آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے

یہ اگر چہ اس نوعیت کی پہلی نہیں بلکہ انیسویں قرارداد تھی جسے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے‘یونیسکو‘ کی جانب سے بیت المقدس کی حیثیت کے بارے میں پیش کی گئی اور اس کو دوتہائی اکثریت سے منظور کیا گیا اس میں عیاں کیا گیا کہ بیت المقدس فلسطین کا عرب مقدس شہر ہے۔ قبل ازیں پیش کی گئی اٹھارہ منظور شدہ قراردادوں میں اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قراردیا گیا تھا اور بیت المقدس میں مقدس مقامات پر مسلمانوں کے حق کو نہ صرف ثابت کیا گیا بلکہ انہیں مسلمانوں کی ملکیت قراردے کر عیاں کیا گیا کہ مسجد اقصٰی صرف مسلمانوں کا مقدس مقام ہے جس پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی آثار قدیمہ کے حکام کی طرف سے جاری کھدائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہر میں اسرائیلی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے عالمی مبصرین تعینات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔لیکن عالمی ادارے کی طرف سے جاری کیے گئے مظلوم مسلمانوں کے اس حق کو اسرائیل نے نہ صرف رد کیا بلکہ ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا اور فلسطینیوں کو ہر طرح کے حقوق سے محروم کرنے کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدت اور ڈھٹائی سے جاری وساری رکھا اور اس بین الاقوامی ادارے کواس جرم پر سزا دینے کیلئے پلاننگ شروع کرکے اُس کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا ناطقہ بند کرنے کا عملی سلسلہ شروع کردیا ۔

اسرئیل کو ضرب لگے اورامریکہ کو تکلیف نہ ہو یہ ممکن نہیں دنیا تو آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ’’امریکہ اسرائیل کا باپ ہے یا اسرائیل امریکہ کا باپ ہے ‘‘ اور اسی کرب میں مبتلا اسرائیل کے ساتھ انتقام کی آگ کو بڑھکانے کیلئے دنیا میں انصاف اور حقوق انسانی کا علمبردار امریکہ آگے بڑھااور اُس نے یونیسکو کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ۔پہلے اسرائیل نے یونسیکوکی سالانہ امداد روکی اور پھر امریکہ نے اور اب تو امریکہ نے بے شرمی ،اور قانون شکنی کی انتہا کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی کے بعد یونسیکو کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیاہے ۔ حالانکہ یہ وہ آئینہ ہے جسے امریکہ بہادر نے خود ہی بنایا اور اسے ہمیشہ اپنے مقاصد میں ویلفیئر کے نام پر استعمال کرتا رہا ہے اور اگر ایک آدھ دفعہ کوئی کاروائی اس کے خلاف ہوجائے تو وہ آپے سے باہر کیوں ہوجاتا ہے ۔

کیا اس خبر کے بعد عالمی ادارہ اسرائیل کے ظلم کا شریک کار امریکہ کے خلاف بھی کوئی قرار داد لائے گا ۔میرے خیال میں یہ بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں اگر عرب طاقتیں ،رشیا،چائنہ اور دیگر دنیا ملکر ایسا کارنامہ سر انجام دے ڈالیں تو یہ دنیا کے مظلوم انسانوں پر اُن کا احسان ہوگاکیونکہ اسرائیل کی مخالفت کی پاداش میں سزا کے طور پر امریکانے یونیسکو کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیا ہے ،امریکا نے اپنے اتحادی اسرائیل کے حمایت میں اقوام متحدہ کے تحت پیرس میں قائم تعلیمی ،سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو ) کو بے سہار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکا یونیسکو کو اسرائیل مخالف گردانتا ہے اور ان حالیہ برسوں کے دوران میں صہیونی ریاست کے خلاف متعدد قرار دادیں منظور کرچکا ہے پھر اس سے سب سے بڑا ’’ جرم‘‘ یہ سرزد ہوا تھا کہ ا س نے 2011ء میں امریکا اور اسرائیل کی سخت مخالفت کے باوجود فلسطین کی مکمل رکنیت کی منظوری دی تھی۔یونیسکو کے سربراہ نے کہا ہے کہ ادارے کو امریکا کی جانب سے سرکاری طور پر مطلع کردیا گیا ہے کہ وہ تنظیم کو خیربار کہہ رہا ہے۔ان کے بہ قول امریکا کا یہ فیصلہ ’’اقوام متحدہ کے خاندان‘‘ اور ’’کثرتیت‘‘ کے لیے نقصان دہ ہے۔واضح رہے کہ امریکا نے بھی2011ء میں فلسطین کی رکنیت کی منظوری کے بعد یونیسکو کو رقوم دینے کا سلسلہ بند کردیا تھا۔دو امریکی عہدے داروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یونیسکو سے اپنے ملک کے انخلاء کی تصدیق کی ہے ان کے مطابق امریکی حکام اور ٹرمپ کی انتظامیہ گذشتہ کئی مہینوں سے یونیسکو سے انخلاکے بارے میں غور کررہی تھی اور اس ضمن میں سال کے اختتام سے قبل فیصلے کا اعلان متوقع ہے۔یونیسکو میں متعیّن متعدد امریکی سفارت کاروں کو اسی موسم گرما میں یہ کہہ دیا گیا تھا کہ ان کی اسامیاں ختم کی جارہی ہیں اور وہ اپنی نئی ملازمتوں کا بندوبست کرلیں۔مزید برآں ٹرمپ انتظامیہ نے آیندہ مالی سال کے بجٹ میں یونیسکو کو دینے کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یونیسکو کو فنڈز کی فراہمی پر عاید پابندی برقرار رہے گی یادرہے کہ امریکا نے 1980ء کے عشرے میں بھی یونیسکو سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اور اس عالمی ادارے میں بد انتظامی کو اپنے اس فیصلے کی وجہ جواز بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔وہ 2003ء میں دوبارہ یونیسکو میں شامل ہوا تھا۔

یونیسکو کا دنیا بھر میں ثقافتی اور روایتی ورثے کے تحفظ میں نمایاں کردار رہا ہے۔ اس نے عالمی ورثہ پروگرام کے تحت تاریخی عمارات اور مقامات کو تحفظ مہیا کیا ہے اور انھیں معدوم یا تباہی سے دوچار ہونے سے بچایا ہے۔یہ ایجنسی دنیا کے غریب ممالک میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی کوشاں ہے۔میڈیا کی آزادی ،اطلاعات تک یکساں رسائی اورایسی دوسری سرگرمیوں میں بھی سرگرم عمل ہے۔لیکن یہاں اپنے بنائے ہوئے قوانین اور تیسری دنیا میں سختی سے اُن پر عمل کروانے کیلئے مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں کے استعمال میں معروف امریکہ بہادر بدمعاشی پر اُتر آیا ہے جس سے یونیسکو کا مستقبل سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے ۔اور امریکہ جیسا ملک ایک چھوٹے سے اسرائیل کے نقش قدم پر ہے کیوں وجہ کوئی بھی ہو جب بھی اسرائیل کوئی بات کرتا ہے تو امریکہ اُس کی حمایت میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے طور پر میدان میں اپنے حلیف سے پہلے نظر آتا ہے اور بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانہ کی طرح سر ڈھڑ کی بازی لگادیتا ہے آپ خود دیکھ لی جیئے کہ امریکہ سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم وزیر خارجہ کو حکم دیے چکے تھے کہ وہ اقوام متحدہ کو دی جانے والی ایک ملین ڈالر کی امداد روک دے۔اور یہ انہوں نے ’یونیسکو‘ کی قرارداد پر اپنے رد عمل میں کیا تھا اسرائیلی وزیر اعظم نے ’یو این‘ کے ذیلی دارے کی طرف سے بیت المقدس میں یہودیوں کے وجود کا انکار کرنے کو ایک اور گھٹیا حرکت قرار دیا تھاحالانکہ دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ عالمی سامراج نے آباد کیا تھا جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ یہودی تین ہزار سال سے القدس کے مالک و مختار ہیں شکرہے یہ نہیں کہدیا کہ قبل از آدم بھی یہودی یہاں آباد تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہود اور بیت المقدس کے باہمی روابط کو باطل قرار دینا کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔ میں نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ’یو این‘ کو دی گئی امداد واپس لے اور مزید رقوم جاری نہ کرے۔خیال رہے کہ اس عناد کی وجہ دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئی وہ ایک قرارداد تھی جس میں پرانے بیت المقدس میں اسرائیل کی تمام تر سرگرمیوں کو غیر آئینی اور باطل قرار دیا تھا۔ قرارداد میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بیت المقدس میں اسرائیلی کی جاری کھدائیوں کی روک تھام کے لیے عالمی معائنہ کار بیت المقدس بھیجنے احکامات تھے ۔ یونیسکو کے اس تاریخی فیصلے پر صہیونی حکومت سیخ پا ہے۔

’یونیسکو‘ کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کا نقشہ تبدیل کرنے کے لیے اسرائیل جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ باطل اور غیر قانونی ہے۔ اسرائیل کے تمام اقدامات کو ہر صورت میں بند ہونا چاہیے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یونیسکو کی ان قراردادوں پر چائنہ اور رشیا ملکر کیسے عمل در آمد کرواتے ہیں ۔اور دوسروں کیلئے واویلا کرنے والا عالمی ادارے کی بات کو کتنی حیثیت دیتا ہے ۔اگر ان قراردادوں پر عمل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ لیکن ایسا فی الحال بہت مشکل ہے مگر ایک بات ضرور ہے کہ ان قرار دادوں اور اقدامات سے امریکہ کا دوہرا معیار بے نقاب ہو ا اور دنیا کو رہبروں کے روپ میں رہزن کی شناخت ہوئی ۔اگر اسی طرح سعودی عرب اور پاکستان دوسرے ممالک کی حمایت اور پلاننگ سے عالمی اداروں میں کارکردگی کا مظاہر ہ کرتے رہے تو ایک دن ان شاء اللہ ایسا بھی آجائے گا جب ان پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا ۔چونکہ ’’من جد وجد ‘‘ جس نے کوشش کی وہی پائے گا۔

Hafeez Usmani
About the Author: Hafeez Usmani Read More Articles by Hafeez Usmani: 57 Articles with 40315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.