اندرونی اختلافات سیاسی جماعتوں کے لیے نقصان دہ

جوں جوں الیکشن 2018قریب آتے جا رئے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کے اندرونی حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں ایک طرف تو تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار جو ٹکٹوں کے خواہش مند ہیں عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اندرونی سیاسی اختلافات بھی شدت پکڑتے جا رہے ہیں تحریک انصاف نے بڑی سخت محنت کے بعد اپنا تھوڑا مقام بنایا تھا خاص طور پر تنظیم سازی کے حوالے سے لیکن اچانک تمام تنظیمیں توڑ دی گئی ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اندرونی اختلافات موجود ہیں اس سے تحریک انصاف کے ایسے کارکنان جو عرصہ دراز سے پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں ان کو شدید دھچکا لگا ہے تحصیل کلر سیداں ضلع راولپنڈی میں سے وہ واحد تحصیل تھی جس میں پی ٹی آ ئی کے سب سے زیادہ عہدیدار مقرر کیے گئے تھے لیکن ابھی وہ ٹھیک طرح سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ان کو فارغ کر دیاگیاہے اس سے پارٹی کو ایک بار پھر نقصان کی طرف دھکیل دیا گیا ہے جس کا خمیازہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا پی ٹی آئی میں اس وقت ناراض کارکنوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور امیدواروں کی عوامی رابطہ مہم بھی سخت متاثر ہو رہی ہے ہر حلقہ میں ایک سے زائد امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے اشاروں سے پا رٹی میں گروپ بندی پیدا ہو رہی ہے جو کہ سخت نقصان دہ عمل ہے پارٹی ان بے تکی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے ایسے امیدوار جو اپنی انتخابی مہم کو بڑی تیزی کے ساتھ چلارہے تھے ایک دفعہ پھر منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں پیپلز پارٹی نے یوم تاسیس کے موقع پر 30نومبر کو اسلام پریڈ گراؤنڈ میں ایک بڑ ا جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود کارکنوں کو اس سلسلہ میں تیاریاں تیزکرنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں لیکن ساتھ ساتھ تنظیمی اختلافات بھی زور پکڑ رہے ہیں سٹی صدرجو تنظیم سازی کرتے ہیں سٹی سیکرٹری جزل اس کے مخالف کوئی تنظیم قائم کر دیتے ہیں ان اختلافات کیوجہ سے پارٹی معاملات اچھے نظر نہیں ا ٓرہے ہیں جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی بہت جلد راولپنڈی کی تما م قومی و صوبائی نشستوں پر اپنے امیدواروں کو اپنی مہم چلانے کے لیے منظر عام پر لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے مسلم لیگ ن میں بھی دھڑے بندیاں عروج پر ہیں مسلم لیگ ن کا ایک امیدوار اپنی انتخابی مہم چلارہا ہے جبکہ دوسرا اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے منتخب چئیر مینوں کی بھی ایک بڑی تعداد پارٹی سے مایوس نظر آرہی ہے خاص طور پر NA-52میں یہ صورت حال زیادہ طور پر دیکھنے میں آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کے پارٹی قائدین ایسے گروپوں کو اہمیت دے رہے ہیں جن کے آگے پیچھے صرف اور صرف بدنامیاں ہی بدنامیاں ہیں اور جو لوگ پارٹی کے ساتھ مخلص ہیں ان کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ ہو گا کہ پارٹی سے مایوس لوگ الیکشن میں خاموشی سے اپنا بدلہ لیں گئے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اندرونی اختلافات موجود ہیں جو ان کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوں گئے جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو تمام قسم کے اندرونی اختلافات سے بلکل پاک ہے مسلم لیک ق ابھی تک راولپنڈی میں کوئی بھی خاص سرگرمیاں شروع کرنے سے قاصر ہے اس کے چند لیڈر جو اس وقت مو جود ہیں وہ بھی بلکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ان کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ق لیک صرف نام کی رہ چکی ہے بظاہر اس کی کوئی حثیت موجود نہیں سے سیاسی جماعتوں وہی کامیاب ہوتی ہیں جو اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرا سکیں کارکنون ورکرز اور قائدین کے درمیان انتشاری خلاپارٹی کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیتے ہیں کارکنوں کو ان کے جائز مقامات ملنے چاہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رکھا جانا چاہیے کہ جب کوئی بھی تنظیم بنائی جائے تو اس کو کام کرنے کا موقع ضروردینا چائیے یہ سراسر اصولوں کے منافی ہوتا ہے جب کوئی باڈیز تشکیل دی جائیں تو ساتھ ہی ان کوتحلیل کر دیا جائے تحریک انصاف کو اس حوالے سے خاص طور پر اس وقت ایسی صورتحال کا سامنا ہے خصوصا ا گر این اے 52کی بات کی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کے ضلعی قائدین قائدین کی طرف سے راولپنڈی کی سات تحصیلوں میں جو باڈیز بنائی گئی تھیں ان کے عہدیداراوں نے بڑے منظم طریقے سے پارٹی کی ساکھ کو تھوڑا بہتر بنایا تھا لیکن عین اس وقت ان تما م باڈیز کو تحلیل کر دیا گیا ہے جب وہ اپنی پالیسیوں کو کافی حد تک مقامی سطح پر لاگو کر چکے تھے ۔تو ایسی صورتحال میں ان کے ہاتھ رروک دینا مخلص کارکنوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے قائدین کو اس بات پر سختی سے نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر ایسی پالیسیاں ان کو لے ڈوبیں گی ۔
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 144578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.