امن کی خواہش پر دوبارہ شکوک

 پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے ، موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے ورزات خزانہ کے وزیر اپنے ذاتی معاملات میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ معاشی ماہرین کو خدشات لاحق ہیں کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو پاکستان کو شدید معاشی دھچکا لگنے کے خطرات موجود ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم شا ہد خاقان عباسی پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے سبب تن تنہا جرات مندانہ پالیسی بنانے کا متحمل نہیں ہوسکتے۔بعد ازاں عبوری حکومت بھی پاکستان کی معاشی صورتحال پر ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کرسکتی ۔ان حالات میں پاکستان کے عسکری ادارے کی جانب سے مارشل لا ء لگنے کے امکان کو قطعی مسترد کردینا اور جمہوری عمل کے تسلسل پر یقین رکھنے کا پالیسی بیان اہمیت کا حامل ہے۔ہمیں پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف عالمی سازشوں کو گہری نظر سے دیکھنا ہوگا۔بھارت، افغانستان اور امریکا ٹرائیکا کا پاکستان کی عسکری اداروں کے خلاف مشترکہ پالیسوں و جارحانہ بیانات کو نظر انداز کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔اصل سازش یہی ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر معتبر اداروں کے کردار کو محدود کرنے کیلئے متنازعہ قانون سازی کی جائے یہ حکومت نہیں عوام کے خلاف سازش شمار ہوگی۔ ٹرمپ پالیسی کے بعد جنوبی ایشیا خطے میں کشیدگی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی جسے خود افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے خطے کے امن کے خلاف خطرناک قرار دیا اور داعش کی خطے میں موجودگی کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیا۔افغانستان سے بہتر تعلقات کی خواہش پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک نہیں کرسکتا کیونکہ افغانستان کے امن کا براہ راست تعلق پاکستان کے امن و ترقی سے ہے۔حال ہی میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ افغانستان کے بعد مغرب اور افغانستان میڈیا میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں کمی آثار پیدا ہونے کی امید ہے ۔ لیکن صرف چند روز بعد ہی افغانستان کے سابق انٹیلی جنس سربراہ رحمت اﷲ نبیل نے شکوک کا اظہار کردیا جس کے بعد افغانستان کے سابق سرکاری اہلکاروں ، سیاست دانوں اور افغانی تجزیہ کاروں نے بھی معاملات منجمد ہونے کے حوالے سے بر ملا اظہار شروع کردیا ۔گو کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف کے استقبالیہ میں کابل حکومت کا رویہ کافی پرجوش رہا تھا اور جنرل قمر جاوید باوجوہ کے دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیکر شاندارسرکاری پروکوٹول بھی دیا گیاتھا۔دونوں ممالک نے مستقبل میں بہتر تعلقات کا عندیہ بھی دیا لیکن اب وہی ہو رہا ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ پاکستان کے خلوص اور نیک نیتی پر اعتماد بحال ہونے میں کئی دقّت طَلب معاملات حل کئے جانے کے متقاضی ہیں۔پاکستان کے دورہِ افغانستان کو امریکہ دباؤ کا نتیجہ قرار دیکر پاکستان کی جانب سے امن کی خواہش پر دوبارہ شکوک کا ظہار کیا گیاہے’ جس سے مفاہمتی عمل کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔دوسری جانب پاکستان ۔امریکہ تعلقات میں بھی برف پگھلنے کے امکانات پیدا ہوئے’ اس کی وجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ سے واشگاف لفظوں میں کہاہے کہ" امریکا اگر پاکستان کے حوالے سے یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردوں کی’ پناہ گاہیں‘ موجود ہیں تو وہ نشاندہی کرے ، ان جگہوں پر پاکستان خود بمباری کرے گا "۔ امریکہ کی جانب سے ریاستی اداروں پر سنگین الزامات عائد کرنا برایہ راست ریاست پر الزامات عائد کرنے کے مترادف ہیں ۔ کیونکہ کوئی ریاستی ادارہ خودمختار ادارہ نہیں ہے جو اپنی مرضی سے پالیسیاں بناتا ہو بلکہ ریاست کے اہم ستون کے جز ہونے کی حیثیت سے اپنے آئینی فرائض سر انجام دیتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان نے بڑی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا میں ہی ٹرمپ انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے میں اصل رکاؤٹ خود امریکہ ہے ۔ علاوہ ازیں افغان طالبان کو جب بھی مذاکرات کیلئے پاکستان نے اپنے محدود اثر رسوخ استعمال کیا ، امریکہ نے ڈورن حملوں سے اُسے سبوتاژ کردیا ، جس کے سبب پاکستان کا افغان طالبان پر ماضی کے مقابلے میں نفوذ کم ہوا ہوگیا ہے۔ امریکہ ، پاکستانی موقف کو سمجھتا بھی ہے لیکن اب امریکا کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ پاکستان سے اعتماد سازتعلقات کی بحالی میں امریکا کا کردار کیا ہو۔ کیونکہ امریکا ڈومور کے مطالبے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کلیدی نان ۔نیٹو اتحادی حیثیت کم کرنے کی کئی بار دھمکی بھی دے چکا ہے۔اس دوران امریکا خطے میں ابھارت کی اجارہ داری کیلئے پالیسی مرتب کرچکا تھا جیسے پاکستان نے دوٹوک مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ پاکستان کو بھارت کا افغانستان میں متنازعہ کردار قبول نہیں۔ عالمی امور کے ماہر تجزیہ نگاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ امریکا ، بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دیکر پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی امید نہ رکھے ۔

پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کے دوران ہی امریکی وزیر دفاع نے ہاؤس کی آرمڈ سروس کمیٹی کی اجلاس میں کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دے ڈالی ۔ لیکن امریکی وزیر دفاع بھی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ پاکستان سے بات کئے بغیر کوئی بھی قدم اٹھانا امریکہ کے لئے سبکی اور خفت کا باعث بن سکتا ہے ۔ دراصل امریکہ پاکستان سے ملک بھر ڈورن حملوں میں اضافے پر حمایت حاصل کرنے کیلئے دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔پاکستان میں امریکی محدود ڈورن حملے سابقا پالیسوں کے تناظر میں جاری ہیں ۔ جب کہ امریکہ خواہش مند ہے کہ ڈورن حملوں کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اُن تنظیموں کو بھی نشانہ بنائے جن سے امریکہ کا چہیتا بھارت پریشان رہتا ہے۔امریکہ افغانستان میں موجود اُن عناصر کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے کی یقین دہانی بھی نہیں کرانا چاہتا جو مسلسل افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں ، حالیہ چند دنوں میں ہی افغانستان سے وادی راجگال خیبر ایجنسی کی لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فورسز پر فائرنگ کی گئی جس سے لیفینٹ ارسلان ،نائب صوبے دار اظہر علی سمیت 8بے گناہ شہری شہید ہوئے۔پاکستان لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب جب غنی حکومت او بھارتی مودی حکومت کی اشتعال انگیز کاروائیوں کی بات کرتا ہے تو امریکہ پاکستان کے مطالبے پر کان دھرنے کے بجائے پُرانا گیت گانا شروع کردیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے امریکا کو کہا ہے وہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی نشاندہی کرے ، پاکستان خود بمباری کرے گا۔غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان نے امریکی کی اشتعال انگیز بیانات کی پالیسیوں کے جواب میں نیا بیانیہ ترتیب دیا ہے تاکہ کچھ وقت مل سکے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر افغانستان میں امن کے لئے نئی راہ تلاش کی جاسکے کیونکہ پاک۔چین اقتصادی راہداری کا اہم مرحلہ افغانستان میں امن سے مشروط ہے ۔چین ، روس سمیت وسطی ایشیا ئی ممالک اس اہم منصوبے کے ثمرات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور امریکہ کے کردار کو افغانستان میں کم کرنا چاہتے ہیں ۔ اقتصادی سرد جنگ میں پاکستان خود کو دوبارہ تختہ مشق بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اقتصادی طور پر پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار اگر اس بار رُک جاتی ہے تو اسے دوبارہ سنبھلنے میں طویل وقت درکار ہوگا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا ۔ بھارت کے حکومتی عہدے دار و سیاست دان بھارتی میڈیا میں آکر واضح دھمکی دے چکے ہیں کہ 2018 میں اپریل مئی میں پاکستان کے خلاف بڑی کاروائی کی جائے گی۔ بھارت کی جانب سے گیڈر بھبکیاں جاری ہیں کہ پاکستان کو ( خدانخواستہ) چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے گا ۔ بھارت کی اشتعال انگیزی کے مدعا یہ ہے کہ پاکستان کے تین صوبوں کے عوام پاکستان سے( خاکم بدہن ) آزادی چاہتے ہیں لہذابھارت پاکستان کے چار ٹکڑے کرے گا تاکہ ہمیشہ کیلئے پاکستان کا مسئلہ ختم ہوسکے ، بھارتی حکومتی حکام و سیاست دان پاکستان کو پانی بندکرنے کے دھمکی کے ساتھ ساتھ کشمیر سے ڈیم توڑ کر پاکستانی عوام کو سیلاب میں ڈوبنے کی منصوبہ بھی کئے بیٹھے ہیں۔ یہ دھمکیاں سنجیدہ نوعیت کی ہیں کیونکہ جس طرح بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور دوسری جانب افغانستان سے در اندازی جاری ہے ۔ بین الااقوامی امور کے ماہر تجزیہ نگاربھارت کے حالیہ بیانات کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جس طرح کا ماحول بھارت میں پیدا کیا جارہا ہے اس سے خدشہ ہے کہ پاک۔ بھارت کے درمیان ایک بار پھر جنگ چھیڑ سکتی ہے ۔ پاکستان بھارت کے مکروہ عزائم سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔خاص طور پر جب ملک میں نئے انتخابات کی تیاریوں میں تمام سیاسی جماعتیں مصروف ہوں ، عبوری حکومت کا ڈھانچہ بڑی اہمیت کے حامل فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو ۔ مملکت میں امن کے ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے حساس اداروں اور اہم ریاستی ستونوں کی تمام توجہ ملکی حالات پر مرکوز ہوں تو دشمن کیلئے کسی بھی قسم کا اوچھا وار کرنے کا اس سے اچھا موقع دوسرا نہیں ہوسکتا۔ہمیں تو اس بات پر یقین ہے کہ تحفظ پاکستان کے ضامن ادارے ان عزائم سے بے خبر نہیں ہونگے اور مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے مزید چوکنا ہونگے ۔ اسی لئے پاکستانی حکام امریکہ سے کم ازکم اس حد تک مہلت ضرور چاہتا ہے کہ اہم نوعیت کے حساس فیصلوں کے لئے کم ازکم آنے والی نئی حکومت کا انتظار کرے ، کیونکہ موجودہ حکومت اگر کسی بھی قسم کا کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے نتائج براہ راست انتخابات پر اثر انداز ہونگے ۔جبکہ امریکا کسی نئی حکومت کے انتظار کے بجائے مسائل میں الجھی موجودہ حکومت سے ہی ایسی یقین دہانیاں چاہتا ہے جیسے آنے والی کوئی حکومت تبدیل نہ کرسکے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت و سیاسی صورتحال کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے’ جس میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف 'زیرو ٹالرینس' پر تن تنہا عمل درآمد کرسکے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.