انانیت

یہ ایک سچ ہے کہ ہم ایک جذبا تی قوم ہیں اور ہمارے ہاں انتہا پسندی کا شکار ہو جا نے کی مضبوط روا ئت موجود ہے۔ ہم خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھنے لگتے ہیں، اپنے فیصلو ں کو حتمی تصور کرتے ہیں اور افہام و تفہیم سے اجتناب برتتے ہیں۔ افرا ط و تفریط کے پیکر میں ڈھل جا نے کے بعد اپنے فیصلوں میں متشدد ہو جا تے ہیں اور اپنے مخا لفین کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔اپنے فرائض کی بجا آوری کی بجا ئے دوسروں کے معاملات میں ٹا نگ ا ڑانے اور انکے اختیا رات کو استعمال کرنے کے جنوں کا شکار رہتے ہیں دوسروں کے اختیا رات استعمال کرتے وقت ہمیں ا حساسِ ِ برتر ی بھی رہتا ہے اور روح کو تسکین بھی ملتی ہے لہذا احساسِ تفا خر کی یہی وہ روح ہے جو ہمارے مسائل کی بنیا د ہے اگر متا ثرہ فریق حرفِ شکا ئت زبان پر لا نے کی جرات کرے تو اسے خطرناک دھمکیاں دے کر خا موش کردیا جاتا ہے۔ با ہمی مخاصمت کے یہی بے لچک رویے ہیں جنکی وجہ سے ہم نے چار مار شل لاﺅ ں کا سامنا کیا ہے۔ آرمی جر نیلوں نے بزورِ قوت پارلیمنٹ کے اختیارات چھین کر سب کو اپنے سامنے سر نگوں ہو نے پر مجبور کر دیا اور عدلیہ کو نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاﺅں کو جائز قرار دینا پڑا۔ ہر پاکستانی کو علم ہے کہ عدلیہ نے جمہو ری بسا طوں کو لپیٹنے، لوگوں کو زندا نوں کے حوا لے کرنے اور منتخب وزیرِ اعظم کو سرِ دار کھینچ دینے میں فوجی حکمرانوں کا بھر پور ساتھ دیا اور انکی کا سہ لیسی میں کو ئی کسر نہ چھو ڑی ۔بے گناہ وزیرِ اعظم کو پھانسی دینے کے جرم کا اعتراف تو سزا دینے والو ں نے خود بھی کیا ہے لہذا عدلیہ کے دہرے اور جانبدارانہ معیار سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔

بڑی جدو جہد اور قربا نیوں کے بعد آزاد میڈیا اور آ زاد عدلیہ کے خواب میں رنگ بھرے گئے ۔ رنگ بھرنے والوں میں سول سو سا ئٹی ،وکلا تنظیموں اور سیاسی جما عتوں نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا لیکن قربا نیوں کا قرعہ فال ایک دفعہ پھر پی پی پی کے نام ہی نکلا اور اسکے جیا لوں نے اپنے لہو سے اس تحریک کو کامیا بی سے ہمکنار کیا ۔ سا ری سیا سی جدو جہد کا نقطہ ماسکہ یہ تھا کہ عدلیہ جمہو ریت اور پارلیما نی نظام کی حفا ظت کرےگی اور کسی طا لع آزما کو جمہو ری بساط لپیٹ دینے اور شب خون مارنے کی اجاز ت نہیں دے گی لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کے مصداق جمہو ریت کو سب سے زیا دہ خطرہ آج کی آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا سے ہے ۔آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا اپنی ایک علیحدہ دنیا بسا ئے ہوئے ہیں۔ وہ حکو متوں کی تضحیک کر نے اور ا نھیں غیر مستحکم کر نے میں جٹے ہو ئے ہیں۔ کہا نیاں تخلیق کرنا ،دھمکیاں دینا ، احکامات صادر کرنا اور انتظامی امور کو اپنے ہاتھ میں لے لینا روزمرہ کے معمولات ہیں۔ اب تو نو بت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان کو سرِ عام د ھمکیا ں دی جا رہی ہیں کہ اگر حکو مت نے عدا لت کے فیصلوں پر عمل در آمد کو یقینی نہ بنا یا تو انھیں سخت نتا ئج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چا ئیے۔وزیرِ اعظم دہا ئی دے رہے ہیں کہ آئین کے آر ٹیکل ۸۴۲(۲) کے تحت صدرِ ِ پاکستان کو استثناء حا صل ہے لہذا صدر کے خلاف عدا لتوں میں مقدمات کی شنوائی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی سوئٹزر لینڈ حکو مت کو صدرِ پاکستان کے خلاف مقدمات چلا نے کے لئے خط لکھا جا سکتا ہے لیکن عدلیہ ہے کہ کسی بھی ایسی بات کو سننے کےلئے تیار نہیں ۔

آئین بنا نا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس کی تشریح کرنا عدا لتوں کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عدا لتیں نہ تو آئین میں اضا فہ کر سکتی ہیں اور نہ ہی کتر بیو نت کر سکتی ہیں یہ کام صرف پا ر لیمنٹ کا ہے لیکن ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ موجودہ عدلیہ پا رلیمنٹ اور ا نتظا میہ کے اختیارات استعمال کرنا چا ہتی ہے اور منتخب ممبراں کو عدلیہ کے خوف کے زیرِ پا رکھنا چا ہتی ہے ۔کیا سوئٹزر لینڈ کی حکو مت کو خط لکھا جا نا ا تنا اہم ہے کہ اسکے سامنے ملکی مفادات بے معنی ہو جائیں۔ پو رے پاکستان کا استحکام داﺅ پر لگا ہوا ہے غیر یقینی کی صورتِ حال پاکستانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے پورا حکومتی نظام معطل ہو رہا ہے لیکن عدا لت اسی ضد پر ہے کہ صدرِ پاکستان کے خلاف سوئٹزر لینڈ حکو مت کو خط لکھا جا ئے۔پچھلے کئی مہینوں سے حکو مت کی رخصتی کی خبریں بڑے تواتر سے پھیلا ئی جا رہی ہیں میڈیا بڑے وثوق سے دعویٰ کر رہا ہے کہ حکومت کی رخصتی کا فیصلہ ہو چکا ہے بس رسم ادا کرنی با قی ہے۔ میڈیا اتنا بےباک ہو گیا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم پاکستان پر توہینِ عدالت کی کار وائی کا مطا لبہ کر رہا ہے حا لا نکہ اسے بھی خبر ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان پر توہینِ عدالت کی کار وائی کوئی معمولی بات نہیں ہے جسے حکو مت در گزر کر دے حکومت اپنی پوری شدت سے ری ایکٹ کرے گی اور پھر ایسی افرا تفری مچے گی کہ اسے سنبھا لنا مشکل ہو جا ئے گا لہٰذا عدالت کو۸۴۲(۲) کی روح پر غورو عوض کرنا چا ہئیے عد لیہ کی بحا لی بڑی قربا نیوں کے بعد ممکن ہو ئی ہے لہذا عدلیہ ان قربا نیوں پر اپنی غیر لچک دارنہ روش سے پا نی نہ پھیرے بلکہ جمہو ری نظام کو بچا نے کی کو شش کرے جس کا وہ خود بھی حصہ ہے دانشو روں کا قول ہے کہ انا نیت پسندی سے زیادہ مہلک عنصر انسا نی ذات میں کو ئی دوسرا نہیں ہو تا اسی نے تو ابلیس کو احساسِ تفاخر کا پیکر بنا کر راندہِ در گاہ کیا تھا۔انا پرستی کا زہر جب قلب و نگاہ میں سرائیت کر جا تا ہے تو پھر کچھ بھی دکھا ئی نہیں دیتا ۔ انسان حقائق سے چشم پو شی کر لیتا ہے۔ انتقام کی دنیا میں زندہ رہتا ہے۔ اپنی ضد اور ہٹ د ھرمی پر اڑ جا تا ہے اور جو کچھ اسکے قول و عمل سے صادر ہو تا ہے اسے حرفِ آخر تصور کرلیتا ہے۔ وہ آئین ، قانون، انصاف اور عدل کی سرحدوں سے بہت دور نکل جاتا ہے اور پھر وہ کچھ وقوع پذیر ہو جاتا ہے جو اسکے وہم و گمان سے ما ورا ہوتا ہے۔غضب میں آئے ہو ئے آدمی کو کون بتاسکتا ہے کہ وہ غلطی پر ہے۔ غصے میں قو مو ں اور افراد کے سارے جذبے بجھ جا تے ہیں فقط انتقام کی آرزو با قی رہ جاتی ہے جو اژدھا بن کر باقی ساری انسانی جبلتوں کو ہڑپ کر جا تی ہے۔طاقت ایک خطرناک شہ ہے اور انسان کی تبا ہی کی خشتِ اول۔ جنون سے محفوظ رہنا بڑا اہم ہے اور کارِ پیغمبری سے کم نہیں ہے جس کے لئے بڑے حوصلے اور برداشت کی ضرورت ہو تی ہے جو ہم میں مفقود ہو تی جا رہی ہے۔ انسانی ا صلاح تو غلطیوں کے احساس اور اس احساس کے ادراک سے جنم لیتی ہے۔وہ جنگ جو انسان اپنے خلاف لڑتا ہے وہی اس کی کامرا نی کی بنیا دیں رکھتی ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جو اپنے خلاف جنگ بھی لڑتے ہیں اور اپنے خلاف گوا ہی بھی دیتے ہیں ۔ تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ جنھوں نے اس روش کا اتبا ع کیا عوام نے انھیں ہی محبت اور عظمت سے نوازا لیکن جو شخص خود کو نا گزیر تصور کرتا ہے اسکا انجام عبرت انگیز ہو تا ہے۔ دانشوروں کا قول ہے کہ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن ہم پھر بھی عقل و شعور سے کام نہیں لیتے ہماری سوچ کے سارے سوتے خشک ہو جاتے ہیں اور خود کو نا گز یر سمجھنے لگتے ہیں۔

آئین جب ذاتی خواہشات کا غلام بن جا ئے اور انتقامی کاروائی کے لئے ایک مضبوط ہتھیار بن جا ئے تو پھر رسوائی کو مقدر بننے سے کو ئی نہیں رو ک سکتا۔انانیت انسان کو جلا کر بھسم کرتی ہے راکھ کرتی ہے اور رسوا کرتی ہے ۔مقبولیت دعوپ چھا ﺅں کا کھیل ہے اور اس سے زیادہ بے وفا چیز کو ئی دوسری نہیں ہے۔ کیا کبھی یہ سوچا جا سکتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی ۷۹۹۱ کے انتخابات میں صرف ۷۱ نشستیں حاصل کرے گی اور میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ ۲۰۰۲ کے انتخابات میں صرف ۵۱ نشستیں جیت سکے گی۔ ائر مارشل اصغر خان جو ۷۷۹۱ میں قومی اتحاد کی تحریک میں مقبو لیت کی بلندیوں پر تھے آجکل گمنامی کے اندھیروں میں گم ہیں اور کو ئی انکا پرسانِ حال نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف خود کو پاکستان کے لئے نا گز یر سمجھتے تھے لیکن انھیں جس رسوا ئی کے ساتھ اقتدار سے سے الگ ہو نا پڑا وہ ایک علیحدہ داستان ہے ۔ سید سجاد حسین شاہ (سابق چیف جسٹس) بھی زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ انکے پاس قانون کی قوت ہے اور انھیں صدرِ پاکستان فاروق احمد لغا ری کی حمائت حاصل ہے لیکن جو حشر سید سجاد حسین شاہ کا ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے انھیں اپنی جان بچا نے کےلئے چیمبر میں چھپنا پڑا ۔ فاروق احمد لغا ری اور سید سجاد حسین شاہ کو انکے عہدوں سے بزور ہٹا یا گیا اور کوئی انکا نام لیوا نہیں۔کیا آج کی عدلیہ اسی کہا نی کو پھر دہرا نا چا ہتی ہے یا اپنے تحمل برداشت ،دانش اور بردباری سے استحکامِ پاکستان کا نیا باب رقم کرنا چاہتی ہے اور آئین کی وہ تشریح کرنا چا ہتی ہے جو ذا تی خواہشات کی آئینہ دار نہ ہو بلکہ واقعی آئین و قانون کی روح سے مطابقت رکھتی ہو۔ ۔ ڈھنڈورچی، خوشامدی اور دم چھلے ذاتی مفا دات کے لئے ایسی فضا تخلیق کرتے ہیں جس میں تصادم نا گزیر ہو جاتا ہے انکی بقا چو نکہ تصادم میں پوشیدہ ہو تی ہے لہٰذا وہ تصادم کو ہوا دیتے رہتے ہیں جنرل پرویز مشرف کے ڈھنڈورچی جو دن رات جنرل پرویز مشرف کے گن گا تے نہیں تھکتے تھے اسے وردی میں ۰۰۱ دفعہ صدر منتخب کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے اس کے تلوے چا ٹتے تھے اسکی قدم بوسی کرتے تھے اور اسکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا اپنے لئے با عثِ فخر سمجھتے تھے بالکل غائب ہو گئے ہیں کیونکہ اب جنرل پرویز مشرف کے پاس انھیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے اب انکی نگا ہوں کا مرکز جنرل پرویز کیانی ہیں کیونکہ اب قوت کی علامت چھڑی کیا نی صاحب کے ہا تھوں میں ہے۔ بے ضمیروں کا مطمع نظر چونکہ اقتدار ہی ہوا کرتا ہے لہٰذا اب کیانی صاحب انکی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں اور ساری امیدیں انہی سے وا بستہ ہیں۔۔

کبھی رات کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر ان سے ملا قاتیں ہو تی ہے اور کبھی دن دھاڑے ملا قاتیں کی جاتی ہیں اور مستقبل کے منظر نامے میں رنگ بھرنے کے لئے ہدا یات لی جاتی ہیں ۔ کل تک جنرل پرویز مشرف کی ہاں میں ہاں ملا نے والے اور اسے عقلِ کل کا مالک تصور کرنے والے اس بے ڈھٹا ئی سے اس سے علیحدہ ہو ئے ہیں کہ ان کے کردار پر انسا نیت کو شرم آتی ہے۔ آج کل وہ جمہو یت کے سب سے بڑے چمپین بنے ہو ئے ہیں اور جمہو ریت کی فیوض و برکات کی تسبیح پورے زورو شور اور انہماک سے پھیر رہے ہیں۔ جب اقتدار جنرل صاحب کی مٹھی میں بند تھا تو بے ضمیروں کی سانسیں بھی اسکی مٹھی میں بند تھیں لیکن جیسے ہی جنرل صاحب سے اقتدار رخصت ہوا بے ضمیروں نے نئے آشیا نے کی تلاش شروع کر دی۔انھیں شائد یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے اپنے اس گھٹیا طرزِ عمل سے سیاست کے مقدس پیشے کو اس قدر بے قعت اور بدنام کر دیا ہے کہ لوگوں کا سیاست اور جمہو ریت کے تصور سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ میری انا نیت کے شکار افراد سے دست بستہ التماس ہے کہ وہ خوشامدیوں اور دم چھلوں کے سحر سے خود کو آزاد کروائیں ،ضد اور ہٹ دھرمی کا لبادہ اتار پھینکیں اور سازشی عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا کر تحمل برد باری، مفاہمت اور وسیع لقلبی کی راہ کا انتخاب کریں جس میں پاکستان کی بقا اور استحکام کا راز مضمر ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.