پروٹوکول، گفتگو اور طیارہ!

 بغیر پروٹوکول؟
یہ واقعہ کراچی میں اس وقت پیش آیا جب صدرِ مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین ایک ہسپتال میں تشریف لے گئے، وہاں نوابشاہ کے مسلم لیگ ن کے صدر زیرعلاج تھے،اُن کی عیادت کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے صدر کو وہاں جانا تھا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ موصوف بغیر پروٹوکول اور سکیورٹی کے ہسپتال پہنچے۔ تحقیق طلب معاملہ یہ ہے کہ صدر پروٹوکول کے بغیر کیوں گئے؟ اگر یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا، تو بھی قابلِ غور ہے ، اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی بھی کر سکتے ہیں، اپنی خواہش کے مطابق کہیں آ جا سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ پروٹوکول اور سکیورٹی کے بغیر بھی نقل وحرکت کر سکتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ صوبائی حکومت یا کسی ادارے نے کیا ہے، تو یقینا اس کی انکوائری ہونی چاہیے، کہ ملک کی اہم ترین شخصیت کو پروٹوکول سے کیوں محروم کیا گیا؟

قوم کو یہ تو علم ہے کہ صدر مملکت نے ایوانِ صدر سے باہر قدم رکھنا ہو تو پروٹوکول اور سکیورٹی کا کیا عالم ہوتا ہے۔ روٹ لگتے ہیں، راستے بند کر دیئے جاتے ہیں، سڑک کے دونوں جانب پولیس کے اہلکار تعینات کر دیئے جاتے ہیں۔ ان راہوں کے مسافر بند سڑکوں پر جمع ہوتے رہتے ہیں، خواری اور ذلت سمیٹتے رہتے ہیں، حکومتوں کو مغلظات سے نوازتے رہتے ہیں، مجبور ، مریض اور کہیں جلدی میں پہنچنے والے لوگ سخت پریشان ہوتے ہیں۔ بہت دیر کے بعد ایک قافلہ ایوانِ صدر سے برآمد ہوتا ہے اور برق رفتاری سے ہوٹروں اور سائرنوں کے شور میں پلک جھپکنے میں وہاں سے گزر جاتا ہے۔ اگر اس قافلے کی بناوٹ پر غور کیا جائے اور اس کو اوپر سے دیکھا جائے (یعنی فضائی تصویر بنائی جائے) تو وہ بالکل ایک بِچھو کی شکل بنتی ہے، آگے آگے موٹر سائیکلوں کی قطار، پھر ہوٹر والی گاڑیاں، پھر ایک ہی شکل کی وی وی آئی گاڑیاں، اِن کے گرد پھر موٹرسائیکلوں کا حصار، آخر میں پھر کئی گاڑیاں۔ یوں یہ قافلہ ایک ہی رفتار سے چلتا ہے تو سماں بندھ جاتا ہے۔ یہ ’’بچھو‘‘ قوم کے خون سے زندہ ہے۔ مگر صاحب کے بغیر پروٹوکول کے ہسپتال جانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کو بچھو کے ’ڈنگ‘ سے بچایا بھی جاسکتا ہے۔ مگر ایسا کرے کون اور کیوں؟

اندازِ گفتگو؟
سیاسی قائدین اپنی کارکردگی کا تو جو کچھ بھی ذکر کرتے ہیں، مگر مخالف کی خامیوں کا حساب چکانے میں ذرا بھی تاخیر سے کام نہیں لیتے۔ بعض اوقات تو صرف مخالف کی برائیوں سے ہی کام چلاتے ہیں۔ دوسروں کے کام پر جائز تنقید بھی زیادہ بری چیز نہیں، مگر اپنے ہاں تو قائدین نے دوسروں پر ایسے الزامات بھی لگانے شروع کر رکھے ہیں جن کا حقیقت سے بھی تعلق نہیں۔ الزام جھوٹا سچا ہو سکتا ہے، مگر بات تو یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ ایک دوسرے کو تقریباً گالیوں تک سے نوازا جانے لگا ہے۔ عمران خان کراچی گئے تو پی پی کے قائد آصف علی زرداری کو آڑے ہاتھوں لیا، ان پر کرپشن کے الزامات لگائے، انہیں طرح طرح کے ناموں سے یاد کیا، تضحیک اور مذاق کا نشانہ بنایا۔ خان صاحب یہی رویہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی روا رکھتے ہیں۔ جواب میں زرداری صاحب نے بھی حدود پھلانگنے میں کمی نہیں چھوڑی، بتایا کہ’’․․․․ جس کی داستانیں مشہور ہوں وہ کیا نیا پاکستان بنائے گا؟ ․․․ کپتان نام اور ذات بدلتا رہتا ہے․․ وغیرہ وغیرہ‘‘۔ متاثرہ پارٹیوں کے کارکنان کے جذبات تو اپنے قائدین کے ساتھ ہوں گے،مگر غیر جانبدار لوگ کیا سوچتے ہیں؟ قائدین کا یہ عالم ہے تو عوام کا انداز کیسا ہوگا؟ ’’تم ہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟‘‘

خصوصی طیارہ؟
گزشتہ روز سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز لاہور سے اسلام آباد پیشی پر خصوصی طیارے کے ذریعے گئیں۔ پیشی اور میڈیا سے گفتگو سے فارغ ہو کر خصوصی طیارے کے ذریعے ہی لاہور واپس آئیں۔ پاکستانی ماحول میں یہ سوال زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کہ یہ خصوصی طیارہ کس حیثیت میں استعمال کیا گیا؟ وفاق میں اپنے ہی آدمی کی حکومت ہونے کے ناطے ، یا پنجاب میں چچا جان کی حکومت ہونے کے حوالے سے۔ یقینا کوئی استحقاق تو ضرور ہوگا، جس کا کم از کم ہمیں علم نہیں ہو سکا۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472669 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.