اس وقت ملک میں ہما ہمی کی صورتِ حال ہے، میڈیا پر
مختلف خبریں گشت کررہی ہیں، ملک میں انتخابات کا موسم جوں جوں قریب آنے
لگتا ہے ہر دن ایک نیا ایشو اور ایک نئی خبر سامنے آتی ہے، حکمراں پارٹی کی
ہر محاذ پر ناکامی اب عوام پر پوری طرح عیاں ہوچکی ہے، آنے والے اسمبلی
انتخابات میں شکست کے خوف نے اسے بوکھلاہٹ کا شکار بنادیاہے، حقیقی مسائل
سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے متنازعہ بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل رہا
ہے،سب سے بڑی خبر اَمت شاہ کے فرزند جے شاہ کی کمپنیوں کے منافع میں اچانک
اضافہ سے تعلق رکھتی تھی، جسے ’’دی وائر‘‘ کی ایک خاتون صحافی نے آشکارا
کیا تھا، اس خبر سے عوام کو بے خبر کرنے کے لیے اچانک تاج محل کا موضوع
چھیڑا گیا، اور اس پر بیان بازی کا ایسا سلسلہ چل پڑا کہ ملکی عوام اسی میں
اُلجھ کر رہ گئی،پھر سبھوں نے سرے سے یہ غور کرنا ہی چھوڑ دیا کہ شفافیت کی
دعویدار اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کی علمبردار پارٹی کے صدر ان کی کمپنیوں
میں اچانک منافع کا اضافہ کیا معنی رکھتا ہے؟ تاج محل پر رائے زنی کا سلسلہ
ابھی تھما نہیں تھا کہ برسراقتدار جماعت کے ایک دوسرے قائد نے ٹیپو سلطان
پر نشانہ لگایا، ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں سے لڑتے جان دینے والے ٹیپو
سلطان کو قاتل، متشدد اور تعصب پرست قرار دیا، میڈیا کی توجہ پھر اصل مسئلہ
سے ہٹ گئی، تاج محل کے خلاف نازیبا اظہار خیال کے لیے پہلے سے کئی شخصیتوں
کو تیار رکھا گیا تھا، تاج محل جیسی محبت کی نشانی پر نفرت کی سیاست جاری
تھی کہ پھر ہمایوں کے مقبرہ پر نیا تنازعہ کھڑا کیا گیا، اترپردیش شیعہ وقف
بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر ان سے ہمایوں کے مقبرہ
کو منہدم کرنے اور اس زمین کو قبرستان کے نام مختص کرنے کی اپیل کی، الغرض
خبروں کا لامتناہی سلسلہ ہے، خبروں کے اس پٹارے میں گذشتہ دنوں سوشل میڈیا
میں ایک ایسی خبر نظر سے گزری جس نے سارے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، خبر
کا تعلق دہلی میں مقیم روہنگیامسلم پناہ گزینوں سے ہے، دہلی سے تعلق رکھنے
والے ایک معروف صحافی نے خبر دی کہ دہلی میں مقیم روہنگیا مسلمانوں میں سے
قریب ایک سو افرادنے اسلام کو خیر باد کہہ کر عیسائیت کو گلے لگایا ہے،
ابتدا میں خبر پر یقین نہ آیا، لیکن تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ خبر مصدقہ ہے۔
روہنگیا پناہ گزینوں کی حالت زار کسی وضاحت کی محتاج نہیں ہے، دنیا بھر کی
عالمی طاقتوں کی آنکھوں کے سامنے روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری
ہے، لیکن امن کے ٹھیکیدار ٹَس سے مَس ہونے کو تیار نہیں، ظالم برمی فوج
اسرائیلی ہتھیاروں کا بے تحاشہ استعمال کررہی ہے، لاکھوں ا فراد جان بچا کر
بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرچکے ہیں، جب کہ ہزاروں انتہائی بے دردی کے ساتھ
مارے جاچکے ہیں، پھر جن لوگوں نے بنگلہ دیش یا ہندوستان میں پناہ لے رکھی
ہے ان کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے، انہیں ایک طرف اگر وسائل کی شدید
قلت کا سامنا ہے تو دوسری جانب مرکز کی فرقہ پرست حکومت آر ایس ایس کے
اشارے پر انہیں ملک بدر کرنے پر تلی ہوئی ہے، اگرچہ سپریم کورٹ کی مداخلت
سے وقتی طور پر انہیں راحت ملی ہے لیکن تلوار مستقل ان کے سرپر لٹک رہی ہے،
مودی حکومت سلامتی کے لیے خطرات کا بہانہ بنا کر ان ستم رسیدہ مظلومین کو
مزید صدمہ سے دوچار کرنا چاہتی ہے، اس وقت پوری دنیا میں پناہ گزینوں کی سب
سے زیادہ شرح مسلمانوں میں ہے، عراق، افغانستان، شام اور یمن کی جنگوں میں
لاکھوں افراد بے گھر ہوکر دَردَر کی خاک چھاننے پر مجبور ہوگئے، بہت سے
سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے، شام کے لاکھوں مسلمانوں نے یورپی ملکوں کا رخ
کیا، جہاں ان کی شناخت کے لالے پڑنے لگے۔
دنیا بھر میں بدامنی اور جنگ کی آگ بھڑکانے میں سب سے کلیدی رول امریکہ اور
اس کے ہمنوامغربی وعیسائی ممالک ادا کرتے ہیں، تاکہ جنگ کے نتیجہ میں پیدا
ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر تباہ حال مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ
عیسائیت میں داخل کیاجاسکے، یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں جہاں جہاں جنگ کے
بادل منڈلائے وہاں عیسائی مشنریاں متحرک ہوئیں، خانہ جنگی سے دوچار عراق
میں قریب دو دہائی سے عیسائی مشنریاں دندنا رہی ہیں، انہیں عیسائیت کی
تبلیغ کے لیے کھلی چھوٹ حاصل ہے، وہ سیکڑوں تباہ حال عراقیوں کو مرتد کرچکی
ہیں، یہی حال شام کا ہے جہاں کے جنگ زدہ مسلمانوں کی بڑی تعداد جرمنی اور
دیگر یورپی ملکوں میں پناہ لے چکی ہے، اور انہیں عیسائی مشنریوں نے اُچک
لیا ہے، بہت سے پناہ گزینوں نے مستقل شہریت کے حصول کے لیے عیسائیت کو
اپنالیا ہے، اس کا اندازہ عالمی میڈیا میں شائع اس رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے
جو گذشتہ دنوں منظر عام پر آئی ہے،رپورٹ کے مطابق فنلینڈ کی حکومت نے گذشتہ
ایک سال کے دوران ایران، عراق، شام اور افغانستان سے فنلینڈ پہونچنے والے
ان مسلمان تارکین وطن کی درخواستوں کو مسترد کردیا ہے، جنہوں نے شہریت کے
لالچ میں عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا، جس کا رد عمل اس طور پر سامنے آیا کہ
فنلینڈ کے چار سو عیسائی پادری ان مرتد مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہوگئے،
اور انھوں نے ایک پٹیشن کے ذریعہ فنلینڈ کے امیگریشن ڈپارٹمنٹ سے اپیل کی
کہ مرتد ہونے والے تارکین وطن کو شہریت دی جائے، پادریوں نے حکومت کو آگاہ
کیا کہ مسلم ملکوں میں مرتد کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، اور اسلامی
اصولوں کے مطابق مرتد کی سزا موت ہے، اس لیے وطن کی واپسی میں ان کی
زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، لہٰذا ان کی شہریت منظور کرلی جائے، اکتوبر
۲۰۱۶ء سے ستمبر ۲۰۱۷ء تک تین ہزار پانچ سو دس پناہ گزینوں نے شہریت کی
درخواستیں جمع کرائی تھیں، جن میں ۱۸۴۹درخواستیں رد کی گئیں، رد کردہ
درخواستوں میں سے ۷۱۰ درخواستیں مرتدوں کی تھیں، عالمی میڈیا کے مطابق
فنلینڈ کے عیسائی پادریوں نے پناہ گزینوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے اور
شہریت دلوانے کے لیے انہیں مرتد بنانے کی غرض سے مشنری سرگرمیاں تیز کردی
ہیں، اور فنلینڈ حکومت پر زور دیا کہ وہ اسلام ترک کرکے عیسائیت قبول کرنے
والے پناہ گزینوں کی درخواستوں کو ہرگز رد نہ کرے۔
جنگ زدہ مسلم ممالک سے ہجرت کرکے یورپ میں پناہ لینے والے جن تارکین وطن نے
ارتداد کو گلے سے لگایا ہے انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے کہ وہ کتنی
عظیم نعمت سے محروم ہورہے ہیں، ٹی وی چینلوں کو انٹرویو کے دوران انھوں نے
برملا اعلان کیا کہ وہ عیسائی ہیں، فنلینڈ کے ایک مقامی چینل کو انٹرویو
دیتے ہوئے ایک ایرانی پناہ گزیں مرتد علی رضا حسینی نے بتایا کہ اس نے
عیسائیت قبول کرلی ہے، اور وہ اچھا عیسائی بننے کی کوشش کرے گا، فنلینڈ کے
ایک چرچ میں مرتد بننے والے عراقی شہری حسین محمد نے کہا کہ فنلینڈ میں
زیادہ تر لوگ اس لیے امن سے رہتے ہیں کہ وہ عیسائی ہیں، ذرائع ابلاغ کی
رپورٹوں کے مطابق فنلینڈ میں موجود پناہ گزینوں میں ترک اسلام کا رجحان بڑھ
رہا ہے، ہرروز دس تا بیس پناہ گزیں مقامی چرچوں میں دکھائی دیتے ہیں، گذشہ
تین سال کے دوران ڈیڑھ ہزار سے زائد مسلم پناہ گزینوں نے عیسائیت قبول کرلی
ہے، یہ صرف ایک یورپی ملک کی روداد ہے، جب کہ جرمنی ،یونان اور دیگر ممالک
میں پیش آئے ارتداد کے معاملات آئے دن اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتے رہتے
ہیں، حالیہ عرصہ میں برما میں ہونے والے مظالم کے نتیجہ میں پناہ گزینوں کا
جو سیلاب آیا ہے اس سے عیسائی مشنریاں فائدہ اٹھا سکتی ہیں، دہلی میں پیش
آیا واقعہ بتاتا ہے کہ عیسائی مشنریاں روہنگیاپناہ گزینوں پر برابر نظر
رکھی ہوئی ہیں،ارتداد کی یہ صورت حال ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، ملت
ِاسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ان
تباہ حال بھائیوں کا بھرپور تعاون کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ و ہ فقروفاقہ سے
مجبور ہوکر عیسائی مشنریوں کی آواز پر لبیک کہیں اور اپنے ایمان کا سودا
کریں، ارتداد کی یہ تشویشناک صورت حال ایسی نہیں ہے کہ دعوتی حلقے اسے
معمولی سمجھ کر نظر انداز کریں۔
مسلم معاشرہ میں ارتداد کی ایک صورت وہ ہے جو بین المذاہب شادیوں کی شکل
میں عام ہے، مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی رچانے کے معاملات
بھی آئے دن بڑھتے جارہے ہیں، کالجوں کا مخلوط ماحول، فحاشی وبے حیائی کا
طوفان، موبائل کا آزادانہ استعمال اور دینی واخلاقی شعور کی کمی اس قسم کی
صورت حال پیدا کررہی ہے، اس حوالے سے بعض فرقہ پرست تنظیمیں بھی کافی سرگرم
ہیں، مسلم لڑکیوں کو دام محبت میں پھانسنے کے لیے غیر مسلم لڑکوں کو
باقاعدہ ٹرینڈ کیا جارہا ہے، کالجوں میں زیر تعلیم تربیت یافتہ غیر مسلم
لڑکے مذہبی مہم کے طور پر اس کام کو انجام دے رہے ہیں، اسی طرح لوجہاد کا
ہوا کھڑا کرنے کے لیے غیر مسلم لڑکیوں کو بھی استعمال کیا جارہا ہے، تربیت
یافتہ غیر مسلم لڑکیاں مسلم لڑکوں سے فون پر ربط کرکے انہیں کسی مقام پر
ملاقات کے لیے مدعو کرتی ہیں، جہاں قریب ہی اس کے کچھ غیر مسلم ساتھی روپوش
رہتے ہیں، مسلم لڑکا جونہی ملاقات کے لیے پہونچتا ہے اس پر ہلہ بولاجاتا
ہے، اور شور مچایا جاتا ہے کہ یہ لڑکا غیر مسلم لڑکی کے ساتھ تعلقات بنارہا
ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اس قسم کی سازشوں سے چوکنا
رکھیں، اور مخلوط ماحول کی تباہ کاریوں سے انہیں بچائیں۔
حقیقی ا رتداد کے علاوہ اس وقت امت ِمسلمہ میں ذہنی اور ثقافتی ارتداد کی
صورت حال بھی کچھ کم تشویشناک نہیں ہے، مسلم معاشرے تیزی کے ساتھ ثقافتی
یلغار کا شکار بن رہے ہیں، غیر مسلم کے مذہبی تہواروں میں مسلم نوجوانوں
اور خواتین کی شرکت کی خبریں اخبارات اور سوشیل میڈیامیں آتی رہتی ہیں،
گذشتہ دنوں بتکما تہوار میں غیر مسلم خواتین کے ساتھ مسلم لڑکیاں بھی رقص
کرتی نظر آئیں، اسی طرح روز نامہ سیاست کی اطلاع کے مطابق گذشتہ گنیش تہوار
کے موقع پر گنیش کے لڈؤوں کو بھاری قیمت ادا کرکے دو مسلم افراد نے خریدا،
ہولی، دیپاؤلی اور سنکرانتی کے موقع پر رنگ بازی، پتنگ بازی اور آتش بازی
کا رواج اب مسلم نوجونواں میں بھی خوب عام ہورہا ہے، ثقافتی یلغار پر روک
لگانے کے لیے نوجوانوں میں مذہبی شعور بیدار کرنا از حد ضروری ہے۔ |