سربراہِ فوج جنرل بپن چند راوت نے دفاعی امور کے ماہرین
کو خطاب کرتے ہوئے جن باتوں کی جانب توجہ دہانی کی تھی اگر ان پر مناسب
اقدامات کیے جاتے تو ۹اکتوبر کے دن لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ایچ ایس پناگ
کو چند تصاویر کے ساتھ ٹویٹر پر یہ نہ لکھنا پڑتا کہ ’’سپاہی کو ایسے گھر
میں لایا گیا تھا‘‘۔ یہ اروناچل پردیش کے اندرہیلی کاپٹر حادثے میں جان
گنوانے والے سات فضائیہ کے اہلکاروں کے لاشوں کی تصاویر تھیں جن کو کو
پلاسٹک کی بوریوں میں رکھ کر اور گتتوں میں باندھ کرسرحد سے لایا گیا تھا۔
اس خبر کو ذرائع ابلاغ میں خاطر خواہ اہمیت نہیں ملی اس لیے کہ امت شاہ کے
بیٹے جئے شاہ کی بدعنوانی نےسیاسی گلیارے میں زلزلہ برپا کردیا تھا۔ایک کے
بعد ایک بعد وزراء اور سیاستدانوں نےبیانات کی بھرمار کردی تھی لیکن
نامعلوم فوجیوں کی خبر پر نہ تو سرکار نےتوجہ دی اور نہ حزب اختلاف نے
تبصرہ کیا۔قوم کے سپوتوں کے ساتھ اسسلوک کو دیکھ کسی کے کان پر جوں تک نہیں
رینگی۔ وزیر دفاع تو دور سنگھ پریوارکے کسی چپراسی نے بھی اپنے غم و غصے کا
اظہار نہیں کیا اس لیے کہ سار ےبھکت امیت شاہ کے کپوت جئے شاہ کے دفاع میں
جٹے ہوئے تھے۔
اس معاملے میںفوج نےعجیب و غریب صفائی پیش کرتےہوئے کہا کہ ’’اونچائی والے
علاقوں میں لانے اور لے جانے میں کافی دقت ہوتی ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر مکمل
بوجھ نہیں لےپاتے۔ اس لیے فوجیوں کے لاشوں کو باڈی بیگ یا تابوتوں کی بجائے
دستیاب مقامی وسائل میں لپیٹا گیا تھا۔ اگرچہ گوہاٹیاسپتال میں پوسٹ مارٹم
کے بعد انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لکڑی کے تابوتوں میں رکھا گیا اور
گھروں کو بھیجا گیا ‘‘۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ساتوں لاشوں کو ایک
ہیلی کاپٹر میں لانا ضروری تھا؟ کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ سات ہیلی کاپٹر
لکڑی کے تابوتوں کےساتھ جاتے اوراحترام کے ساتھ لے کر آتے جو ہیلی کاپٹر
سات افراد کا بوجھ اٹھا سکتا ہے وہ تابوت میں ایک لاش بہ آسانی لے کر
آسکتا ہے۔اس طرح کا احمقانہ بیان اگر جئے شاہ کے بارے میں دیاجاتا تو اس
پر بھی ہتک عزت کا مقدمہ دائر ہوجاتا۔ ہمارے ملک میں دیش کے حقیقی رکشکوں
کی قدروقیمت نہیں ہے بلکہ دیش بھکتوں کی رکشاکرنےوالوں کا بول بالا ہے۔
یہ جعلی دیش بھکت نہ صرف موت کے بعد اپنے فوجیوں کے ساتھناروا سلوک کرتے
ہیں بلکہ جیتے جی بھی ان کی تذلیل و تضحیک کی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں گوہاٹی
میں ۳۰ سالوں تک فوج میں ملک کی خدمت کرنے والے محمد اجمل حق کو اپنی شہریت
ثابت کرنے کیلئے کہا گیا ہےاور ان کے ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگا گیا۔ وہ
۱۹۸۶ سے ۲۰۱۶ تک جب فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے کسی کو ان کے غیر
ملکی ہونے کا خیال نہیں آیا لیکن جب وہ سبکدوش ہوگئے تو ان سے شہریت کے
ثبوت مانگے جانے لگے ۔ کیا احسان فراموشی کا اس سے بڑا نمونہ ہوسکتا ہے کہ
جس میں کسی سابق فوجی کو غیر ملکی شہری بتا کراس کے خلاف مقامی پولیس غیر
قانونی طریقے سےملک میں رہنے کا الزام لگائےاور اس کا نام مشتبہ ووٹروں کی
فہرست میں بھی ڈال دے؟
بفرضِ محال اگر یہ لوگ ثابت کردیں کہ اجمل بنگلہ دیشی ہے توکیا پڑوسی ملک
اس سابق ہندوستانی فوجی کو قبول کرلے گا جبکہ اس کے والد مقبول علی کا نام
۱۹۶۶ کی ووٹر لسٹ میں شامل ہے۔ اتنا ہی نہیں والدہ رحیم النسا کا نام تو
۱۹۵۱ کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس میں بھی درج ہے۔ وزیر ریلوے پیوش گوئل جس
طرح جئے شاہ کی حمایت میں چلتی ٹرین سے کود کر لہو لہان ہوگئے اس طرح وزیر
دفاع نرملا سیتا رامنآگے آکر اپنے فوجی کا دفاع کرنا چاہیے تھا لیکن ان
جعلی دیش بھکتوں کے نزدیک فوج سے زیادہ انتخاب اہم ہے۔ نرملا سیتا رامن اگر
اس انتظار میں ہیں اجمل حق کی اہلیہ جنہیں تین سال قبل ایسے ہی الزامات
لگاکر پریشان کیا گیا تھا ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر پرارتھنا کریں گی تو ایسا
نہیں ہوگا اس لیے کہمسلمان خدا کے علاوہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔
ارون شوری نے درست کہا ہے کہ موجودہ سرکار ڈھائی لوگ مل کر چلارہے ہیں ظاہر
اس مثلث میں سے ایک ہاف ٹکٹ ہے ۔ شوری نے چونکہ وضاحت نہیں کی اس لیے جیٹلی
شاہ کو آدھا اور شاہ جیٹلی کو آدھا مانتے ہیں۔ اس بابت اگر مودی سے
دریافت کیا جائے تو وہ کسی کو پورا نہیں مانتے۔ ان کا جواب ہوگا اول تو
ڈھائی والی بات غلط ہے یعنی ایک صرف ایک آدمی سب کچھ کررہا ہے اور اگر اسے
درست مان لیا جائے تو دونے پونے یعنی بونے ہیں اس لیے انہیں جوڑ کر ڈیڑھ
بنالیا جائے۔ اس طرز فکر نے ملک کی خارجہ اور و دفاعی پالیسی کو بہت نقصان
پہنچایا ۔ وزیراعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی اس زور و شور سے غیر ملکی دورے
شروع کردیئے کہ سشما سوراج غیر اہم ہوکر رہ گئیں۔ خارجہ پالیسی کے سارے
فیصلے وزیراعظم کے دفتر سے ہونے لگے اور للوگ بھول گئے کہ ملک میں ایک وزیر
خارجہ بھی ہے۔
دوسرا نقصان وزارتِ دفاع کا ہوا۔ مودی جی نے وہ اہم ترین شعبہ اپنے وزیر
خزانہ کو پکڑا دیا جو ماہر معاشیات اور نہ فوج ککا تجربہ رکھتا تھااس طرح
دفاعی امور کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد منوہر
پریکر جیسے نااہل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جنہوں نےاپنے ہر بیان سے ایک
تنازع پیدا کرکے قومی وقار کو نقصان پہنچایا۔ منوہر پریکر کو اگر ان کی
بدزبانی کی سزا دی جاتی تو اصلاح ہوسکتی تھی لیکن انہیں ایک غیر اہم صوبے
کا وزیراعلیٰ بنا کر سیاسی فائدے کو قومی مفاد پرترجیح دینے کی روایت قائم
کی گئی۔ اس طرح پھر ایک بار وزارت دفاع ضمیمہ کے طور جیٹلی کے گلے ماردیا
گیا۔ اس کے کئی ماہ بعد صنعت حرفت کے شعبے میں بری طرح ناکام ہونے والی
نرملا سیتا رامن کو وزیردفاع بنادیا گیا۔ سرکار کے اس افسوسناک رویہ کا اثر
دفاعی فیصلوں پر پڑا جس اظہار فوج کے سربراہ جنرل راوت نے مئی کے اندر اپنی
تقریر میں کیا۔ جنرل راوت نے جہاں فوج کی ضرورتوں کی جانب توجہ دلائی وہیں
دفاعی نکتۂ نظر سے قومی پالیسی میں ضروری تبدیلیاں بھی تجویز فرمائیں۔
فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نےدفاعی امور کے ماہرین و دانشوروں سے خطاب کرتے
ہوئے اعتراف کیا کہ دفاعی ماہرین اور انتظامیہ میں یہ احساس پایا جاتا ہے
کہ فوج کی جدید کاری سست رفتار ہے اور حکومت اس کے لئے ضروری سرمایہ مختص
نہیں کررہی ہے۔ مسلح افواج کو وسائل کا اس قدر حصہ نہیں مل رہا ہے کہ وہ جس
کے مستحق ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے حق سے محروم ہیں ۔ دیش بھکتی کا ڈنکا بجانے
والی سرکار کے تئیں یاس احساس کا جنم لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سارا
کھیل تماشا عوام کو ورغلانے کے لیے کیا جاتا ہے حقیقت میں کوئی اس بابت
سنجیدہ نہیں ہے۔ جنرل راوت نےدفاعی اخراجات میں اضافہ پر زور دیا تاکہ
ہندوستان کے دفاعی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جاسکے ۔ اُنھوں نے فوج کو
مستحکم بنانے کے لئے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پر اصرار کیا ۔
اپنے دلائل کے حق میں چین کی مثال دیتے جنرل راوت نے کہاکہ وہاں پر فوج کی
طاقت اور معاشی ترقی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ جبکہ ہم صرف اپنی معیشت کو بہتر
بنارہے ہیں۔ فوج کو اس کا جائز حصہ نہیںمہیا کیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے چین
سے سبق سیکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہاکہ فوج اور معیشت کی ترقی ایک ساتھ
ہونی چاہئے کیوں کہ دونوں قومی طاقت کے بنیادی ستون ہیں۔ ۲۰۱۷ تا ۲۰۱۸ کے
لئے ہندوستان کا دفاعی بجٹ ۷۴ء۲ لاکھ کروڑ روپئے تھا جو جی ڈی پی کا صرف
۶۳ء۱ فیصد ہےاس کے مقابلے چین نے اس دوران فوج کے لئے ۱۵۲ارب امریکی ڈالر
اخراجات کا نشانہ مقرر کیا جو ملک کی جی ڈی پی کا ۳فیصد اور ہندوستان کے
دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔
کمانڈر ان چیف نے چند تلخ حقائق کی نشاندہی اس طرح کی کہ ’’ ہمیں اپنی قومی
فوجی حکمت عملی کی شناخت کے قابل ہونا چاہئے۔ فی الحال ہماری کوئی قومی
فوجی حکمت عملی نہیں ہے۔ ہندوستان کی ترقی کے لئے طاقتور فوج ضروری ہے۔
اُنھوں نے کہاکہ دفاع پر اخراجات کو عوام معیشت پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں‘‘ ۔
یہ بیان دراصل سرکار اور عوام کو آئینہ دکھاتا ہے لیکن افسوس کہ دونوں
آنکھیں چراتے ہیں ورنہ اس پر قومی سطح پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوجانا
چاہیے تھا۔ سرکار کواس زبردست کوتاہی کے لیے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا ضروری
تھا لیکن ہمیں گئو رکشا سے فرصت ملے تو قوم کے تحفظ کی جانب توجہ دیں۔ بات
یہ ہے کہ فی ازمانہ گائے کے نام پر تو ووٹ مل جاتے ہیں مگر فوج کے نام پر
نہیں ملتے اس لیے گائے کی خاطرآشرم بنائے جاتے ہیں مگر فوج کی فلاح بہبود
کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا ۔
ایسے وقت میں جبکہ ڈوکلام کے اندر اجیت دوال کی مہربانی سے ہند ی اور چینی
فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ڈٹی ہوئی تھیں اور پاکستانی سرحد سے آئے فوجیوں
کی ہلاکت کی خبریں آرہی تھیں جنرل راوت نے صورتحال ککا مقابلہ کرنے کی
خاطر نئے دوست اور حلیف تلاش کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ مغربی اور شمالی
سرحدوں کے پڑوسی ممالک سے نمٹا جائے۔انہوں نے علاقائی سلامتی کے پیش نظر
ایران، عراق اور افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا
مشورہ دیا۔ آپ نے فرمایا تقسیم سے پہلے ہندوستان کا کافی دفاعی اثر و رسوخ
تھا۔ پاکستان نے ہندوستان کے لئے دوہری تذبذب کی حالت پیدا کردی ہے۔ چین کے
ساتھ مسائل کی یکسوئی میں بھی کافی دشواریاں حائل ہیں۔ سربراہ فوج نے اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے انتھک کوشش کرنے پر بھی زور
دیا۔
اس سنجیدہ بحث سے بے نیاز وزیراعظم کے دفتر نے اعلان کیا کہ اس سال وہ
دیوالی کا تہوار چین کی سرحد پر فوجیوں کے ساتھ منائیں گے ۔ اسی کے ساتھ
سرکار نے چین سے یہ بھی کہا کہ وہ آپسی مفاہمت کا احترام کرے۔ فی الحال
ڈوکلام کی صورتحال پر جنرل راوت کا تبصرہ حرف بہ حرف صادق آتا ہے اس لیے
کہ نئی مصالحت کے تحت چین کو تو کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔ اس کی فوجیں اپنی جگہ
پر ڈٹی ہوئی ہیں اور وہ کسی بھی وقت سڑک کی تعمیر شروع کرسکتا ہے ۔
ہندوستان نے اپنی فوجیں ہٹانے کا فیصلہ کیاہے جو کام ایک ماہ میں مکمل
ہوجائیگا اس لیے راہل گاندھی کا یہ بیان کہ ۵۶ انچ کاچھاتی والے وزیراعظم
اپنی پیٹھ تھپتھپانے کے بجائے سرحد پر دھیا ن دیں درست معلوم ہوتا ہے۔
نرملا سیتارامن کا سرحد پر جاکر چینی فوجیوں کو نمسکار بولنا سکھانا ایک
ناٹک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
وزیراعظم نے دیوالی منانے کی ایک نئی روایت قائم کررکھی ہے جس کے تحت وہ
ہرسال سرحد پر جاتے ہیں ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ۲۰۱۴ میں انہوں نے جموں
کشمیر میں دیوالی منائی تھی اس لیے صوبائی انتخابات سامنے تھے۔ جموں میں اس
کا فائدہ ملا لیکن کشمیری عوام کو جھانسہ دینے میں وہ بری طرح ناکام رہے۔
۲۰۱۵ پنجاب کی سرحد پر گئے اس لیے وہاں انتخابات کی تیاری تھی لیکن پنجاب
میں ناکامی ہاتھ لگی۔ پچھلے سال ہماچل پردیش گئے تو وہاں پر انتخاب جیتنے
کے بجائے کانگریسیوں کو خرید کر ان کے پنجے میں کمل کھلادیا ۔ اس سال گجرات
کی سرحد پر جانا چاہیے تھا لیکن شاید وہ بھول ہی گئے ہیں کہ گجرات بھی
پاکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ وہاں پرراہل گاندھی نے ان کے ناک میں دم
کررکھا ہے۔ ایک راہل کو گجرات بھگانے کے لیے بی جے پی کے تین مہارتھی امیت
شاہ، سمرتی ایرانی اور یوگی ادیتیہ ناتھ امیٹھی پہنچ گئے اور پھر بھی بات
نہیں بنی تو الیکشن کمیشن کو گجرات کی انتخابی تاریخوں کے اعلان سے روک
دیا۔ اس طرح کا خوف بی جے پی تو کجا جے ڈی یو کو بھی زیب نہیں دیتا۔
الیکشن کمیشن جیسے ہی اعلان کیا کہ نومبر کے اندر ہماچل پردیش میں انتخابات
کا انعقاد ہوگا وزیراعظم کے دفتر سے اعلامیہ شائع ہوگیا کہ مودی جی نے پھر
ایک بار ہماچل پردیش کی چینی سرحد پر دیوالی منانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
وزیراعظم ہرسال فوجیوں سے ملنے جاتے ہیں ۔ان کو اپنے ہاتھوں سے مٹھائی
کھلاتے ہیں تصویریں کھنچواتے ہیں اورواپس آنے کے بعد بھول جاتے ہیں۔ مودی
جی سرحد پر اپنی جان کھپانے والےفوجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں
کرتے ورنہ ہماچل ہی میں سات فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ ہوتا
بلکہ تاوانگ کے مقام پر پیش آنے والا حا دثہ ٹلبھی سکتا تھا۔ پچھلے سال
جولائی میں بھارتی ایئر فورس کا ایک طیارہ، جس پر ۲۹ افراد سوار تھے، لاپتہ
ہو گیا ہے۔ وزارتِ دفاع کے مطابق یہ روسی ساخت کا طیارہ خلیج بنگال کے اوپر
سے پورٹ بلیئر جا رہا تھا کہ غائب ہو گیا۔فوجی حکام نے تسلیم کیا کہ موسمِ
باراں میں خلیج بنگال کی آب و ہوا خراب ہوجاتی ہے۔
مذکورہ طیارے میں ۲۱ فوجی اور۸ شہری سوارتھے، جن میں سے کچھ فوجیوں کے اہلِ
خانہ تھے۔وزارتِ دفاع نے اس کی بازیابی کی ذمہ داری ۴ جاسوس طیاروں ،۱۲بحری
جہازوں اور ایک آبدوز کو سونپ دی مگر کامیابی ہاتھ نہیں آئی اس لیے دوماہ
بعد یہ مان لیا گیا کہ سارے مسافر جان بحق ہوگئے۔ بھارتی فضائیہ میں پرانے
طیاروں کی بھرمار ہے، جس کے سبب اس طرح کے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں کے اندر ایسے حادثات میں ۱۷۰ سے زائد پائلٹ جانوں گنوا
بیٹھے ہیں۔ ہماری سرکار کے پاس ولبھ بھائی پٹیل، شیواجی مہاراج اور شری رام
کے دیوہیکل مجسمے بنانے کے لیے سرمایہ کی کمی نہیں ہے مگر فوج پر خرچ کرنے
میں تنگی ضرور ہے۔ کاش کہ وزیراعظم ایک بار ان حادثات میں مارے جانے والے
فوجیوں کے اہل خانہ کے ساتھ بھی دیوالی مناتے اور ان کے آنسو پونچھتے ۔ دن
رات انتخابی جوڑ توڑ میں ملوث رہنما سے ایسی توقع اسی وقت تک ممکن ہے کہ جب
اسے یہ سب کرنے سے ووٹ کا فائدہ نظر آئے ۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی دیوالیہ
پن نے فوجی ضرورت اور قومی تحفظ جیسے اہم ترین امور کو بھی بے وقعت کرکے
رکھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دیش بھکتی پر بیان بازی تو ہوتی ہے مگر اقدامات
نہیں ہوتے۔ |