خلیفہ دوم سیّدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک
ایسی جلیل القدر شخصیت تھے جنھیں اسلام میں داخل کرنے کیلئے نبی کائنات
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مالک ِکائنات سے دعا مانگی تھی، اسلام
قبول کرنے کے بعد خلیفتہ الرسول سے شہادت تک اُنھوں نے دین اسلام کی وہ
آبیاری کی کہ مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود
اُنھیں یاد کرتے ہیں اور انسانیت کیلئے اُن کا بنایا ہوا سسٹم آج بھی کسی
نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہے۔
اُنھوں نے سن ہجری کا اجراء کیا ، جیل کا تصوردیا، مؤذنوں کی تنخواہیں
مقررکیں، مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کرایا، پولیس کا محکمہ بنایا، ایک
مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی،آب پاشی کا نظام قائم کرایا، فوجی چھاؤنیاں
بنوائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپ ؓ نے دنیا میں پہلی بار
دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظائف مقرر کیے، دنیا
میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے
کا تصور دیا، آپؓ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی
شروع کیا، آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کی اکاؤنٹ بیلٹی شروع کی۔
آپؓ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے، آپؓ فرمایا کرتے تھے جو
حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں، آپؓ کا فرمان تھا کہ ’
قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے‘، آپؓ کی مہر پر لکھا تھا ’عمر!
نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے‘۔ آپؓ کے دستر خوان پر کبھی دو سالت نہیں رکھے
گئے، آپؓ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے، آپؓ سفر کے دوران
جہاں نیند آجاتی وہیں کسی درخت پر چادر تان کر سایا کرتے اور سو جاتے اور
رات کو ننگی زمین پر دراز ہو جاتے تھے، آپؓ کے کرتے پر 14 پیوند تھے اور ان
پیوندوں میں ایک سرخ چمڑے کا بھی تھا، آپؓ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے ، آپؓ
کو نرم اور باریک کپڑے سے نفرت تھی۔آپؓ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے
تھے تو اُس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے اور اگر سرکاری
عہدے کے دوران اُس کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتاتو آپ اُس کا احتساب کرتے
تھے، آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اُسے نصیحت فرماتے تھے کہ کبھی ترکی
گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ
رکھنااور کسی فریادی پر دروازہ نہ بند کرنا، آپؓ فرماتے تھے کہ ظالم کو
معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے۔ آپؓ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی
حیثیت رکھتا ہے کہ ’مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے اُنھیں کب سے
غلام بنا لیا‘۔ آپؓ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنھیں ’امیرالمومنین‘ کا
خطاب دیا گیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے، اسلام کی سب
سے بڑی خصوصیت عدل ہے اور حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہ شخصیت ہیں جو
اِ س خصوصیت پر پورا اُترتے ہیں، آپؓ کے عدل کی وجہ سے عدل دنیا میں ’عدلِ
فاروقی‘ ہوگیا۔ آپؓ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ آپؓ کی وصیت کے مطابق آپ
کاواحد مکان بیچ کر آپؓ کا قرض ادا کردیا گیا اور آپؓدنیا کے واحد حکمران
تھے جو فرمایا کرتے تھے ’میرے دور میں اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک
سے مر گیا تو اُس کی سزا عمر(حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کو بھگتناہوگی۔آپؓ
کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپؓ کا انتقال ہوا تو آپؓ کی سلطنت کے دور
دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا ’’لوگو! حضرت
عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا‘‘۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا’’
تم مدینہ سے ہزاروں مل دور جنگل میں ہو، تمہیں اِس سانحے کی اطلاع کس نے دی؟‘‘۔
چرواہا بولا ’’جب تک حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زندہ تھے، میری
بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھی اور کوئی درندہ اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر
نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے
گیا، میں نے بھیڑئیے کی جرأت سے جان لیا کہ آج دنیا میں حضرت عمر فاروق رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ موجود نہیں ہیں‘‘۔دنیا میں الیگزینڈر (سکندرِاعظم) کا نام
صرف کتابوں میں سمٹ کا رہ گیا ہے جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
بنائے ہوئے قوانین دنیا کے 245 ممالک میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود
ہیں۔آج بھی جب کسی ڈاک خانے سے کوئی خط نکلتا ہے، پولیس کا کوئی سپاہی وردی
پہنتا ہے، کوئی فوجی جوان چھ ماہ بعد چھٹی پر جاتا ہے یا پھر حکومت کسی بچے،
معذور، بیوہ یا بے آسرا شخص کو وظیفہ دیتی ہے تو وہ معاشرہ ، وہ سوسائٹی بے
اختیار حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عظیم تسلیم کرتی ہے، وہ اُنھیں
تاریخ کا سب سے بڑا سکندر مان لیتی ہے ، ماسوائے ان مسلمانوں کے جو آج
احساسِ کمتری کے شدید احساس میں کلمہ تک پڑھنے سے پہلے دائیں بائیں جھانکتے
ہیں۔لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہم
گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آجائے گا، اس پر جواہر لال نہرو
نے مسکرا کر کہا تھا کہ افسوس آج چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان بھول
گئے کہ ان کی تاریخ میں ایک حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھا، جن
کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام میں اگر ایک اور عمرؓ
ہوتاتو دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا۔
آج ہم جب اپنے حکمرانوں کا ذکر کرتے ہیں تو کف ِافسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں
ملتا، مدینتہ الرسول کے بعد کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان
صاحبانِ اختیار و اقتدار کیلئے کرپشن کی وادی میں تبدیل ہو چکی ہے، نیچے سے
اوپر تک کرپشن کا بحرالکاہل نظر آتا ہے، صرف اقتدار میں آنے کی بات ہے مگر
عوام کی حالت قابل رحم، بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ، زرِمبادلہ کے ذخائر
میں کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 120 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، 20 لاکھ سے زائد
نوجوان نوکریوں کیلئے در بدر پھر رہے ہیں، قرض کے انبار اور کھانوں کے
خسارے سے اب تو سپہ سالار بھی پریشان ہیں، سب سے زیادہ پیسہ قرضوں کی شکل
میں سود دَر سود کی مد میں جا رہا ہے، معاشی دہشت گردی کا حال یہ ہے کہ
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پچھلے تین برسوں میں 18 ارب ڈالر صرف اور صرف
سود کی شکل میں ادا کیے گئے ہیں، پاکستانیوں کیلئے اس حکومت کا سب سے بڑا
کارنامہ دنیا بھر کے مہنگے ترین قرضہ جات ہیں جو بالآخر پاکستان کے عوام کو
ہی ادا کرنے ہیں، ورنہ معیشت کی تباہی پر سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے، روس کی
مثال ہمارے سامنے ہے، اُس کے پاس سینکڑوں ایٹم بم موجود تھے مگر معیشت کی
تباہی پر سب کچھ تباہ ہوگیا۔ ہم ربِ کائنات سے دعا ہی کرسکتے ہیں، اﷲ تعالیٰ
ہم پر رحم فرمائے(آمین)
|