وخونریزی ، جنگ وجدال اور
فتنہ وفساد سے خصوصی طور پر منع کیا گیا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حرمت والے
مہینوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ
اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ
أَنْفُسَكُمْ﴾ـ(سورہ التوبۃ:۳۶)
ترجمہ :بے شک مہینو ں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ کی ہے ۔ اسی دن سے جب سے آسمان
وزمین کو اس نے پیدا کیا ۔ ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔یہی درست دین ہے ۔لہذا
تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
مذکورہ آیت میں ’’فی کتاب اللہ ‘‘سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الہی ہے۔یعنی
ابتداء افرینش سے ہی اللہ تعالی نے بارہ مہینے مقررفرمائے ہیں۔ جن میں چار مہینے
حرمت والے ہیں ۔جن میں قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷺنے اسی
بات کو اسطرح بیان فرمایا: ’’عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ
النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَكَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ
السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ
حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ
وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَان‘‘کہ زمانہ گھوم کر اسی حالت پر
آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی ۔
اور سال بارہ مہینوں کا ہو تاہے ۔جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ تین پے درپے
آتے ہیں(۱)ذوالقعدہ (۲)ذوالحجہ(۳)محرم الحرام (۴)اور چوتھامہینہ رجب المرجب ہے۔جو
جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔(صحیح بخاری:۳۱۹۷)
یہاں منکرین حدیث کے لیے ایک تنبیہ اورقابل غوربات یہ ہے کہ قرآن کریم میں کہیں
بھی اللہ نے ان حرمت والے مہینوں کا نام لےکر خصوصی تذکرہ نہیں فرمایا بلکہ عمومیت
کے ساتھ کہا کہ ان بارہ مہینوں میں سے ’’مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘چار مہینے
حرمت وتقدس کے ہیں ، لہذا تم ان میں اپنے نفسوں پر خصوصی طور پر ظلم وزیادتی نہ کرو،
اوران حرمت والے چار مہینوں کی تعیین نبی کریمﷺ کی احادیث سے ہوتی ہے۔اور سنت نبویہ
جو قرآن کی تشریح و توضیح ہے اس نے ان چار حرمت والے مہینوں کی تعین فرمائی اور
بتایا کہ حرمت و ادب والے مہینے کون سے ہیں۔چنانچہ آپ ﷺنے فرمایاکہ ’’السَّنَةُ
اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو
الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ
جُمَادَى وَشَعْبَان‘‘یعنی سال بارہ مہینوں کا ہو تاہے ۔جن میں چار مہینے حرمت والے
ہیں ۔ تین پے درپے آتے ہیں(۱)ذوالقعدہ (۲)ذوالحجہ(۳)محرم الحرام (۴)اور چوتھامہینہ
رجب المرجب ہے۔جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان ہے۔(صحیح بخاری:۳۱۹۷)یہ حدیث
مبارک اور اس کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں جو قرآن کی تشریح وتوضیح کرتی ہیں جن سے
معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے لیےحدیث کو سمجھنا اوراس
پر عمل کرنا لازمی أمر ہے۔
اس طرح سورہ توبہ کی آیت اور صحیح بخاری کی روایت سے ماہ محرم اور حرمت والے
مہینوں کی فضیلت واضح ہوتی ہے جبکہ محرم کی اس فضیلت کے معتقد اہل مکہ بھی
تھے۔زمانۂ جاہلیت میں وہ بھی ان حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے تھے اور ان
مہینوں میں قتل وخونریزی بند کردیا کرتے تھے لیکن ان کی ہٹ دھرمی یہ رہتی تھی کہ وہ
اپنی منشاء و مرضی کے مطابق جب چاہتے حرمت والے مہینوں کی ترتیب الٹ پھیر اور آگے
پیچھے کرکے ان میں جنگ وجدال اور قتل وخونریزی کو جائز کرلیتے تھے جس سے اللہ نے
انہیں منع کیا ، ان کےاس عمل کو ان کے کفر میں زیادتی کا سبب قرار دیا،ان کی گرفت
کی اور اس عمل قبیح سے انہیں خصوصی طور پر منع کیا اورفرمایا کہ ﴿فَلَا تَظْلِمُوا
فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ﴾کہ تم ان مہینوں میں(اللہ کے منع کردہ امور کا ارتکاب کرکے)
اپنے نفسوں پر ظلم وزیادتی نہ کرو۔ اور اسی طرح اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے تعلیمات
کی مخالفت میں اپنے نفسانی خواہشات کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے ان مہینوں کی
ترتیب کی الٹ پھیر مت کروجسے قرآن نے’’ نسئ‘‘ سے تعبیر کیا ہے لیکن افسوس کہ آج
وہی معاملہ نام نہادمسلمان ان مبار ک اور عظمت والے مہینوںمیں کرتا اور ایسی ایسی
بدعات و خرافات کے کام کرتاہے جس سے شریعت اسلامیہ نے منع فرمایا ہے مثلا : تعزیہ
بنانا، صحابہ کرام کو گالی گلوچ دینا،سب وشتم اور تبرا بازی کرنا ،دس روزہ محفلیں
منعقد کرکےامام حسین ؓکی شہادت کی داستان سنانا اور سانحہ کربلا بیان کرنا
،کالےلباس پہننا اور سروں پر کالی پٹی باندھنا ،خصوصی پکوان بنانا اور کھلانا، اسی
طرح سبیلیں لگانا اور لوگوںکو شربت پلانا، جلوس نکالنا، نوحہ وماتم اور سینہ کوبی
کرنا،وغیرہ وغیرہ۔
یہ وہ ایسے قبیح اعمال ہیں جن سے شریعت نےخصوصی طور پر منع فرمایا ہے لیکن ہمارے
نام نہاد اور کلمہ گو بھائی بڑے فخریہ انداز میں ان تمام بدعات وخرافات کے کام اسی
ماہ مبارک اور حرمت والے مہینے میں انجام دیتے ہیں اور کتاب وسنت کی خلاف ورزی کرکے
اپنے اعمال صالحہ کو ضائع وبرباد کرتے ہیں۔جبکہ نبی کریمﷺ سے اس مبارک مہینے میں
کثرت سے نیک اعمال کے ساتھ ساتھ دس محرم الحرام کا روزہ رکھنا ثابت ہےجس کے بارے
میں نبی کا فرمان ہےکہ ’’صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ ، إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى
اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ‘‘(ابن ماجہ:۱۷۳۸)اور ایک دوسری
روایت میں ہے ’’یکفر السنۃ الماضیۃ‘‘یعنی یوم عاشوراء کا روزہ ایک سال کےپچھلے (
صغیرہ) گناہوں کو مٹادیتا ہے۔
اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث صوم عاشوراء کی فضیلت کے متعلق وارد ہیں ۔جیسا کہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ رمضان
کے بعد کونسا روزہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا’’شھراللہ المحرم‘‘اللہ تعالی کے ماہ
محرم کا (مسلم ۱۱۲۳)
اس طرح احادیث میں محرم کے روزوں کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔لیکن عاشوراء کے
روزوں کے تعلق سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ عاشوراء کا روزرہ رکھتے ہوئے
ہمیں یہود ونصاری کی مخالفت بھی کرنی ہے ۔اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد
فرمایاکہ’’خالفواالیہود وصومواالتاسع العاشر‘‘ترجمہ: تم لوگ یہود ونصاری کی مخالفت
کرو ۔اور نو ،دس محرم کا روزہ رکھو۔(بیہقی :۴:۲۷۸اسناد صحیح )مزید دوسری جگہ اللہ
کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’فاذاکان العام المقبل ان شاء اللہ صمنا الیوم
التاسع‘‘(مسلم ۱۱۳۴)
ترجمہ :۔آئندہ سال آئیگا تو ہم نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔لیکن اگلا سال آنے
سے پہلے ہی آپ ﷺاس دنیاسے کوچ کر گئے ۔
مذکورہ تمام دلائل وبراہین کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ محرم کے
روزوں کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے ۔اس مبارک و حرمت والے مہینےمیں ہمیں
زیادہ سے زیادہ ذکر و اذکار ، نفلی عبادات ، اور خاص طور سے عاشوراء کا روزہ خود
رکھنااور اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب کو رکھنے کی تلقین کر نا چاہیئے۔ اس لیے
کہ اللہ کے رسول ﷺخود اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ ء کرام کو بھی حکم دیتے
تھے ۔’’فلماہاجرالی المدینۃ صامہ و امر بصامۃ‘‘(بخاری ۲۰۰۱،۲۰۰۳،مسلم ۱۱۲۵)ترجمہ :۔
جب آپ ﷺنے مدینہ کے طرف ہجرت کیا تو آپ خود اس دن کا روزہ رکھتے اور صحابہ ء کرام
کو بھی حکم دیتے تھے اس لیئے ہم کو بھی روزے کا اہتمام کرنا چاہیئے ۔جبکہ آج ان
واضح دلائل وبراہین کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نوحہ وماتم اور دیگر خرافات
میں سر فہرست نظر آتا ہے اور کتاب وسنت کی مخالفت کرکے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر
کررہا ہے ،آج لوگ قرآن وحدیث کو چھوڑ کرمختلف فرقوں، گروہوں اور ٹولیوں میں بٹے
نظر آتے ہیں ، جبکہ ہم سب کا قرآن ایک، کعبہ ایک، نبی ایک، شریعت ایک پھر آپس
میں اتنا اختلاف وانتشار کیوں؟یہ ایک اہم سوال اور سوچنے کامقام ہےمسلمانو!یہی
ہماری کمزوری اور اختلاف کاسبب ہےکہ آج باطل طاقتیں ہماری انہیں کمزوریوں سے فائدہ
اٹھا کرہمیں طرح طرح سے ستاتیں اور زدو کوب کرتی ہیں،ہمارا اور ہماری شریعت کا
استہزا ء اور مذاق اڑاتی ہیں ،ہمارے رسول مکرم کے خلاف سازش اور نازیبا کلمات کہے
جاتےہیں،آپ کی لائی ہوئی شریعت میں رخنہ اندازی کی جاتی ہے اور ہماری شبیہ کو
داغدار کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا جاتا ہے۔لیکن ہم ہیں کہ ہوش کے ناخن
نہیں لیتے، خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتے، شریعت مطہرہ کا گہرائی و گیرائی سے
مطالعہ کرکے اس کے سچے متبع وپیر وکار نہیں بنتے اورکتاب وسنت کے وسیع و آفاقی
پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپس میں متحد اورمتفق نہیں ہوتے ،جس کے نتیجے میں آج ہمیں
در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں پوری دنیا میں مسلمان کاٹے اور مارے جارہے ہیں
۔برما، فلسطین، افغانستان اور دیگر ممالک اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔
لہذا مسلمانو!ابھی وقت ہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ،کتاب وسنت کے منع کردہ ان تمام
امور سے اجتناب کرتے ہوئے بدعت و خرافات سے اجتناب کرتے ہوئے کتاب اللہ اور سنت
رسول کے سچے پکے شیدائی بن جاؤ،ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنے تمام مسلمان
بھائیوں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرو، ان کے ساتھ اخوت و بھائی چارگی کا معاملہ
کرو،حرمت و تقدس والے ان مہینوں کا احترام کرتے ہوئے کثرت سے اعمال صالحہ کرو، نبی
کائنات آپ کے اصحاب اور سلف صالحین سے سچی محبت کرواوراپنے دلوں سے ان کے خلاف بغض
وعناد کو نکال کر ان کے حق میں دعائےخیر کرو۔
اللہ ہمیں کتاب وسنت کا سچا پکا شیدائی اور متبع سنت بنائے۔ آمین!
|