ذرائع ابلاغ کے مطابق 12 اکتوبر 2017 کودوفلسطینی قوتوں
حماس اور الفتح تحریک کے درمیان مصالحتی معاہدے پر دستخط مصر کے دارالحکومت
قاہرہ میں دو روزہ مذاکرات کے بعد ہوئے۔ اس مذاکراتی دور میں حماس کے سیاسی
شعبے کے نائب صدر صالح العاروری اور تحریک فتح کے عزام الاحمد نے وفود کے
ہمراہ شرکت کی ،مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق دونوں جماعتوں کے عہدیداروں
کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں، سنہ 2011 کو طے پائے
معاہدے کو عملی جامہ پہنانے، غزہ کا انتظامی کنٹرول فلسطینی قومی حکومت کے
سپرد کرنے، سرکاری ملازمین اور گذرگاہوں کی نگرانی جیسے امور کو حتمی شکل
دی گئی ہے۔جب کہ 21 نومبر کو دونوں گروپوں کی ملاقات قاہرہ میں ہوگی اور
دونوں کے درمیان 2011ء کے معاہدہ قاہرہ پر عملدرآمد سے متعلق لائحہ عمل طے
کیا جائے گا،یاد رہے کہ معاہدہ قاہرہ کے مطابق فلسطین میں تمام دھڑوں پر
مشتمل قومی حکومت کی تشکیل، پارلیمانی، صدارتی، نیشنل کونس، پی ایل او کے
انتخابات اور سیکیورٹی ڈھانچے کی تشکیل نوشامل ہے۔
بلاشبہ فلسطین کی ان دوبڑی جماعتوں حماس اور مغربی کنارے سے تعلق رکھنے
والی فتح کے درمیان 2007ء سے اختلافات چلے آرہے تھے اور دونوں نے غزہ کی
پٹی اور غرب ِاردن میں اپنی الگ الگ حکومت بنا رکھی تھی، اور ماضی میں ان
دونوں جماعتوں کے درمیان متعدد مرتبہ مصالحت کے لیےناکام کوششیں کی گئی
تھیں ،جسکا اثر فلسطینی موقف میں کمزوری اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات
کے عمل میں تعطل کی صورت میں ظاہر ہوا ،تاہمگذشتہ ایک عشرے سے جاری شدید
اختلافات کے خاتمے کے لیے 2 اکتوبر 2017 کو فلسطین وزیر اعظم رامی حمداللہ
اور ان کے وزراء نے دو سال کے وقفے کے بعد غزہ کی پٹی کا دورہ کیا اس دوران
وہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور غزہ کے سربراہ یحییٰ السنوار سے بھی
ملاقات کرکے باضابطہ طور پر سرکاری محکموں کا کنٹرول سنبھال لیا ،اس موقع
پر انہوں نے کہا کہ ، ’’تقسیم کے خاتمے اور اتحاد کی خاطر ہم دوبارہ غزہ
پہنچ چکے ہیں" ۔
امر واضح ہے کہ فلسطینی قوتوں کا باہم متحد ہونا جہاں پوری مسلم دنیا اور
بالخصوص اہل فلسطین کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث ہے ،وہیں اسرائیلی حلقوں
میں بے چینی اور تشویش میں اضافے کا سبب ہے ،لیکن اس حقیقت سے انکار ناممکن
ہےکہ اہل فلسطین اِس وقت ایک متحد اور قومی قیادت کی کمی شدت سے محسوس کر
رہے ہیں اورہر فلسطینی کی خواہش ہے کہ حماس اور الفتح تمام اختلافات پسِ
پشت ڈالتے ہوئے فلسطین کے قومی مفاد کے حصول کے لیے متحد ہوکر جدوجہد
کریں،جب کہ اس حوالے سے قاہرہ نے ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئےفلسطینی
قوتوں کو متحد کرنے ،قومی حکومت کی تشکیل نو،اہل غزہ کے بڑھتے ہوئے مسائل
پر قابو پانے ، اسرائیلی جارحیت کی روک تھام اور عالمی سطح پرموثر اندا ز
میں 1967 کی حدبندیوں کے مطابق تشکیل دی جانے والی ایک ایسی مجوزہ فلسطینی
ریاست کے قیام کی جدوجہد کی راہ ہموار کی ہے ،اس میں بھی دو رائے نہیں کہ
فلسطینی قیادت کا اصل امتحان اس معاہدے پر عملدرآمد کرتے ہوئے قومی حکومت
کی تشکیل نو اور درپیش مسائل کو مرکز نگاہ بناتے ہوئے یہودی سازشوں کا
ناکام بنانا ہوگا ۔
|