2018 ء کے انتخابات۔ بنوں میں کانٹے کے مقابلے متوقع

بنوں کی سیاست میں پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے ایک امیدوار کے پاس چار عوامل کا ہونا ضروری ہے۔پہلا یہ کہ ایک امیدوار کو متعلقہ حلقہ کے عوام کے بیچ کتنی پذیرائی یا مقبولیت مل رہی ہے۔دوسرا یہ کہ وہ اپنے دیگر حریفوں کے مقابلہ میں سرمایہ کے لحاظ سے کتنا طاقتور ہے۔تیسرا یہ کہ اُن کا شخصی ووٹ کتنا ہے۔جو ماضی کے انتخابات کے ساتھ اُن کا موازنہ کیا جاتا ہے۔وہ جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتا ہے اُن کے شخصی ووٹ بینک پر اثر نہیں پڑتا۔چوتھا پیمانہ اُن کی بدمعاشی ، غنڈہ گردی اور جعلی ووٹوں سے صندوق بھروانے کی اہلیت کو جانچا جاتا ہے۔

بنوں میں چار صوبائی حلقے (پی کے ۔۷۰، ۷۱، ۷۲، ۷۳) اور قومی اسمبلی کی حلقہ این اے 26 کے لیے کچھ پارٹیوں نے ٹکٹوں کے لیے ناموں کو فائنل کر لیے ہیں۔جبکہ بعض حلقوں کے لیے امیدواروں کے بیچ کھینچا تانی اور دوڑ دھوپ شروع ہے۔

بنوں کا پہلا صوبائی حلقہ پی کے ۷۰ کا ہے۔جہاں جے یو آئی کے امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کے فرزندعرفان درانی نے 2008ء میں کامیابی حاصل کی تھی۔۱۱مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اکرم خان درانی نے 25183 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی۔مسلم لیگ (ن) کے ملک ناصر خان 15856 ووٹ لیکر دوسرے نمبرپر رہے۔بعد میں این اے 26 پر کامیابی کے بعد اکرم خان درانی نے اس سیٹ کو چھوڑا اور 22اگست 2013ء کو اسی حلقہ میں ضمنی انتخابات ہوئے۔جس میں جے یو آئی کے اعظم خا ن درانی نے24291 ووٹ لیکر اس جیت کو برقرار رکھا۔لیکن ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی طرف سے ملک ناصر خان کے بھتیجے ملک عدنان خان نے جے یو آئی کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے19756 ووٹ حاصل کیے۔جو کہ درانی خاندان کے لیے مستقبل میں اس حلقہ سے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔الیکشن 2018ء کے لیے جے یو آئی کی طرف سے اکرم خان درانی امیدوار ہونگے۔پی ٹی آئی کی جانب سے ملک عدنان خان ہی متوقع مضبوط امیدوار دکھائی دے رہا ہے۔جبکہ اس حلقہ سے پی ٹی آئی بنوں کے صدر مطیع اﷲ خان بھی ٹکٹ کے امیدوار ہے۔یوں اس حلقہ میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک سخت مقابلہ کی توقع کی جا رہی ہے۔دوسرا انتہائی کانٹے کا مقابلہ حلقہ پی کے ۷۱ میں متوقع ہے۔ اس حلقہ سے 2008ء میں شیر اعظم خان وزیر نے کا میابی سمیٹی تھی۔جہاں اس نے سارے پارٹیوں کو ناک آؤٹ کر دیا تھا۔اس حلقہ کے لیے شیراعظم خان کی خدمات کافی زیادہ ہے۔اور حلقہ کے عوام میں اس کی اپنی مقبولیت اور ووٹ بینک زیادہ ہے۔2013ء کے انتخابات میں شیراعظم خان کے فرزند ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد18322ووٹ لیکر جیت گئے تھے۔اور سینیٹر باز محمد خان کے فرزند تیمور باز خان نے اس کو ٹف ٹائم دیا تھا۔2018 ء کے عام انتخابات کے لیے پی پی پی کی طرف سے بذاتِ خود شیراعظم خان وزیر نے ایک مرتبہ پھر انتخابی دنگل میں اُترنے کا فیصلہ کیا ہے۔جبکہ اس کے مقابل جے یو آئی کی طرف سے دو امیدواران میں سے ایک کا انتخاب کرنا باقی ہے۔پہلا امیدوار سابقہ رکن صوبائی اسمبلی قاری گل عظیم ہے۔جبکہ دوسرا امیدوار مولانا احمداﷲ حقانی ہے۔قاری گل عظیم کو اس مرتبہ پارٹی کے اندر کارکنان کی حمایت حاصل نہیں۔اور اس مرتبہ اس کو جے یو آئی کا ٹکٹ دینے سے پارٹی کا ووٹ دوسرے امیدوار کے حق میں جانے کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔مولانا احمداﷲ حقانی ایک پُرجوش ،جوان قیادت، اعلیٰ پائے کا خطیب اور ورکرز کے بیچ ہمہ وقت موجود رہنے کی وجہ سے یہ امکان پایا جاتا ہے۔کہ جے یو ٓئی کی طرف سے ٹکٹ ملنے کی صورت میں عام انتخابات میں حریفوں کے لیے ایک سخت جان حریف ثابت ہو گا۔

پی ٹی آئی کی طرف سے اسی حلقہ پر سابقہ چیف کنزرویٹرفارسٹ افسراﷲ خان وزیر اور ملک انور خان پارٹی ٹکٹ کے لیے مضبوط امیدواران سمجھے جاتے ہیں۔یہاں پی ٹی آئی کے لیے مثبت پوائنٹ یہ ہوگا۔کہ جس امیدوار کو بھی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ ملے۔باقی سارے امیدواران اس کو سپورٹ کرے۔عدم اتحاد کی صورت میں ناکامی کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔اے این پی کی طرف سے اس حلقہ کے لیے تیمور بازخان امیدوار ہونگے۔یہ بھی اپنی نظریاتی ووٹ کی بدولت ماضی کی طرح مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یوں پی کے ۷۱ میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

تیسرا صوبائی حلقہ پی کے ۷۲ کا ہے۔جہاں سے2013میں آزاد امیدوار ملک شاہ محمد خان نے 12741 اور اس کے مقابل حریف جے یو آئی کے حامد شاہ نے 12623 ووٹ لیکر کانٹے کا مقابلہ کیا تھا۔یہاں اس مرتبہ بھی سخت مقابلہ متوقع ہے بشرطیکہ شاہ محمد خان عدالتی کیس میں سرخروئی حاصل کرلیں۔یوں اس حلقہ میں بھی پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

پی کے ۷۳ کے لیے جے یو آئی کی طرف سے زاہد درانی کو ٹکٹ دینے کی اطلاع ہے۔پی ٹی آئی کی طرف سے تین ،چار امیدواران اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔جن میں پی ٹی آئی ڈسٹرکٹ ممبر جنید رشید، سابقہ تحصیل صدر اقبال جدون اور ظفر حیات کے نام شامل ہیں۔لیکن یہاں زاہد درانی کو ٹف ٹائم دینے والا واحد بندہ سابقہ ٹرانسپورٹ منسٹر عطاء اﷲ جان خان کے فرزند پختون یارخان ہے۔جس نے 2013 ء کا الیکشن پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔اور جے یو آئی کے ملک ریاض کے 16031 ووٹوں کے مقابلے میں 15404ووٹ حاصل کیے تھے۔ملک پختون یار کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دینے کی اطلاعات پارٹی کے اندر زبان زد عام ہے۔ اس صورت میں اس حلقہ پر پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

بنوں کا ایک قومی حلقہ این اے 26 کا ہے۔جہاں 2018ء کے الیکشن کے لیے اکرم خان درانی اور پی ٹی آئی کے ملک ناصر خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ہاں عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے بھی یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کہ باز محمد خان کے سینیٹ کی مدت پورا ہونے کی صورت میں کسی بھی صوبائی یا قومی حلقہ کیلئے میدان میں اتریں گے۔ اگر یہاں ماضی کی طرح دھاندلی اور ووٹوں کے صندوق جعلی ووٹوں سے بھرنے اور انتخابی عملہ کو یرغمال بنا کر مرضی کے نتائج تیا ر نہ ہو۔ تو انتہائی جاندار انتخابی مقابلے متوقع ہیں۔

Hafiz Abdul Raheem
About the Author: Hafiz Abdul Raheem Read More Articles by Hafiz Abdul Raheem: 33 Articles with 23172 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.