معاہدہ پیپلز پارٹی کا اور ادائیگی کرے عوام

پیپلز پارٹی کا دور ہو یا مسلم لیگ کا ۔ ہر دور میں حکمران اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے غلط فیصلے کرتے چلے آئے ہیں ۔ ایسے فیصلے جن سے پاکستانی قوم کو کوئی فائدہ نہیں الٹا ان غلط معاہدوں کا نقصان ہوتا ہے اور یہ نقصان جرمانے کی شکل میں عوام کو اپنی جیبوں سے اداکرنا پڑتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آصف علی زرداری کے حکم پر رینٹل پاور پراجیکٹس کا آغا ز کیا ۔ اس پروگرام کے تحت برادر اسلامی ملک ترکی سے سمندری پانی سے بجلی پیداکرنے والا ایک بجلی گھر منگوایا گیا ۔ معاہدے کے مطابق یہ231 میگاواٹ بجلی پاکستان کو فراہم کرے گا ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ معاہدے اس رینٹل پاور پلانٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت41 روپے مقرر تھی ۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے سے پہلے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اتنی مہنگی بجلی کا بل کون ادا کرے گا ۔کک بیکس اور کمیشن کے لالچ میں زرداری حکومت نے یہ معاہدہ کرکے خودکو عوام کا بہت بڑا خیر خواہ ثابت کردیابلکہ اخبارات میں کروڑوں کے اشتہار بھی شائع کروا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات کے لیے کس قدر فکر مند ہے اور اس رینٹل پاور پلانٹ کے کراچی کے ساحل پر آنے سے پاکستان میں خوشی کے شادیانے خوب بجائے گئے ۔ لیکن حقیقت میں ترکش پاور پلانٹ نے زیادہ سے زیادہ 55 میگاواٹ بجلی پیدا کی اور وہ بھی 41 روپے فی یونٹ کے حساب سے۔اس سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی اس میں گنجائش ہی نہیں تھی ۔پیپلز پارٹی حکومت جانتی تھی کہ ترکش پاور پلانٹ اس سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا لیکن اربوں ڈکارنے کے لیے آنکھیں بند کرکے یہ انتہائی خسارے والا معاہدہ کرلیا گیا ۔ فیصل صالح حیات اس معاہدے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے ۔ ترکش کار کے کمپنی 17 ملین جرمانہ دینے پر تیار ہو گئی لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 120 ملین کی پینالٹی لگائی ۔ پی پی حکومت اور کمپنی کا مل کر خزانہ لوٹنے کا پلان کچھ اور تھا۔ لہذا حکومت نے جان بوجھ کر کیس کو لٹکا ئے رکھا اور کمپنی کا جہاز 16 مہینے تک کراچی کی بندرگاہ پر کھڑا رہا ۔ 2013ء میں حکومت بدل گئی ۔کارکے کمپنی بین الاقوامی سرمایہ کاری کے تحفظ کے ادارے ICSIJ کے پاس 16 ماہ جہاز کو بندرگاہ پر کھڑاکرنے کا مقدمہ لے کرپہنچ گئی ۔ یہ مقدمہ پیپلز پارٹی حکومت اور ترکش کمپنی کی مشترکہ پلاننگ سے بنا تھا۔ خواجہ آصف جیسے نااہل اور نواز شریف کے پسندیدہ وزیر نے میثاق جمہوریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرینڈلی اپوزیشن کی آڑ میں پیپلز پارٹی کو کلین چٹ د ے دی اور سرمایہ کاری کے بین الاقوامی ادارے میں مقدمہ لڑنے کے لیے ایک برطانوی لاء فرم Allen &Overy کو مقرر کردیا ۔ ستم ظریفی تو دیکھیئے کہ خواجہ آصف مقدمے کی پیروی کے لیے درجنوں بارسرکاری افسران اور مشیروں کا وفد لے کر لندن اور امریکہ جاتے رہے جس پر بذریعہ ہوائی جہاز آنے جانے اور وہاں بہترین ہوٹلوں میں رہنے پر مزید کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کردیئے گئے ۔ پاکستان نے فرم کو 400 ملین فیس اس سے الگ ادا کردیئے ۔ 2015ء جب کیس انتہائی اہم موڑ پر پہنچا تو ترکش رینٹل کمپنی کارکے کمپنی نے عالمی عدالت سے باہر سیٹلمنٹ کی درخواست کی ٗ جسے خواجہ آصف نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کردیا ۔ اسی سال قانونی فرم نے پاکستان سے فیس نہ ملنے کی بنا پر اہم پیشیاں اٹینڈ نہ کیں ۔ 2016ء میں عالمی عدالت نے پاکستان کے خلاف اور ترکش کمپنی کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔ حکومت پاکستان کو جرمانہ کی رقم مکمل حساب کتاب کے ساتھ بعد میں بتانے کا کہاگیا ۔ مبارک ہو پاکستانیو۔۔ اب عالمی عدالت نے کمپنی کاجہاز 16 مہینے روکنے کی پاداش میں 74 ارب روپے پاکستانی کو جرمانہ کردیا ہے ٗ یہ وہ جرمانہ ہے جسے ہر صورت ادا کرنا پڑے گا۔ اب اس جرمانے کواداکرنے کے لیے بجلی کی قیمت میں 3 روپے 90 پیسے کااضافہ کیاجارہاہے تاکہ بین الاقوامی عدالت سے کیے جانے والے جرمانے کی ادائیگی کی جاسکے ۔ یہ تو صرف ایک واقعہ ہے پاکستان میں پاک ایران گیس جیسے درجنوں معاہدے موجود ہیں جن پر کمیشن اور کیک بیکس حاصل کرنے کے لیے آنکھیں بند کرکے دستخط کردیئے گئے لیکن بعد میں جب وہی معاہدہ پاکستانی قوم کے گلے کو پڑگئے ۔ ریکوڈک کا معاہدہ بھی اسی نوعیت کا ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ ملک کن غداروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ زرداری نے کمانے کے لیے معاہدہ کیا اور وہ اپنا کمیشن لے کر چلتے بنے اور مسلم لیگ ن کی حکومت نے عوام کی جیبیں کاٹ کر بین الاقوامی عدالت کا جرمانہ بھر دیا ۔اس طرح ترکش کمپنی اربوں کی مالک بن گئی ۔ ہم پاکستانی کبھی بھٹو کی قبر کی غلامی قبول کرلیتے ہیں تو کبھی شیر جیسے جانورکو خوشی سے اپنے سر پر سوار کرلیتے ہیں۔ نہ حکمران سدھرتے ہیں اورنہ ہی عوام ۔ترکش کمپنی کے بجلی گھر بلانے والے راجہ پرویز اشرف نے اپنی حکومت کے خاتمے کے دنوں میں 40 ارب روپے صوابدیدی فنڈ سے نکال لیے ۔ آڈٹ کے ذریعے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس کو راجہ پرویز اشرف نے ادائیگی کی ہو ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں پیپلز پارٹی کے بیشمار ایسے کیس بھی زیر سماعت رہے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ راجہ پرویز اشرف نے اپنے اقتدار کے آخری دن ایک ارب روپیہ قومی خزانے سے نکال کر جیب میں ڈال لیا جس کا حساب نہ پہلے کوئی لے سکااور نہ اب کوئی لے سکتا ہے ۔کھیل ختم پیسہ ہضم۔ یہی عالم خواجہ آصف کا ہے جس نے اپنی کوتاہیوں کی بدولت غریب پاکستانی عوام کی جیب سے 74 ارب روپے نکال کر زرداری حکومت کی فاش غلطی کی سزا عوام کو دے ڈالی اور اب وزیر خارجہ بن کر وہ اکثر فرعونیت سے زہر اگلتے دکھائی دیتے ہیں جس کی بعدمیں پاک فوج کے ترجمان کو تردید کرنی پڑتی ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.