عالمی سامراج کی پشت پناہی میں فلسطین پر صیہونی
قبضے اور تسلط کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد69 سالہ سفر طے کرچکی ہے ،تین
عرب اسرائیل جنگوں سمیت مختلف نشیب و فراز سے گزرتی یہ تحریک اب فیصلہ کن
موڑ پر پہنچ چکی ہے ،جب کہ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اس قابض یہودی ریاست
کا نظریہ اور منصوبہ 121 سال قبل یعنی 1896ء میں آسٹریا ہنگری سلطنت کے ایک
یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے اپنے ایک پمفلٹ ’’یہودی ریاست‘‘ میں پیش کیا
تھا جس میں مزید رنگ 1916 میں جنگ عظیم اول کے اختتام پر سامراجی قوتوں کے
درمیان ہونے والے معاہدہ’’سائیکس پیکوایگریمنٹ‘‘ کے ذریعہ بھرا گیا ،جس کے
تحت نوآبادیاتی استحصال اور سیاسی و سفارتی غلبہ جاری رکھنے کے لئے خطہ عرب
کو مختلف ممالک اور ’’اقوام‘‘ میں تقسیم کیا گیا۔ ارض فلسطین پر صیہونی
ریاست کے قیام کا عملی منصوبہ ’’بیلفور ڈیکلیریشن‘‘ میں پیش کیا گیا۔یاد
رہے یہ اعلامیہ دراصل ایک خط کی شکل میں تھا جو 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ
کے وزیر خارجہ آرتھر جیمز بیلفور نے برطانوی یہودی کمیونٹی کے رہنما بیرن
روتھ چائلڈ کے نام تحریر کیا تھا۔
اس پس منظر کو سمجھنے کے بعد مسئلہ فلسطین کی نزاکت اور یہود ونصریٰ کی اس
حوالے سے منصوبہ بندی اور سنجیدگی بلکل واضح ہوجاتی ہے ،اوران پوشیدہ عوامل
کی نشاندہی بھی ممکن ہوجاتی ہے جن کی وجہ سے اقوام متحدہ جیسا مقتدر ادارہ
مسئلہ فلسطین کو حل کرنے سے قاصر اور مجبور محض نظر آتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ
اسرائیل ہر گزرتے دن کے ساتھ جارحیت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے ،حالیہ
رپورٹس کے مطابققابض صہیونی فوج نے اسرائیل مخالف مواد نشر کرنے کے بھونڈے
الزام کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے کے 8 میڈیا پروڈکشن ہاؤس بند کردیے ہیں۔
مقامی فلسطینی شہریوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ قابض فوج نے غرب اردن کے
شمالی شہر نابلس میں 30 فوجی گاڑیوں کے ساتھ میڈیا پروڈکشن کمپنیوں کے
دفاتر پر دھاوے بولے۔ دفاتر میں گھس کر عملے کو زدو کوب کیا، توڑپھوڑ کی
اور بعد ازاں گن پوائنٹ پر ان اداروں کو چھ ماہ کے لیے سیل کرنے کے نوٹس
چسپا کردیے۔مرکزاطلاعا ت فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق قابض فوج نے الخلیل،
رام اللہ، بیت لحم اور نابلس میں ٹرانسمیڈیا، پال میڈیا، رامساٹ، فلسطین
الیوم ٹی وی چینل، الاقصیٰ چینل، المنار، شیا ٹوڈے، القدس، المیادین اور
کئی دوسرے اداروں کے مراکز بھی سیل کردیے،جب کہ یہ کمپنیاں کئی غیر ملکی ،
عربی اور فلسطینی سیٹلائٹ چینلوں کو میڈیا سروسز فراہم کرتی ہیں،اس کے رد
عمل میں فلسطینی حکومت کے سرکاری ترجمان یوسف المحمود نے ایک بیان میں کہا
کہ "قابض افواج نے فلسطینی شہروں میں ان میڈیا دفاتر کے پر دھاوے بول کر
تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں"
اس میں دو رائے نہیں کہ صہیونیوں کے تشدد اورغیر انسانی روئیے سے کوئی
فلسطینی طبقہ محفوظ نہیں ہے ،بالخصوص حالیہ دنوں میں نشریاتی اداروں کے
ساتھ اسرائیلی برتاؤ یقینا تہذیب اور معاشرتی اقدار سے گرا ہوا اور آزاد
صحافت کا گلہ دبانے کے مترادف ہے، مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق کلب برائے
اسیران کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب
سے غرب اردن میں چھاپوں کے دوران آٹھ میڈیا پروڈکشن ہائوسز بندش کے بعد
کئی صحافیوں اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ مختلف اسرائیلی
جیلوں میں قید فلسطینی صحافیوں کی تعداد 24 ہوچکی ہے ۔کلب برائےاسیران کے
مطابق قابض فوج نے دو سگے بھائیوں ٹرانس میڈیا کے چیئرمین ابراہیم الجعبری
اور کمپنی کے ڈاکڑیکٹر عامرالجعبری کو ان کے گھروں سے اسرائیل مخالف مواد
چھپانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے ۔امر واضح ہے کہ یہ تمام صہیونی
ہتھکنڈے جدو جہد آزادی پر کسی صورت اثر انداز نہیں ہو سکیں گے ،لیکن عالمی
فورم پر فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہونا اور اسرائیل کے قیام کا تاریخی پس منظر
مایوس کن اور مسلم ممالک کے لیے لمحہ فکریہ ہے ،اگراسلامی قیادت نے درپیش
مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ بندی تشکیل نہ دی تو گردش ایام
میں ہم مزید پستیاں ہمارا مقدر بنیں گئیں ۔
|