موجودہ خطے کی صورتحال پر ماہر ین تاریخ ،مبصرین کی جانب
میں پیش گوئی کی جارہی ہے کہ بھارت کو سی پیک سے اتنے خدشات نہیں جتنے
امریکہ کو ہیں،اور آئندہ تیسری عالمی جنگ ایشیا میں لڑی جائیگی۔اس حقیقت سے
بھی انکار نہیں کہ بظاہر امریکہ اور پاکستان تعلقات کو ایک خوش گوار نہج پر
لانے کا دکھاوا کررہے ہیں۔ دراصل اسلام آباد کو سخت پیغام پہنچا نا مقصود
ہے۔جب امر یکہ نے سی پیک کے منصوبے پر زبان کھولی اور اس کی گزر گا ہ کو
متنازعہ علاقہ قرار دیا تو امریکہ اپنی ہی زبان بول رہا ہے بلکہ سچ یہ ہے
کہ بھارت اس معاملے پر امریکی زبان بول رہا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ سوویٹ یونین کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد سے جنو بی ایشیا
،اور وسطی ایشیا میں طا قت کا تواز ن بگڑ گیا تھا۔امریکہ نے بھارت کے ساتھ
پا رٹنر شپ کر کے طا قت کے تواز ن کو مزید بگاڑا۔امریکہ افغان جہا د کے ایا
م میں پاکستان سے بہت سی امور میں ما ت کھاچکا تھا کیونکہ جنر ل ضیاء الحق
نے امریکہ کو افغانستان میں براہ راست گھس بیٹھنے کے تما م راستے مسدود کر
دیئے تھے اور یہ امریکہ کیلئے بڑی چوٹ تھی۔ تب سے بھارت کا امریکہ نے اپنے
چہیتو ں کی فہر ست میں نا م درج کر لیا۔یہ امریکی بھول ہی تھی کہ وہ سمجھ
بیٹھا کہ طا قت کا توازن اس کے ہاتھ لگ گیا ہے حالانکہ تاریخ یہ سبق دیتی
ہے کہ طاقت کا تو ازن کبھی ایک طرفہ نہیں رہا۔ بڑی طا قتو ں کا گھمنڈ ہمیشہ
چھو ٹی طا قتو ں نے ہی ملیا میٹ کیا ہے۔وہ سوویٹ یونین کی شکست کو بھول گیا
کہ روس نے ایک چھو ٹی طاقت سے شکست کھائی اور اب بھی وہ سبق بھلا رہا ہے کہ
افغانستان میں روس کی طرح اس کو بھی شکست ہو چکی ہے چنا نچہ ٹر مپ کی جنوبی
ایشیا کے بارے میں ایک طر ح سے اعتراف شکست ہے جو وہ اسکے ذریعے پاکستان کے
کند ھو ں پر بندوق رکھ کر توپ چلانا چاہتا ہے۔ سوویٹ یو نین کی شکست کے بعد
اس خطے میں بڑی اہم تبدیلیا ں آئی ہیں جو ہر طرح سے امریکہ کے مفاد میں
نہیں۔ اس شکست کے بعد بھارتجنو بی ایشیا میں ایک اقتصادی اور فوجی عسکری
قوت بن کر ابھر ا تو ہے مگروہ اپنے مفا دات کے علا وہ کسی دوسری طا قت کا
کند ھا بننے کوتیارنہیں،جیسا کہ ما ضی میں پا کستان اپنا کند ھا امریکہ کو
دیتا رہا ہے۔
تودوسری جانب افغانستان میں کردار کی بھارتی چاہت امریکہ کیلئے نہیں اپنے
مفادات کیلئے ہے۔ یہ چاہت کوئی نئی نہیں بلکہ بھارت کی آزادی کے دن سے ہے
جب بھارت کا امریکہ کے ساتھ دوستی کا رشتہ دور کا بھی نہیں تھا۔بھارت کو اس
وقت بھی ہز ار جتن کے باوجود تعبیر نہیں ملی تھی اور اب امریکی کندھو ں کا
سہارا لیکر بھی نہیں ملے گی۔ ایسے رشتے فطرتی ہو تے ہیں بناوٹی نہیں ہو ا
کرتے۔چنا نچہ امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن اوروزیر دفاع اسی ماہ پا
کستان آرہے ہیں۔وہ جانتا ہے کہ طاقت کے جس عدم تواز ن سے اس نے ون ورلڈ
پالیسی کے نا م پر مفادات چاہے تھے وہ تو پورے نہیں ہو پا ئے، الٹا اس خطے
میں مزید 3 طاقتو ں نے بھی سر اٹھالیے ہیں اور وہ چین اور روس کے علا وہ
پاکستان خود بھی ہے۔ جتنا صاف سی پیک کے بارے میں امریکہ نے اظہا ر نہیں
کیا اس سے زیادہ پا کستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کھل کر بار بار
کہہ دیا ہے کہ اب پاکستان کو امریکہ کی ضرورت نہیں رہی۔
امریکہ جا نتا ہے کہ بھارت خطے میں ایک طا قت ہو نے کے باوجود وہ کر دار
ادا نہیں کر سکتا جو پا کستان کا فطرتی طو رپر ہے اور وہ پاکستان کی اہمیت
کو نظر اند از بھی نہیں کرتا چنانچہ ماضی کے حالات اس امر کی نشاندہی کرتے
ہیں کہ امریکہ نے ایک طرف پاکستان کو اقتصادی بحران میں الجھا ئے رکھا ہے
تو دوسری طرف حالات کی مجبوری سے ہاتھ بھی بڑھا ئے رکھا ہے ، مثلاًکوریا کی
جنگ ختم ہوئی تو پاکستان کو خوش کرنے کیلئے کوریا سے اپنی واپسی پر سیبر
طیا رے پاکستان کو تحفہ میں دے دیئے تھے جس نے 65 کی جنگ میں رنگ جمایا تھا
اور یہ بات امریکہ کیلئے حیر ان کن تھی کیونکہ یہ کوریا کی جنگ میں کافی
مفید ثابت نہیں ہو ئے تھے۔
بہر حال امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی پا کستان آمد سے پاکستان اور
امریکہ کے تعلقات میں ایک نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اہم تبدیلی رونما ہو
نے کو ہے۔پہلے جب بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں مذاکر ات
ہو ئے تو اس میں پاکستان کی آج سے مختلف پو زیشن ہو تی تھی اور امریکہ بھی
ان کمزوریوں کو پرکھنا جانتا تھا۔
آج امریکہ بدلے ہو ئے حالات میں مذاکر ات کی میز پرآیا ہے۔پہلے کی طر ح
پاکستان کسی کمزور پو زیشن میں نہیں چنا نچہ امریکہ سی پیک کے بارے میں
پاکستان کو کوئی سبق نہیں پڑھا سکتا کیونکہ اس میں صرف پاکستان کا مفاد
نہیں بلکہ رو س اور چین کا بھی براہ راست مفا د شامل ہے چنانچہ کوئی ایک طر
فہ دباو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ امریکیو ں کے پاکستان میں قدم ہمیشہ سبز ہی
ثابت ہو ئے ہیں۔ اس مر تبہ یہ اس رنگ میں نظر نہیں آرہے کیونکہ چین اور روس
کے درمیا ن جو کشید گی تھی وہ اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
اب دوستی کے مضبوط ہا تھ دونو ں طاقتو ں نے تھا م لئے ہیں چنانچہ مغرب کا
یہ خواب بھی کھوٹا کردیا ہے کہ آئند ہ تیسری عالمی جنگ ایشیا میں لڑی
جائیگی۔ اب چین اور روس کی دوستی امریکی دشمنی کی عکا سی کر تی ہے۔ ما سکو
اوربیجنگ کی دوستی نا قابل تغیر نظر آرہی ہے۔ بھارت کو اْس وقت خوشی ہو ئی
تھی جب امریکہ نے پاکستان کو دہشتگردی کا ذمہ دار ٹھہریا تھا مگر یہ کا وش
پاکستان کی سیاسی قیا دت نے جس انداز سے ناکام بنادی ہے وہ ان کی سوجھ بو
جھ کی عمدہ دلیل ہے۔
یہ بحث عام ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف جو ایو ب خان کے دور کے
دبنگ اپو زیشن لیڈر خواجہ صفدر کے صاحبزادے ہیں، انھو ں نے بھی سیا ست میں
دبنگ کر دار اپنا رکھا ہے۔ امریکہ میں بیٹھ کر ہی انھو ں نے کہا کہ پہلے
اپنے گھر کوصاف کرنا ہے جس پر حسرت پر ستوں نے دانت بھینچے کہ پاکستان کے
وزیر خارجہ نے اعتراف جر م کرلیا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ انھو ں نے کہا کہ
امریکہ یا افغانستان نشاند ہی کر ے پاکستان خود کارروائی کرے گا اور ہمر اہ
افغانستان کے نمائند وں کو کا رروائی کے دوران ساتھ رکھنے کو بھی تیا ر ہے
کہ وہ اپنی آنکھو ں سے مشاہد ہ بھی کر لیں۔
پاکستان واپسی پر ان کا جو اب بھی لا جو ا ب تھا کہ اگر ان کا بیا ن درست
نہیں توپھر نیشنل ایکشن پلان کیو ں بنایا گیا ، جس کا کوئی جواب کسی کے پا
س نہیں۔یہا ں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ مصیبت
ہمیشہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے رہی ہے۔ خانگی اسٹیبلشمنٹ گلے نہیں پڑی اور اب
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نمائند ے آرہے ہیں۔ دیکھیں کیا رنگ بکھر کر جا تے ہیں۔
|