کارکن خاطر جمع رکھیں!

 گزشتہ روز خادمِ پنجاب ملتان میں تھے، ان کی اس تشریف آوری کا مقصد فیڈر بسوں کا افتتاح کرنا تھا، جن سے میٹرو روٹ کو تعاون میسر آئے گا۔ انہوں نے حسبِ روایت جذباتی خطاب کیا، قوم کو یہ بتایا کہ ’’․․․ سیاست کے ایک سو ایک گُر جانتا ہوں ـــ․․․‘‘۔ اسی خطاب میں انہوں نے عمران خان کو ملک دشمن بھی قرار دیا۔ اپنی حکومت کی بہت سی کامرانیوں کا ذکر کیا اور بہت سے ایسے کاموں کا حوالہ بھی دیا جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چونکہ حکمران پارٹی کے مالکان آجکل کچھ مشکل میں ہیں، الیکشن کی بھی آمد آمد ہے، اس لئے ایسی تقریبات کی اشد ضرورت ہے۔ بلکہ حکمرانوں نے بہت سے کام ملتوی کر رکھے ہوتے ہیں، جو الیکشن کے قریب جاکر کرنے ہوتے ہیں، تاکہ نمبر ٹانکنے میں سہولت رہے، قوم پر احسانات کا بوجھ بھی تازہ ہو۔ ویسے بھی جو شخص سیاست کے ایک سو ایک طریقے جانتا ہو، اس سے کسی بھی وقت کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے، کیونکہ اتنے زیادہ فامولوں کو آزمانے کے لئے وقت کم ہے اور طریقے زیادہ ہیں۔

بات کسی اور طرف نکل رہی ہے، اصل معاملہ یہ تھا کہ خادمِ پنجاب ملتان آئے تو ان کی سکیورٹی نہایت سخت تھی، یہ ملک کے معروضی حالات کا تقاضا بھی ہے اور میاں برادران کا اندازِ حکمرانی بھی۔ اس تضاد کو تو جانے دیجئے کہ ایک ارب پتی حکمران جس کے گرد سکیورٹی کا سخت ترین حصار ہوتا ہے، وہ اپنے ہر خطاب میں اشرافیہ کے خلاف تقریریں کرتا اور انقلاب برپا کردینے کی خبر دیتا ہے، سکیورٹی اور مراعات کے ہوتے ہوئے خود کو خادمِ اعلیٰ قرار دینے سے بڑا تضاد قول وفعل میں کیا ہوگا؟ اور پھر خادم بھی ایسا جس سے ممبران اسمبلی بھی آسانی سے نہیں مل سکتے۔ ملتان میں بھی کچھ ایسے ہی مناظر رپورٹ ہوئے ہیں۔ سٹیج پر بیٹھنے والوں کا بھی مسئلہ ہی تھا، وزیراعلیٰ کے پیچھے والی قطار میں سکیورٹی کے لوگوں نے بیٹھنا تھا، تاہم وہاں مسلم لیگ ن کے ممبران اسمبلی بیٹھ گئے، انہیں وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی گئی، ناکامی کی صورت میں انتظامیہ نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ دونوں قطاروں کے درمیان میں کرسیوں کی ایک قطار لگا دی گئی، جس پر سکیورٹی والے ہی بیٹھے۔ سٹیج تک پہنچنے کے لئے بہت سے لوگوں نے دوسروں کو دھکے دئیے اور دھکے کھائے۔ مثلاً سٹیج پر موجود ایک ممبر صوبائی اسمبلی اس وقت ایک دھکے کی زد میں آکر نیچے پہنچ گئے، جب وزیراعلیٰ سٹیج پر پہنچے۔سکیورٹی والے بہتر جانتے ہیں ، کس کاکیا مقام ہے؟ کس کو کہاں تک رکھنا ہے؟ یہی وجہ ہے جہ جب دھکم پیل قابو میں نہ آئی تو وزیراعلیٰ کے سکیورٹی چیف نے آرپی او اور دیگر پولیس افسران کو جھاڑ پلا دی۔

یہ ہمارے مقامی افسران جب اپنے دفاتر میں ہوتے ہیں تو عوام کو حقیقی معانوں میں ’’کالانعام‘‘ ہی تصور کرتے ہیں، جس کو چاہا اور جب چاہا اندر داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمادی، اندر آکر بھی چاہا تو دو منٹ میں فارغ کردیا اور چاہا تو چند لمحات عنایت کردیئے۔ کسی کی کیا مجال کہ دروازہ کھول کر بلا اجازت اندر داخل ہو سکے۔ مگر جب اور جس شہر میں اپنے حکمران اترتے ہیں، وہاں اِ ن مقامی افسران کی حالت دیدنی ہوتی ہے، یہ کسی بھی قیمت پر بڑے صاحب کے مزاج کے خلاف سرِ مو حرکت برداشت نہیں کرتے، اس کام کے لئے یہ تمام انتظامات کی خود نگرانی کرتے ہیں، جہاں ضرورت پڑی کسی کو دھمکی دی، جہاں مجبوری ہوئی لوگوں کو قابوکرنے کے لئے نرمی کا ہنر آزمایا، کسی کو وعدہ فردا پر ٹرخایا، حتیٰ کہ کرسیاں درست کرتے بھی پائے گئے۔ یہ رویہ اپنی قوم کے لئے کسی المیے سے کم نہیں، حکمرانِ وقت کے وہاں سے رخصت ہو جانے کے بعد اِن لوگوں کے حواس بحال ہو جاتے ہیں، اور ان کی اڑان آسمانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ کے دورہ ملتان کے دوران جب عوام کو وزیراعلیٰ کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا گیا تو پارٹی عہدیدار یا مقامی منتخب نمائندے شکوہ کرتے دکھائی دیئے۔ ’’ماریں ہم کھائیں، قربانیاں ہم دیں، ایک کال پر اسلام آباد ہم پہنچیں ․․․ یہاں ملنا بھی گوارا نہیں․․‘‘۔ ملتان میں بھی شیر آیا شیرآیا کے نعرے آپ نے ہی لگائے ہیں، دھکے بھی آپ نے ہی کھائے ہیں، سیلفیاں بنانے کی ناکام کوشش بھی آپ نے ہی کی ہے، آپ اس سب کچھ کے باوجود خوش ہیں تو گِلہ کیسا؟ آپ دھکے کھا کر بھی جان واری کرتے ہیں، تو خاطر جمع رکھیں، بُرا وقت آیا تو یہ حکمران کارکنوں کے شانہ بشانہ ہوں گے، پھر چاہے ہاتھ ملانا یا سیلفیاں بنانا۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472342 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.