جمہوری قیادت کی پارٹ ٹائم ورکنگ نے اس کے حمایتیوں کو
مایوس کیا ہے۔یہ مایوسی رفتہ رفتہ دوسری طرف والوں کی مضبوطی کا سبب بن رہی
ہے۔جمہوریت میں کامیابی کا رستہ بڑا جوکھم والا ہے۔برسوں کی محنت کے بعد
کچھ شناخت ملتی ہے۔پھر برسوں کی شناخت کے بعد جاکے کوئی منزل۔دوسری طرف
والے شارٹ کٹ کے ذریعے دنوں۔گھنٹو ں میں منزل تک پہنچنے کی قدرت رکھتے
ہیں۔طاقت اور محنت کی یہ خلیج جمہوری قیادت سے جس بصیرت کاتقاضہ کرتی
ہے۔نہیں مل پارہی۔اس لیے جمہوریت بدتدریج کمزور ہورہی ہے۔اور غیر جمہوری
طاقتیں پہلے سے زیادہ منہ زور۔جب نواز شریف کو فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سے
ہاتھ دھونا پڑے تو جمہوریت کے میران جعفر کھل کرسامنے آئے۔ملک سے وفاداری
اور قوم کی خدمت کرنے کا حلف اٹھانے والے نہ وفاداری ثابت کرسکے نہ خدمت کر
پائے۔ایک ایسی حکومت کا حصہ بن گئے جوغیر آئینی اور غیر قانونی تھی۔ایسی
عجیب الخلقت جس نے خود ایک عدالت بنائی اور اس عدالت سے اپنے قیام کا جواز
حاصل کیا۔نوازشریف دورکے چھوٹے موٹے عہدے داران کی بات چھوڑیے۔
جب ان کے خاص الخاص وزیر مشیر بھی مشر ف دور کا حصہ بن گئے۔تو کیا جمہوریت
اور کیا جمہوریت کامستقبل۔میاں صاحب کا سارا بندوبست دھرے کا دھرا رہ
گیا۔وہ بھی بھٹو کی طرح قوم کی خدمت کو اپنے لیے کافی سمجھنے کی غلطی
کرگئے۔لاٹھی گولی کے جواب میں نہتی عوامی حمایت دونوں کا دفاع کرنے میں
ناکام رہی۔
شیخ رشید نے کہا ہے کہ اگلے کچھ مہینے بڑے اہم ہیں۔مارچ سے پہلے کوئیک مارچ
کریں گے۔حدیبیہ پیپرز ملز کا کیس کھلتے ہی نوازشریف اور ان کے خاندان کی
سیاست ختم ہوجائے گی۔جو کوئی بھی پاک فوج عدلیہ اور ختم نبوت کے خلاف ہرزہ
سرائی کرے گا۔پاکستان میں اس کے لیے جینا مشکل کردیں گے۔شیخ رشید کو اسمبلی
سے باہر کرنے والے خود اسمبلی اور ملکی سیاست سے باہر ہوچکے ہیں۔پہلے کہتا
تھاکہ چالیس افراد مسلم لیگ ن کو چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔اب نظر آرہا ہے
کہ سترسے اسی لوگ مسلم لیگ ن کو چھوڑرہے ہیں۔ تھوڑے دن صبر کرلیں۔شاہد
خاقان عباسی۔سعد رفیق۔شہباز۔اور نثار وغیر ہ الگ ہوجائیں گے۔
شیخ رشید صاحب ان دنوں بڑی خاص ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ان کی تقریروں او ر
اخباری بیانات سے اس ذمہ داری کے خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کا یہ بیان
بھی اس خاص ذمہ داری کی نوعیت واضح کررہا ہے۔یہ کہنا کہ فوج،عدلیہ او رختم
نبوت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے لیے ملک میں جینا مشکل کردیں گے۔ان
کی ذمہ داری کا پرتو ہے۔یہ ان کی نئی ذمہ داری ہے۔یہ حضرت وقت کے ساتھ ساتھ
اپنی ذمہ داریوں میں تبدیلی لاتے رہتے ہیں۔ا نا کا انتخاب عوما ریاست یا
قوم کے مفادات سے متصادم رہا ہے۔وہ اس انتخاب کے لیے ہمیشہ اپنے حاظر موقع
باس کی خوشنودی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔آج وہ عدلیہ پر ہرزہ سرائی کرنے
والوں کا جینا محال کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔مگر ابھی کل تک وہ خود عدلیہ
کو دیوار سے لگانے والوں میں سب سے آگے تھے۔یہ وہ دن تھے جب ایک فوجی آمر
نے عدلیہ کو بار بار اپنے قدموں تلے روندا۔وہ فوجی آمر شیخ صاحب کے تب کے
باس تھے۔ ان دنوں شیخ صاحب کی طرف سیدے گئے ڈراوے اور دھمکیاں آج بھی انٹر
نیٹ پر دستیاب ہیں۔افتخار محمد چوہدری والی عدلیہ پاکستا ن کی تاریخ کی سب
سے زیادہ عوامی عدالت تھی۔جتنی عزت افتخار محمد چوہدری کو ملی کسی دوسر ے
جج کے نصیب نہیں ہوئی۔شیخ صاحب نے تب عدلیہ کو روندے کے اپنے تب کے باس کے
منصوبے میں مکمل تعاون کیا۔آج عدلیہ کا دفاع ا ن کا مشن بنا ہواہے۔بدقسمتی
سے اب بھی عوام کی رائے شیخ صاحب کے حق میں نہیں ہے۔اس کی وجہ غالبا یہ ہے
کہ اصل میں انہوں نے کبھی بھی عدلیہ کو مضبوط کرنے کی خواہش نہیں رکھی۔وہ
تو صر ف چند ججوں کی مخالفت یا حمایت کی بات کرتے رہے ہیں۔آج و ہ موجودہ
دور کے کچھ ججز کے دفاع کرنے کی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔کل کو جانے اسی عدلیہ
کے کچھ ججوں کے بارے میں ان کو کیا ذمہ داری سونپ دی جائے۔
شیخ صاحب نے ہمیشہ جس پیڑ کا پھل کھایا۔اسی کی جڑوں کو بعد میں کھوکھلا
کیا۔نوازشریف ان کے باس رہے ہیں۔نوازشریف کے سب سے بڑے مخالف پرویز مشرف
ہیں۔حیران کن طور پر شیخ صاحب ان کے بھی نیاز مند نکل آئے۔کل کو وہ نائن
زیرو کے مہمان ہو اکرتے تھے۔آج وہ متحد ہ کی نئی نئی جانشین پارٹی کی قیادت
کے ساتھ بنی گالا نظر آتے ہیں۔دور حاضر میں وہ واحد سیاست دان ہیں۔جو خود
ساختہ فوجی ترجمان بنے ہوئے ہیں۔جمہورت کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی۔اس
میں ان کی پہچان میران جعفرمیں سے ہوگی۔ایسے میران جعفر جو مطلب اور خود
غرضی کی تصویر ہیں۔جو جمہوریت کانام لیکراصل میں آمریت کے خیر خواہی کرتے
رہے۔یہ میران جعفر اپنی شیطانی صلاحیتوں سے قوم کوسیدھے راستے سے بھٹکاتے
کی ذمہ داری نبھاتے رہے ہیں۔آج بھی نبھارہے ہیں۔ |