قوم نئے چیئرمین قومی احتساب بیرو کو خوش آمدید کہتی
ہے۔مقتدر حلقوں کی کرپشن کی ماری قوم کو ان سے بہت سے اُمیدیں وابستہ ہیں۔
قوم اُمید رکھتی ہے کہ وہ ۷۰ سال سے کرپشن سے کرنے والے با اختیار لوگوں سے
قوم کی کمائی کی ایک ایک پائی وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروایں
گے۔ایسا نہ ہو جیسے پہلے ہوتا رہا کہ فرض کریں ایک ارب کی کسی باختیار
حکومتی شخص نے کرپشن کی ہے اور اس سے صرف ۱۰؍ لاکھ بارگینگ کر کے اسے چھوڑ
دے ، اس کی ضمانت بھی منظور کر لے، حکومتی عہدے پر دوباہ بحال بھی کر دیا
جائے تاکہ وہ پھر سے کرپشن کرنا شروع کر دے۔ آپ کے پاس مملکت اسلامہ جمہویہ
پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرف سے دیے گئے لا معدود اختیار ہیں۔ کوئی بھی آپ
کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ اختیارات کے علاوہ پوری پاکستانی قوم آپ کے
ساتھ گھڑی ہو گی۔اس لیے آپ اپنے پورے اختیار استعمال کر کے اپنے مدت ملازمت
میں پاکستان کی قوم کا لوٹا ہوا ایک ایک پیسا ظالم کرپٹ با اختیار لوگوں سے
وصول کر کے واپس پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں جمع کروائیں۔قوم پہلے
سے سنتی آئی ہے کہ سپریم کورٹ کے آڈر پر سو میگا کرپشن کے کیسوں کی لسٹ پیش
کی گئی۔ مگر کسی ایک سے بھی کچھ بھی وصول نہیں کیا گیا۔ بلکہ ملک کے سب سے
مشہور معروف صابق صدر جس کو مسٹر ٹین پرسنٹ کے خطاب سے نوازہ گیا تھا۔
کرپشن کے کیسز میں عشرہ بھر قید بھی رہے۔ اس کی کرپشن کا کیس ریکارڈ نہ
ملنے کی بنیاد پر نیپ کے سابق چیئرمین نے داخل دفتر کر دیا تھا ۔کہاکہ ان
کے پاس ریکارڈ نہیں فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ صاحبو! اگر با
اختیار لوگ اگراپنی کرپشن کے کچھ پیسے بے ضمیرے لوگوں کو دے کر ریکارڈ غائب
کرا دیں یا مصنوئی عمل سے ریکارڈ جلا ڈالیں تو کیا کوئی ایسا قانون نہیں کہ
ان سے عوام کا لوٹا ہوا پیسا واپس وصول کر کے غریب عوام کے خزانے میں جمع
کیا جائے ۔کیا نیپ اس بات پر کیس نہیں چلا سکتی کہ ایک فرد کی آمدنی کے
مقابلے میں اس کا رہین سہن شہزادوں کی طرح ہے۔ تو اس کے لیے ریکارڈ کی کیا
ضرورت ہے۔ کیوں نے اس سے پوچھا جائے کہ بھائی صاحب آپ ملازم ہو۔ آپ کی
تنخواہ سے آپ کا رہن سہن لگا نہیں کھاتا۔ آپ یہ ثابت کرو کہ فاضل پیسے کہاں
سے آئے ہیں۔ یہ اس کرپٹ شخص کا کام ہے کہ نیب کو اپنے ذرائع آمدنی بتائے نہ
کہ نیب ریکارڈ کے پیچھے پڑی رہے۔کیا نیپ کے سامنے خلفائے راشدین ؓکے دور کی
اسلامی تاریخ کا واقعہ نہیں کہ حضرت عمرؓ خلیفہ دوم کے وقت کسی نے ریکارڈ
مانگاتھا۔ یمن سے آئی ہوئی مال غنیمت کی چاردیں مدینہ میں ایک ایک فی بندہ
تقسیم ہوئیں تھیں۔ کسی صحابیؓ نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ ایک چادر سے
آپ کاکُرتا نہیں بن سکتا۔ آپ نے یہ کُرتا کیسے بنا لیا۔ یعنی صرف پہناوا
دیکھ کر ان سے یہ سوال پوچھا گیا۔تو جس پر الزام لگایا گیا تھا اُس نے ثابت
کیا کہ کُرتا کیسے بنا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹے سے دوسری چادر لے کر یہ کُرتا
سلوایا ہے۔ کیا کسی نیپ کے فرد کو سابق صدر سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے تھا کہ
یہ شاہاناہ زندگی آپ کیسے گزار رہے ہیں آپ ثابت کریں۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے
تو ان ہی دنوں ان کی پراپرٹیز کی لسٹ عوام کے سامنے رکھی تھی۔ سرے محل کا
بھی سب کو پتہ چل گیا تھا۔ سوسزر لینڈ کے بنکوں میں رکھی گئی رقم تو
پاکستان کے ہر خاص و عام کو پتہ تھی ۔جس کے لیے خط نہ لکھنے پر اس وقت کے
وزیر اعظم سے پوچھ گوچھ کی گئی تھی۔ اس ایک کیس کو ہم نے اس لیے بیان کیا
ہے کہ یہ سب کو معلوم ہے۔ کیا ہمارے ملک میں قومی اسمبلی کے ممبر جوپہلے جو
اسکوٹر چلا رہے تھے وہ شہر کے پوش علاقوں میں عالیشان بنگلوں میں کیسے
منتقل ہو گئے۔ کسی نے ان سے معلوم کیا کہ صاحب یہ پیسا کہاں سے آیا۔کیا
عوام میں یہ خبر نہیں کردش کرتی رہی کہ صاحب آپ تو رکشہ چلاتے تھے اب آپ کے
بچے امریکا میں تعلیم حاصل کر رہیں یہ پیسا کہاں سے آیا۔ بلکہ انہوں نے ایک
ٹی وی ٹاک شو میں کسی دوسرے ممبر اسمبلی کے اعتراض پر یہ تک کہہ دیا تھا کہ
میں تو تین پہیے والا رکشا چلاتا تھا آپ تو دو پہیے والا اسکوٹرچلاتے آپ کے
پاس پیسا کہاں سے آیا۔صاحبو! یہ باتیں کالم نگار نے اپنے پاس سے نہیں گھڑی
ہیں یہ باتیں پاکستان کے عوام کے درمیان زد عام ہیں۔ کیاالیکشن کمیشن نے
قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑنے میں کتنا پیسہ خرچ کرنا ہے کا شیڈول
نہیں دیا ہوا۔کیا اس کے مقابلے میں ممبر قومی اسمبلی کتنا بڑھا چڑھا کر خرچ
کرتا ہے الیکشن کمیشن کو نہیں بتا؟ابھی حال ہی میں لاہور میں ہونے والے
الیکشن میں امیدواروں نے الیکشن کمیشن کے بتائے ہوئے اخراجات سے کئی گنا
زیادہ خرچ نہیں کیا؟ کیا ایک امیدوار کی الیکشن مہم میں ریاستی وسائل
استعمال نہیں کیے گئے؟کیا مریم نواز صاحبہ کے پروٹکول پر حکومت کی پچاس
پچاس گاڑیوں کی لین کو عوام ٹی وی اسکرین پر نہیں دیکھتے؟ دیکھتے ہیں مگر
دل ہی دل میں یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ بااختیار لوگوں کووہ قانون کے
شکنجے میں کسنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ہم اپنے کالوں میں ہمیشہ لکھتے رہتے ہیں
کہ اس ملک میں سیاست دانوں نے الیکشن کو تجارت کا درجہ دے دیا ہے۔ الیکشن
لڑنے میں ایک کروڑ لگاؤ اور کئی ارب کماؤ والا فارمولا چلایا ہوا ہے۔ سیاست
دانوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ میاں نیچے سے اُوپر تک کرپشن ہے کس کس کو
پکڑو گے؟ہاں ہم کہتے ہیں کہ کچھ اوپر والوں کو پکڑنا چاہیے۔ چند کیسوں کے
بعد نیجے والے خود ڈر جائیں گے اور ملک سے کرپشن ختم ہو جائے گی۔یہ تو اﷲ
کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے اوپر والے کرپٹ پر ہاتھ ڈال
دیا ہے۔ اس کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا ہے۔ اس کو کرپشن سے روک دیا ہے
گیا۔ ان کے خاندان پر نیپ میں مقدمے دائر کر دیے ہیں۔ جلد پانی کا پانی
دودھ کا دود ھ کاپتہ چل جائے گا۔ عوام کا ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ ہے
دوسرے بڑے لوگوں پر بھی کرپشن کے مقدمے قائم کیے جائیں ۔ تاکہ کرپشن کرنے
والے کی یہ گردان ختم ہو جائے کہ پاناما کا کیس اور سزا اقامہ پر۔ مجھے
کیوں نکالا گیا۔روک سکو تو روکو۔ ہم اکثر اپنے کالموں میں لکھتے رہتے ہیں
کہ چین کی موجودہ قیادت نے کرپشن کے خلاف سخت ترین مہم چلائی ہوئی ہے اور
چین کی قیادت نے عام حکومتی لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کے جرنلوں پر
کرپشن ثابت ہونے پر موت کی سزا تک دی جارہی ہے۔ملک کی اعلیٰ عدالت اور نیپ
کو سب بڑے کرپٹ لوگوں کو انصاف کے کہڑے میں لا کر ان سے لوٹی ہوئی رقم
پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں جمع کرانی چاہیے۔ کرپٹ لوگوں کو سخت
سزائیں دی جائیں تا کہ ملک سے کرپشن کا ناسور ختم ہو۔ عوام نئے آنے والے
قومی احتساب بیرو کے چیئرمین کو خوش آمدید کہتی ہے۔اﷲ ہمارے مثلِ مدینہ
مملکت اسلامی جمہوری پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔ |