ایک منٹ بھائی آگے بھی پڑھ لیں
یہ گستاخانہ بیان یا تحریر میں نے پیر پگارا صاحب کے آج کے اخباری بیان اور
گزشتہ روز مختلف چینلز پر آن ائیر ہونے والے بیان سے نقل کی ہے جو آج کے
روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر شائع ہوا ہے جس میں حروں کے روھانی پیشوا اور
مسلم لیگ فنکنشل کے سربراہ بلکہ بہت ساری مسلم لیگوں کو جمع کر کے ایک
مستقبل کی مسلم لیگ بنانے والے پیر پگارا صاحب انکشافات کرتے پائے گئے
اپنے بیان میں مرحومین کے حوالے سے بیانات کے حصے کو تو چھوڑیں زندہ نواز
شریف صاحب کے لیے ان کا کہنا تھا “کہ نواز شریف اور قوم پرستوں کا مستقبل
تاریک ہے، قوم پرست صرف پیسہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حمید گل اور میں نے (میں نے نہیں بلکہ پیر پگارا صاحب نے)
مل کر نواز شریف کی دس سال تک تربیت کی۔ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ پاکستان
کو چلانا ہے تو ملاؤں کو ختم کرنا ہوگا اور انہیں وہیں بھیجنا ہوگا جہاں سے
لائے گئے (توبہ توبہ کتنی بے ہودہ سی بات ہے )
یاد رہے یہ حمید گل صاحب نواز شریف اور دوسرے سیاستدانوں کو سیاست کی تربیت
دینے والی وہی ہیں جنہوں نے آئی جے آئی بنائی اور اس کا کھل کر اعتراف کیا،
سیاستدانوں میں پیسے بانٹے چاہے وہ سیاستدان مطلقاً سیاسی ہوں یا نیم سیاسی
یعنی مذہبی جماعتوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے بھی اور ناصرف پیسے بانٹے بلکہ
پیسے بانٹنے کا اعتراف بھی کیا جس کا مقدمہ آزاد عدلیہ کے چیمپئنز کی
عدالتوں میں التوا کا شکار ہے کہ اتنے مقدس اور بھاری پتھر کو سب اٹھا کر
اور چوم کر پھر رکھ دیتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پیر پگارا کسی کو کوا کہہ دیتے ہیں اور کسی کو
دنبہ اور نا تو غلام ارباب رحیم سے اور نا ہی میر ظفر اللہ خان جمالی سے
ہوسکتا ہے کہ چوں بھی کرسکیں۔ اور تو اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے
حکمرانوں اور ان کے بھائیوں بھتیجوں یعنی شریف اینڈ کمپنی کے اتنے بڑے بڑے
لیڈران کے خلاف پیر صاحب آف پگارا اکثر انکشافات کرتے رہتے ہیں مگر کیا وجہ
ہے کہ نواز شریف یا دوسرے بڑے بڑے لیڈران سوائے آئیں بائیں کرنے کے کوئی
برابر کی ٹکر کا جواب نہیں دے پاتے ہوسکتا ہے نواز شریف صاحب آرمی چیف سے
١٠ سالہ معاہدے کی طرح کا کوئی بیس پچیس سال کا معاہدہ پیر پگارا سے بھی کر
چکے ہوں۔
باقی آج ملاؤں کے خلاف اتنی بڑی بات کہہ کر کہ اگر “پاکستان کو چلانا ہے تو
ملاؤں کو ختم کرنا ہوگا“ یہ بات اتنی بڑی اور اتنی افسوسناک ہے کہ میں بھی
ایسے بیان کی مذمت ہی کرسکتا ہوں کہ پاکستان کی سلامتی کو ملاؤں کے خاتمے
سے نتھی کردینا انتہائی سخت اور عجیب بات ہے۔
پاکستان کو چلانا ہو تو سیاست سے ملاؤں یا مذہبی لیڈران کا خاتمہ جیسا بیان
بھی انتہائی قابل اعتراض ہوتا مگر پاکستان چلانے کے لیے ملاؤں کو ختم کرنا
انتہائی نامناسب اور قابل اعتراض اور قابل گرفت بیان ہے۔
میں تو اپنے طور پر ایسے بیان کی کھل کر مذمت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں
کہ اس بیان کو دینے والے پیر پگارا صاحب اور دوسرے متعلقین ضرور اس معاملے
پر انسانی حقوق کی عدالتوں سے رجوع کریں گے کہ جس میں ملاؤں کو ختم کرنے
جیسے بیانات ببانگ دہل دیے جارہے ہیں۔
اور اگر اس معاملے پر بھی ہنسی مذاق یا ٹالم ٹولی والا کوئی بیان صف مخالف
سے آیا تو کیا عوام یہ سمجھنے پر مجبور نا ہونگے کہ پیر پگارا نے جو کہا اس
پر متعلقین صرف اپنی سیاسی دکان کو برقرار رکھنے کے لیے خاموش ہوگئے یا
ہلکا لے گئے۔
یاد رہے کہ اگر اس قسم کا بیان پیر پگارا کے علاوہ کسی سیاسی لیڈر کی طرف
سے آتا تو بھائی لوگ زمین و آسمان برابر کرچکے ہوتے اور میڈیا پر اب تک جنگ
شروع ہوچکی ہوتی۔ جس طرح الطاف حسین نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
اگر کرپشن ختم کرنے کے لیے فوج آگے بڑھے تو ہم ان کے ساتھ ہونگے جس پر
بھائی لوگوں نے الطاف حسین کی اس بات کو فوج کو اقتدار کی دعوت دینے کے
مترادف قرار دیا تھا اور پورے ملک میں ہلچل مچ گئی تھی مگر جب دوسرے دن پیر
پگارا نے الطاف حسین سے بھی زیادہ آگے بڑھ کر بات کی تھی کہ فوج کو تو دو
تین سال کے لیے اقتدار پر قبضہ ہی کرلینا چاہیے اور انتخابات جب کرانے
چاہیے جب کرپشن ختم ہو تو الطاف حسین کے فوج کو مخاطب کرنے پر تو بڑی باتیں
اور بڑی لفاظی کی گئی مگر اسی دن یا دوسرے دن کے پیر پگارا کے بیان کو نظر
انداز کر دیا گیا۔
باقی اتنی سخت بات پیر پگارا نے ملاؤں کے خلاف کی ہے کہ میرے تو کان سرخ
ہوگئے تھے یہ بات سن کر اور میرے ہونٹ کانپ ہی جاتے ہیں ایسی بات دوسروں کو
بتاتے ہوئے بھی کہ پیر پگارا کیا کہہ گئے۔
کاش ایک دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے والے مگر اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو
گلے لگانے والے اور اقتدار ختم ہونے پر پھر ایک دوسرے کو شت و شتم کرنے
والے ایک ہوجائیں اور پیر پگارا کے اس انتہائی سخت، معیوب اور غلط بیان پر
عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے کم از کم محترم مولوی حضرات کے تقدس اور عزت
نفس کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی انتہائی سخت ردعمل ظاہر کریں جس سے پیر
پگارا یا دوسروں کی حوصلہ شکنی ہو اور انہیں معلوم ہوجائے کہ ملاؤں یا
مولوی حضرات سے لاکھ اختلافات کیے جاسکتے ہیں مگر اتنی معیوب بات وہ بھی
تمام مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے خلاف ناقابل برداشت ہے امید ہے اہل علم
و عمل اس معاملے پر مجھ سے متفق ہوں گے۔
علمائے حق کا ایک ادنٰی سا خادم |