’’جئے ہو شاہ جی جئے ہوکہ جو کوئی آپ کی جانب انگلی اٹھا
ئے اس کا قلم چھین لیا جائے اس پر ۱۰۰ کروڈ کا مقدمہ ٹھونک دیا جائےجئے ہو‘‘
۔ یہ مکالمہ اگر کسی فلم میں آئے تو اس کو سپر ہٹ ہونے سے کوئی روک نہیں
سکتا اس لیے کہ لفظ جئے میں بڑی تاثیر ہے۔ ۲۰۰۸ میں سلم ڈاگ ملینیر کے
ہدایتکار ڈینی بوئل نے اے آررحمٰن سے اپنی فلم کے پس منظر موسیقی کی خاطر
رابطہ کیا تو رحمٰن نے خوش ہوکر اسے ’جئے ہو‘ نامی نغمہ بونس میں دے دیا ۔
اس نغمہ کو نہ صرف آسکر اکیڈمی اعزاز ملابلکہ یہ موسیقی کے نامور عالمی
گریمی ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا۔ کانگریس نے ۲۰۰۹ کے الیکشن میں اسے اپنا
ترانہ بنایا اور منموہن پھر ایک بار کامیاب ہوگئے۔
۲۰۱۴ میں سلمان خان نے جئے ہو فلم بنائی اور اس کی تشہیر کے لیے مودی جی
کے پاس پہنچے تو وہ بھی کامیاب ہوکر وزیراعظم بن گئے۔ فی الحال امیت شاہ کے
فرزند جئے شاہ کی جئے جئے کار ہورہی ہے اس لیے کہ ۵۰ لاکھ سے ۸۰ کروڈ تک
پہنچ جانے کا چمتکار نہ سلمان خان کرسکتے ہیں اور نہ اے آررحمٰن کے بس کا
روگ ہے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جئے ہو کا ٹیکس معاف کرنے کے لیے سلمان خان نے
وزیراعلیٰ نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور اب اپنی جان چھڑانے کے لیے جئے
شاہ مودی انکل کو مکھن لگا رہے ہوں گے۔
جئے ہو ایک فوجی اور سیاستداں کے درمیان کشمکش کی کہانی تھی ایک طرف قومی
مفاد اور دوسری جانب سیاسی جبر و فساد اتفاق سے سنگھ پریوار بھی فی الحال
جئے شاہ کے معاملے میں اسی ےذبذب کا شکار ہےاور اس کا دفاع کرنے سے قاصر
ہے۔اس لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نائب سرسنگھ چالک دتا تریہ ہوسبولے
کوکہناپڑا کہ اگربادی النظر میں کوئی ثبوت ہوتو جئے شاہ کے کاروبار کی
تفتیش ہونی چاہیے ۔ روہنی سنگھ نے حکومتی ریکارڈ سے اس قدر واضح شواہد پیش
کردیئے ہیں اس کے باوجود آر ایس ایس والوں کو وہ نظر نہیں آتے اس لیے ان
کی نزدیک کی نظر کمزور ہے۔ انہیں اپنا تار تار دامن دکھائی نہیں دیتا
دوسروں کے عیوب خوب نظر آتے ہیں اس لیے اگر مگر کا لاحقہ لگا کر کہا کہ جب
بدعنوانی سے متعلق الزامات لگتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کی جانچ ہو۔اس لیے
کہ جانچ کی بنیاد پر ہی مناسب کارروائی ممکن ہے۔
اس کے برعکس سنگھ پریوار سے آکر وزارت داخلہ کی کمان سنبھالنے والے راج
ناتھ سنگھ نے بغیر کسی تحقیق کےجئے شاہ پر مبینہ بدعنوانی کے الزامات کو بے
بنیاد قراردے دیا اور کہا اس طرح کےالزامات پہلے بھی لگائے گئے ہیں اس لیے
جانچ کی ضرورت نہیں ہے۔ راجناتھ کی دونوں باتیں غلط ہیں۔ جئے شاہ سے متعلق
اس طرح کا الزام پہلی بار منظر عام پر آیا ہے نیز اس بنیاد پر کہ اس سے
قبل الزام لگائے گئے ہوں تو اس کی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے جانچ کا مطالبہ رد
کردینا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔
ایک نقصان میں جانے والی کمپنی اچانک اقتدار کے ملتے ہی راتوں رات ۱۶۰۰۰گنا
ترقی کرجائے۔ اس کو سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بلاتکلف کروڈوں کا قرض
دینے لگ جائیں ۔ قرض بھی ایسا کہ جس کا اندراج لینےوالے کے بہی کھاتے میں
تو ہو لیکن دینے والے کا بہی کھاتہ اس کے ذکر سے خالی ہو۔ سب سے بڑی بات یہ
کہ ایسے زبردست عروج کے بعد اچانک وہ کمپنی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے کیا یہ
سب شکوک و شبہات کو جنم نہیں دیتا؟ کیا ان انکشافات کے اندر ہوسابلے اور
راجناتھ کو بدعنوانی کی بو نہیں آتی ؟ کیاان کی ناک پر فالج کا اثر ہوگیا
ہے اور وہ قوت شامہ سے محروم ہوگئے ہیں؟
بی جے پی کے اندر گھبراہٹ کا یہ عالم ہے اجئے شاہ کی بدعنوانی کا راز کو
فاش کرنے والی ویب سائٹ دی وائر اورروہنی سنگھ پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے
جارہے ہیں جس نے رابرٹ وادرہ کی نقاب کشائی کی تھی اور اس وقت انہیں لوگوں
نے اسے سر پر اٹھالیا تھا۔ کیا یہ دیانتداری ہے کہ اگر الزامات مخالفین پر
لگیں تو ان کو خوب اچھالا جائے اوربات اپنے پر آئے تو شتر مرغ کی مانند سر
کو ریت میں چھپا کر دھمکیاں دی جائیں ؟ کیا یہ صریح منافقت نہیں ہے کہ لالو
کی بدعنوانیوں پر تاریخ پہ تاریخ اور نتیش کمار و سشیل مودی کے سرجن
گھوٹالے پر خاموشی اختیار کی جائے؟ راجناتھ سنگھ اور دیگر وزراء نے جئے شاہ
کی حمایت کرکے اپنا اور سرکار کا وقار پامال کیا ہے۔ وزیر اعظم نے بڑے تاو
سے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں بہت جلد سیاستدانوں پر الزام لگ جاتاہے کہ کسی
بیٹے نے اتنا کمایا اور کسی داماد نے اتنا بنایا لیکن اب امیت شاہ کے بیٹے
پر الزام لگا تو ’’ نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ کی صدا لگانے والا
چوکیدارنہ جانے کہاں سورہا ہے؟
بھیم کے ہاتھوں دریودھن کی موت سے بظاہر مہابھارت کا خاتمہ ہوگیا لیکن
مہابھارت کے مفسرین اس کی دو وجوہات بتاتے ہیں ۔ ایک وجہ تو یہ ہے دریودھن
کےبرے اعمال اس کے قتل کا اصل سبب تھیں۔ دریودھن نے دروپدی کے ساتھ بھری
محفل میں جو سلوک کیا تھا وہ بالآخر اس کی عبرتناک موت کا سبب بنا ۔دوسری
وجہ یہ ہے کہ دھرت راشٹر کا پوتر موہ(بیٹے سے اندھی محبت)اس کے بیٹے کو لے
ڈوبا۔ امیت شاہ کے بیٹے اجئے شاہ کی تباہی پر بھی یہ دونوں وجوہات صادق
آتی ہیں ۔ ایک تو اس کے اپنے کرتوت اور دوسرے اپنے والد کےبیجا لاڈپیار نے
دریودھن کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا ۔ دھرت راشٹر کی سی دانشمندی امیت شاہ
میں ہوتی تووہ جئے شاہ کے معاملے میں یہ کہہ کر پلہّ جھاڑ لیتے کہ مجھے
قومی مسائل سے فرصت ہی نہیں ہے کہ دھندہ بیوپار کے لیے وقت نکالوں ۔ بیٹا
تجارت کرتا ہے اگر اس نے کوئی غلطی کی ہوگی تو قانون سزا دے گا ورنہ رہا
کردے گا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ جس عدلیہ نے سی بی آئی کے ذریعہ دائر کردہ
تیس ہزار صفحات پر مشتمل فرد جرم کے باوجود امیت شاہ کو قتل کے مقدمہ سے
بری کردیا اس کی کیا مجال کے اجئے کی جانب نظر اٹھا کر دیکھے ۔ اوپر سے
بھکت کہتے لوجی ہمارے رہنما نے اپنے بیٹے کو بھی نہیں بچایا۔
امیت شاہ اپنی کم ظرفی کے سبب یہ نہ کرسکے ۔ انڈیا ٹی وی کے پروگرام چناو
منچ میں وہ بلاوجہ لنگوٹ باندھ کر اپنے بیٹے کے دفاع کی خاطر دنگل میں کود
پڑے اور ناک آوٹ ہوکر لوٹے۔اول تو ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کرکےانہوں نے بیٹے
پر لگائے جانے والے سارے الزامات کو اپنے سر اوڑھ لیا۔ اس کے بعد دفاع اس
طرح کیا کہ ہم نے حکومت سے ایک انچ زمین نہیں لی ۔ یہ الزام بھی کسی نے
اجئے پر نہیں لگایا۔ شاہ جی ایک لمبی فہرست بیان کی جس ان کاموں کی تفصیلات
تھی کہ اجئے نے کیاکیا نہیں کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس نے کون کون سے
کالے کارنامہ کیے ؟ شاہ کی ایک دلیل یہ تھی ہم نے حکومت کے ساتھ ایک پیسے
کا کاروبار نہیں کیا؟ اس طرح گویا امیت جی نے یہ کہہ دیا کہ بدعنوانی صرف
حکومت سے کیے جانے والے سودوں میں ہوتی ہے نجی کاروبار میں اس کا کوئی وجود
نہیں ہے؟اس طرح تو وجئے ملیا کو کلین چِٹ مل جائیگی اس نے بھی سرکار کے
ساتھ تجارت نہیں کی؟ تو ان کی حکومت نہا دھو کر ملیا کے پیچھے کیوں پڑی
ہوئی ہے اور اس کی کوٹھیوں کی نیلامی کیوں کروارہی ہے؟
شاہ جی سے جب پوچھا گیا کہ ان کے بیٹے کو حکومتی ادارے نے قرض دیا تو کہنے
لگے وہ قرض نہیں محفوظ کریڈٹ لائن تھی جسے سود سمیت چکا دیاگیا۔ سوال یہ ہے
کہ اگر وہ قرض نہیں تھا تو اس پر سود کیوں لگا؟ عوام سود اور کریڈٹ لائن کا
فرق نہیں جانتے؟ لیکن یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ آخر جو کریڈٹ لائن اجئے
شاہ کی خسارے والی کمپنی کوبہ آسانی مل گئی وہ ان کی منافع بخش ادارے کو
بھی کیوں نہیں ملتی؟ کیا یہ کریڈٹ لائن جئے کی کمپنی کو اس وقت بھی مل سکتی
تھی جب امیت شاہ گجرات سے تڑی پار ہوکر دہلی فرار ہو گئے تھے ؟ یہ کیوں ہوا
کہ ان کے پارٹی صدر بن جانے کے بعد ہی ان کی کمپنی پر قرضوں اور کریڈٹ
لائنس کی برسات ہونے لگی ؟ سب کا ساتھ سب کا وکاس کرنے والے بتائیں کہ کیا
ہندوستان میں ایک عام آدمی مثلاً سومیت پٹیل کا بیٹے وجئے پٹیل کو بھی ا س
طرح کی کریڈٹ لائن مل سکتی ہے جیسی کہ جئے شاہ کو ملی تھی ۔ ویسے وائر نے
اپنی ویب سائٹ پرجئے شاہ کے بہی کھاتے کا وہ صفحہ شائع کردیا جس میں غیر
محفوظ کریڈٹ لائن کا اندراج بی جے پی صدر کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔
امیت شاہ نے بڑے طمطراق سے یہ بتایا کہ لوگ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اس کمپنی
نے ڈیڑھ کروڈ کا خسارہ کیا؟ یہ بھی جھوٹ ہے اس لیے کہ وائر نے جو تفصیلات
شائع کی تھیں اس میں کمپنی کے خسارے اور بند ہوجانے کا ذکر موجود تھا۔ ویسے
ملک کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ ٹیکس چوری کے لیے اچھے خاصے کاروبار کو کاغذ
پر دیوالیہ کردیا جاتا ہے۔ اس لیے خسارے کے دکھاوے میں جو گھپلاہواہے اس کی
تفتیش لازمی ہے۔ شاہ جی اسی سے بچنے کے لیے یہ کہہ رہے ہیں کہ بدعنوانی کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کو خوشنما بناکر پیش
کرتی ہے اس کی ایک مثال امیت شاہ کا یہ احمقانہ دعویٰ ہے کہ کانگریس پر اس
قدر گھپلوں کے الزام لگے لیکن اس نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کی
جرأت نہیں کی۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ قصور وار تھی اور امیت شاہ نے۱۰۰
کروڈ دعویٰ ٹھونک کر ثابت کردیا کہ وہ بے قصور ہیں۔ اس طرح کی منطق پر تو
کوئی اندھا بھکت ہی جئے جئے شاہ کرسکتا ہے ۔ شاہ جی نہیں جانتے کہ عدالت سے
رجوع کرنے اوراس مقدمہ جیت جانے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے؟ ابھی تو اس مقدمہ
کی دو تاریخیں پڑی ہیں ۔ عدالتی کارروائی ختم تو دور باقائدہ شروع بھی نہیں
ہوئی ہے۔کانگریس بدعنوان ضرور تھی لیکن سنگھ پریوار کی طرح بزدل نہیں تھی
اس لیے اس نے اس پھوہڑ طریقہ پر آواز کو دبانے کے بجائے تفتیش کا ڈرامہ
شروع کردیا۔ وہ ایسا جال تھا کہ بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس
میں سے نکل کر کانگریسیوں کو سزا نہیں دے سکی ۔ منموہن کے معاملے میں اسے
منہ کی کھانی پڑی اور چدمبرم کے بیٹے کا بال بیکا نہیں ہوسکا ۔
امیت شاہ کے مجرمانہ ماضی سے جو لوگ واقف ہیں ان کے نزدیک اس مقدمہ کاواحد
مقصد ڈرانا اور دھمکاناہے تاکہ آزاد میڈیا حکومت کی بدعنوانیوں کا راز فاش
کرنے کی ہمت نہ کرے اور تفتیش کے مطالبے کی خاطر دبا د نہ بنا ئے۔یہ دعویٰ
جب گجرات ہائی کورٹ میں پیش ہوا تو امیت شاہ کا وکیل ای ایس راجو عدالت میں
حاضر نہ ہوسکا۔ اس طرح ۱۶ اکتوبر اور پھرآگے ۲۶ تک یہ معاملہ ٹل گیا ہے۔
کاش کے ۲۰۱۹ میں بی جے پی کی حکومت ختم ہوجانے تک یہ ٹال مٹول جاری رہے
تاکہ عدالت بغیر دباو کےفیصلہ کرسکے۔ یشونت سنہا کے مطابق جئے شاہ کی
بدعنوانی کے سامنے آجانے کے بعداس نے بدعنوانی کی مخالفت کا اخلاقی حق سے
بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہے ۔اس کے بعد جب بھی مودی جی بدعنوانی کے خلاف جب بھی
نعرہ لگائیں گے عوام کے ذہنوں میں جئے جئے شاہ کا نعرہ گونجے گا ۔ اپنے
بیٹے دریودھن کے زخموں بھرے جسم پر ہاتھ پھیر کر دھرت راشٹر نے کہاتھا کہ
اگر میں آنکھ والا ہوتا توبینائی کے سلب ہوجانے کی دعا کرتا۔ امیت شاہ کی
وجہ سے ایک دن مودی جی بھی یہی کہیں گے۔اب وہ دن کب آئیگا یہ کوئی نہیں
جانتا؟
شاہ جی کی صحبت نے مودی جی کو پکا بنیا بنادیا ہے۔ اڈوانی جی نے مندر کی
سیاست شروع کی اور جئے شری رام کا نعرہ لگایا۔ نرسمھا راو نے ان کا نام
حوالہ ڈائری میں ڈھونڈ کر بدعنوانی کا الزام لگا دیا بالآکر انہیں
مستعفیہونا پڑا۔ اس کے بعد اٹل جی کی سرکار بنی تو انہوں نے بنگارو لکشمن
کو پارٹی کا صدربنایا۔بنگارو کو تہلکہ والوں نے نئے سال کی پارٹی کی رشوت
دے کر پھنسایا اور ویڈیو بنالی مجبوراً بنگارو کوبھی استعفیٰ دینا پڑا اور
بعد میں جیل بھی گئے۔ شاہ جی صد ر بنے تو انہوں مندر کو چھوڑ کر ٹمپل انٹر
پرائز نام کی دوکان کھول لی اور اپنے بیٹے جئے شاہ کو اس کا پروہت بنادیا ۔
اس دوکان میں جئے شری رام کے بجائے نامو کا سکہ ّ بدعنوانی کے سہارے دن
دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ مندر کی سیاست کو شاہ جی اور مودی جی نے مل
کر ٹمپل کی تجارت میں بدل دیا اور سنگھ والے نیکر دھاری دیکھتے رہ گئے ۔ اب
ان کے لیے جئے ہوشاہ جی جئے ہو مودی جی کا بھجن کیرتن کرنے کے سوا کوئی
چارۂ کار نہیں رہا اس لیے دن رات نمو نمو کرتے جپتے رہتے ہیں۔کوئی یہ کہنے
کی جرأت نہیں کرتا اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے امیت شاہ بھی اڈوانی
اور بنگارو کی طرح مستعفی ہوجائیں۔ یہ سنگھ پریوار کے آدرش اور سنسکار کہ
جن کا خوب چرچا کیا جاتا ہے۔ |