لمحہ فکریہ

قدرت کے طریقہ کار اورانسان کے اسلوب میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔دونوں کے اختیارات کے عدم توازن اس فرق کا سبب بنتاہے۔انسان محدود صلاحیتوں کی حامل مخلوق ہے۔جو اپنی محدود بصارت۔محدود سماعت اور محدود سوچ کے حساب سے لائحہ عمل ترتیب دیتاہے۔اس کا مقصد یا تو اپنی ذات ہوتی ہے۔یا اپنے گروہ کی بھلائی۔جب کہ قدرت کو اپنے لامحدود نظام سبب ایک لمبے چوڑے منصوبوں پر کام کرنا ہوتاہے۔اس لیے اس کے انتظامات انسانوں کے انتظامات سے ٹکراتے رہتے ہیں۔یہی ٹکراؤدنیا میں تنوع کو جنم دیتاہے۔تبدیلی۔نیا پن اسی ٹکراؤ کے سبب ہیں۔انسان اپنی کمزور پوزیشن کے سبب ہمیشہ دفاعی قدم پر جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔انہیں پیچھے ہٹنا پڑتاہے۔کبھی مٹا دیے جاتے ہیں۔قدرت ہمیشہ غالب آجاتی ہے۔ آخری فتح اسی کے نام رہتی ہے۔ہمیشہ سے یہ اصول چلتاآرہا ہے۔مگر انسان ہے کہ اپنی ہار ماننے پرآمادہ نہیں اس کی وہی کوتاہ دامنی او رکوتاہ فہمی بار بارکسی نئی منصوبہ بندی پر اکساتی رہتی ہے۔اورو ہ پھرسے قدرت کے ساتھ دوبدوہوجاتاہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین او رسابق صدر آصف زردای نے کہاہے کہ شریف فیملی کو گرفتارکیا جائے۔ہمارے جیسا احتساب نہ ہوا تو تسلیم نہیں کریں گے۔ہمیں پہلے گرفتارکرکے جیل بھیجا جاتاہے۔پھر کیس ڈھونڈے جاتے ہیں۔کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ ٹرائل ہوا۔احتساب کی جس چکی سے ہم گزرے ہیں۔شریف فیملی کو بھی اسی سے گزارا جائے۔مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا۔گاڈ فادر لندن سے مفاحمت کے پیغام بھیجتاہے۔قوم سسلین مافیا کے چنگل سے نجات چاہتی ہے۔این ایل جی کے ہر جہاز پرچار ملین ڈالر کمیشن نکلتاہے۔بھٹو کا نعرہ روٹی کپڑا او رمکان آج بھی بنیادی ضرورت ہے۔

جناب زرداری صاحب ایک بارپھر کھلا میدان چاہتے ہیں۔وہ حادثاتی طور پر اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔یہ خوبصورت حادثہ ان کے لاشعور میں بیٹھ گیا ہے۔وہ آئے اس حادثے کے اعادہ کا خواب دیکھتے ہیں۔اس خواب کی مستی انہیں کئی دن پرجوش رکھتی ہے۔ایک شخص جو پاکستان کا سب سے بر ابندہ ہونے کا امیج رکھتاہو۔جس کی آدھی زندگی جیلو ں میں گزردی ہو۔اس آدمی کو کسی بہانے اقتدار تک رسائی مل جائے تو ایسا نشہ مدتوں تک اپنی مدہوشی زائل نہیں ہونے دیتا۔زرداری صاحب کے کچھ نادان دوست انہیں ایک زرردار ی سب پر بھاری کا نعرہ لگاکر پھولا دیتے ہیں۔یہ وہی دوست ہیں جو آج بھی پیپلز پارٹی کو بھٹو دور میں رکھنے پر بضد ہیں۔آج علم وشعور بڑھ چکا میڈیا ایڈوانس ہوچکا۔اب خالی پیلی باتوں اور ڈھونگ ڈراموں سے کسی کو قائل کرلینا آسان نہیں۔پھر عوام میں اب اس حد تک غربت او رجہالت بھی نہیں رہی کہ وہ کسی بھی طرح کے اوٹ پٹانگ نعروں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیں۔یہ نادان دوست نہیں سمجھتے کہ زرداری دور کی طویل مدتی ان پرد ہ نشینوں کی مرضی کے سبب تھی۔جو جمہوریت کا کوئی بدنما اور مکروہ چہرہ متعارف کروانے کی خواہش رکھتے تھے۔مشرف گروپ کی تمناتھی کہ زرداری دور اس قدر بیزاری اور نفرت سمیٹے کے مشرف کے جرائم پھیکے پڑجائیں۔پردہ نشین اپنے منصوبے میں کامیا ب رہے۔ادھر زرداری دور کے پانچ سال پورے ہوئے۔ادھر جھجکتی۔چھپتی۔آمریت ایک نئی اٹھان کے ساتھ میدان میں آگئی۔نوازشریف دورمیں یہ جو پردہ نشینوں کی نان سٹاپ اٹھکیلیاں ہورہی ہیں۔یہ اسی زرداری دورکے پانچ سالوں کانتیجہ ہے۔اسی دورکا بویا آج جمہوریت کاٹ رہی ہے۔زرداری صاحب لندن سے مفاہمت کے پیغام کو برا سمجھ رہے ہیں۔اصل میں ان کے نزدیک مفاہمت کسی بھی طرح اقتدار پالینے اور اسے جاری رکھنے کے لیے کی جانے والی کسی کوشش کا نام ہے۔اگر وہ آج نوازشریف سے مفاہمت کرتے ہیں۔تو لامحالہ اگلا الیکشن میاں صاحب لے جائیں گے۔زرداری صاحب بھلا ایسی مفاہمت کیوں قبول کریں گے۔اس لیے وہ خود کومومن کہلوانے کے چکر میں پڑگئے۔جہاں تک شریف فمیلی کواسی احتساب سے گزار نے کی با ت ہے۔جس سے جناب زرداری گزرے توانہیں یاد رکھنا چاہیے۔ان کے نا ن سٹاپ جیل اور گرفتاریوں پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی تھی۔جتنا برا شریف فیملی کے خلاف احتساب کو تصور کیا جارہا ہے۔جناب زرداری کے معاملے پر سنجیدہ طبقے اتنی تشویش کبھی نہیں دکھاپائے۔اصل میں آپ حضور اس قدر نام بناچکے تھے۔کہ جس کسی کیس میں بھی آپ کو اٹھوایاگیا۔قوم نے مان لیااسے چنداں حیرت نہ ہوئی۔

ایک سوال پردہ نشینوں سے بھی قوم پوچھے گی کہ آخر ان کی سوچ کی حد کیا ہے۔وہ کہاں جاکر ٹھہرے گے۔کب تک ادارے ایک دوسرے کو ہڑپ کرنے کی غلطی کرتے رہیں گے۔جب جناب زرداری جیسے مومن کسی گاڈ فادرکی طرف سے کسی مفاہمت کے پیغام سے بچننے کی بات کریں تویہ صورت حال لمحہ فکریہ ہے۔زرداری صاحب شریف فیملی اپنے جیسا احتساب چاہتے ہیں۔کیا پردہ نشین نہیں سمجھتے کہ احتساب کا مقصد برائی کو ختم کرنا ہے۔برے بندوں کو نشان عبرت بنانا ہوتاہے۔آج جناب زرداری خود کو شریف فیملی سے زیادہ مظلوم قرار دے رہے ہیں۔زرداری اور شریف فیملی کا ایک جیسا ثابت کرناہی لمحہ فکریہ ہے۔پردہ نشینوں کی سوچ اس مکروہ صورتحال کا موجب بن رہی ہے۔ایک چھوٹی سی اناریاست کے اعضاء کو نگلتی جا رہی ہے۔عدلیہ۔پارلیمنٹ۔جمہویت۔سیاسی نظام خارجی پالیسیاں۔ملکی معیشت اور جانے کیا کیا۔یہ چھوٹی سی انا آج چور اور سادھ کو ایک ہی کرسی پر بٹھانے کی بنیاد بن چکی۔پردہ نشین اگر اپنی انا کو پالتے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔تو انہیں یاد رکھنا ہوگا۔ایک دن سب کچھ ختم ہوجائے گا۔رہے گی توصرف ان کی جھوٹی او رناکام بنادینے والی انا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.