ٹرمپ:ناکام امریکی صدر

ان دنوں امریکی دانشوروں اورمبصروں کے درمیان'' ریاستی امورکی انجام دہی اورریاست کو طاقت عطا کرنے کیلئے صدر کے عہدے کی اہمیت"پر طویل بحث جاری ہے۔وہ گروہ جو کہتے ہیں کہ صدارت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، درست نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ امریکی آئین چیف ایگزیکٹو پر بہت سی پابندیاں لگاتا ہے۔ کانگریس امریکی صدر کو قانون سازی اور مالیاتی امور کے اختیارات نہیں دیتی۔ اس کے علاوہ بائیسویں ترمیم کسی شخص کودوسے زیادہ مرتبہ صدرکے منصب پر فائز ہونے کا اختیار بھی نہیں دیتی۔امریکی لچک داروفاقی طرزِ حکومت میں پچاس ریاستیں اپنے اپنے آئینی استحقاق اور وفاقی حکومت کی حدود کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ اگر ایگزیکٹو برانچ کا اضافہ بھی شامل کرلیں، جس میں ڈپارٹمنٹس، ایجنسیاں اور نیم خود مختار تنظیمیں اکثر صدر کے احکام نظر انداز کرتی ہیں۔ بسا اوقات حکم عدولی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ ان آئینی اور اداراتی حقائق کو یکجا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ صدرکے عہدے کی اہمیت نسبتا ًکم ہوچکی ہے۔

ٹرمپ کمزورصدارت کی ایک وجہ خودٹرمپ کا مخصوص کردار ہے اور دوسرے ان کے اہم معاونین مثلاً وزیر دفاع جیمز میٹس، قومی سلامتی کے مشیر، وزیر خارجہ، سی آئی اے ڈائریکٹر، چیئرمین آف جوائنٹ چیفس اور اقوام متحدہ میں سفیر کی کارکردگی۔ بارہا سناگیا کہ ان افسران کی مہارت اور تجربہ تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ٹرمپ کی کوتاہیوں سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کردے گالیکن اس کے برعکس خودامریکی وزیرخارجہ ٹلرسن نے ٹرمپ کو بے وقوف قراردے دیاہے جس کے بعدافواہ گرم ہے کہ ان سے یہ عہدہ واپس لے لیا جائے گا۔تصویر کا دوسرا رخ، بہت سے واقعات یاد دلاتے ہیں کہ صدر کاعہدہ بہت ضروری ہے۔شمالی کوریاکے تنازع اورامریکی ریاست ورجینیا میں نسلی فسادات کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے مواقع پر امریکیوں کو احساس ہوا کہ ڈپارٹمنٹس ایک طرف، ہمیں حقیقی قیادت کی ضرورت ہے لیکن ٹرمپ دونوں مواقع پر ناکام ثابت ہوئے۔

شمالی کوریاکا طویل عرصے سلگنے والا بحران اس وقت دھماکہ خیزہوگیا،جب پیانگ یانگ نے بین البراعظمی میزائل کا تازہ ترین تجربہ کیا۔ اس دوران یہ خبر بھی آئی کہ شمالی کوریانے چھوٹے جوہری ہتھیاربنانے کی صلاحیت بھی حاصل کرلی ہے۔ میزائل میں نصب کرنے کیلئے چھوٹے حجم کاجوہری ہتھیار درکارہوتا ہے۔ ٹرمپ کابھڑکیلا ٹوئیٹ شمالی کوریا کے اشتعال انگیزپروپیگنڈے کے مقابلے میں میڈیا کی زینت توبن گیالیکن بحران کے موقع پرٹرمپ کسی طورامریکی قیادت کرنے والے کمانڈر اِن چیف دکھائی نہ دیے۔ان کے پاس شمالی کوریا کے حوالے سے کوئی منصوبہ یا حکمت عملی نہ تھی، جسے نافذ کرنے کی وہ اپنی حکومت کو ہدایت کرتے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران انتظامیہ کی نیشنل سیکیورٹی ٹیم نے پیانگ یانگ سے نمٹنے کیلئےخاموشی سے ایک حکمت عملی وضع کی ہے جس میں معمول کے مطابق معاشی اور فوجی دباؤ کا ادغام اور بحران کے حل کی سفارتی کوششوں کی طرف میلان دکھائی دیتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے ایک مضمون میں میٹس اورٹلرسن نے اس منصوبے کے خد وخال بیان کیے مگر اس حکمت عملی کی تشریح اور نفاذ کیلئے اپنا صدارتی عہدہ استعمال کرنے کی بجائے ٹرمپ جوشیلے نوجوانوں کی طرح سینہ تان کر نعرے بازی کرتے دکھائی دیے۔ اس کھلنڈرے پن نے میٹس،میک ماسٹر،پومپو،ڈنفورڈاورٹلرسن کی تمام اچھی کوششوں پرپانی پھیردیااوروائٹ ہاوس میں کوئی عہدہ رکھے بغیرٹلرسن پر تنقید کرنے والے سبستین گورکانے مزیدابہام پیداکردیا۔

ٹرمپ کی بڑھک دار بیان بازی عالمی سامعین کومتاثرکرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ان کے سامنے شمالی کوریا کوایک طاقتورپیغام بھیجنے کاچیلنج اور چین کی بھی سرزنش کرناتھی کہ وہ پیانگ یانگ کوسہارادینے اورعالمی برادری کے ساتھ چلنے کا دہرا کھیل کھیلنے سے گریزکرے،وہ ایساپیغام ہوناچاہیے تھاکہ یہ دونوں ریاستیں مشتعل بھی نہ ہوں۔ میٹس،میک ماسٹر،پومپو،ڈنفورڈاورٹلرسن نے اپناکردارمہارت سے اداکرتے ہوئے مناسب پیغامات پہنچائے لیکن صدرکے میگا فون نے ان کی کاوشوں پرپانی پھیردیا۔ ٹرمپ کی بے کاربیان بازی کے بعد شمالی کوریا کو مزید شہ مل گئی، چین پرسکون ہوکر ایک طرف ہوگیا مگر دوسری طرف جاپان اور جنوبی کوریا کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ صدر کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ پالیسی سازی کیلئے ٹوئٹر کے بجائے سچویشن روم کا رخ کرے۔

ورجینیامیں نسلی فساد نے ٹرمپ کی کمزوری مزیدآشکارکردی۔ امریکا کو ایک صدر کی ضرورت تھی،جومکمل اخلاقی بنیادوں پرنسل پرستی اورسفید فاموں کی بالادستی کے تصورکی مذمت کرتے ہوئے قومی ہم آہنگی اوراتحادکی بات کرتا۔سنجیدگی کی روائت کااعادہ ہوتالیکن وہ حساب برابرکرنے کے چکرمیں پڑ گئے اورانہوں نے ان سفید فام نسل پرستوں کی کسی طور مذمت نہ کی جنہوں نے یہ بحران شروع کیاتھا۔ یہ وہی سفید فام نسل پرست ہیں جنہیں ٹرمپ اپنی سیاسی بنیاد قراردیتے رہے ہیں۔ ان کی طرف سے تاخیر سے آنے والے غیرواضح پیغام نے قوم میں تقسیم کی لکیرکومزید گہرا کردیابعدمیں سہ پہرکوسامنے آنے والابیان بہترتھا لیکن اس میں بھی تذبذب کاتاثر موجودتھااورپھرقومی رویے پراثراندازہونے کیلئے اس نے بہت دیرکردی تھی۔

ورجینیا کے واقعات کی ذمہ داری بہت حدتک ان لوگوں پربھی عائدہوتی ہے جو اب تک ٹرمپ کی پالیسیوں اورمجموعی سوچ کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر فرض کریں چارلوٹس ولے میں سفید فام نسل پرستوں کے بجائے مذہبی انتہا پسندوں کا مارچ ہوتاجو عقیدے کی بنیادپرجنگ کے نعرے لگارہے ہوتے یاامریکا میں شریعت نافذ کرنے کامطالبہ کررہے ہوتے اوران میں سے ایک جنگجوتیزرفتار کارہجوم پرچڑھادیتاجس میں کچھ ہلاکتیں ہوجاتیں اوربہت سے افراد زخمی ہو جاتے توکیاپھربھی امریکی صدرویساہی بیان جاری کرتے ہوئے کہتے کہ ہاں، اس واقعے کے کئی ایک پہلو ہوسکتے ہیں؟نیزیہ کہ یہ کسی کا نفسیاتی مسئلہ ہے، دہشتگردی نہیں؟
اگروہ ایسی کوئی بھی بات کرتے تویقیناًآپ کواس پرغصہ آتااورآپ مشتعل ہونے میں حق بجانب ہوتے۔اوباما کی ایک ناکامی یہ تھی کہ انہوں نے دہشتگردی کو مذہب سے منسلک کرنے سے انکارکردیاتھا۔ٹرمپ کی ناکامی یہ ہے کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے سفید فام نسل پرستوں کی وارداتوں کوتشدد کے زمرے میں رکھنے کیلئے تیارنہیں اورایسا کرتے ہوئے وہ ان کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ورجینیا کے نسلی فساد نے امریکی قوم کو باورکرادیا کہ وائٹ ہاوس میں ایک باصلاحیت اورباہوش صدرکی ضرورت ہے۔ اب یہ امریکی قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کاصدرتمام آزمائشوں میں ناکام ہوگیا۔ٹرمپ نے کسی بھی طورایک امریکی صدرکے شایان شان رویہ نہ دکھایا۔ میری دعاہے کہ وہ جلدازجلداپناطرزعمل تبدیل کرتے ہوئے اپنے عہدے کے وقارکالحاظ کریں۔اگر ایسانہیں ہوتاتویہ عہدہ مسلسل چارسال تک ایک بااصول اورموثرلیڈرسے نہ صرف محروم رہے گابلکہ عالمی امن کوبھی شدید خطرات لاحق رہیں گے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.