ہے کوئی حکیم جو عوام کو مردانہ قوت کا ”کشتہ“ دے سکے؟

گھبرائیے نہیں، یہ وہ والا حکیمی”کشتہ“نہیں جس کی تلاش میں بوڑھے کم اور جوان زیادہ متحرک رہتے ہیں، میں اس کشتے کا ذکر کررہا ہوں جس کی ضرورت آج پوری قوم کو ہے، جی ہاں! کسی اچھے حکیم کا ایسا تیر بہدف کشتہ جسے کھاتے ہی عوام میں ”مردانہ قوت“ کا کرنٹ دوڑ جائے اور جس کے استعمال سے نہ صرف وہ اپنی ”بے حسی“ ختم کرنے کے قابل ہوجائے بلکہ حکمرانوں کی نیندیں بھی اڑا سکے۔ بات تو رسوائی کی ہے لیکن ہے سچ کہ بحیثیت قوم، خصوصاً پاکستانی عوام میں ”مردانہ قوت“ کی بڑی شدید کمی پائی جاتی ہے، مغالطے میں مت رہئے گا، یہ ایسی قوت ہے جو بعض اوقات خواتین میں بھی پیدا ہوجاتی ہے یا قدرت ودیعت کردیتی ہے، یہ ایسی قوت ہے جس سے ایک انسان اپنے گھر کے معاملات بھی ٹھیک کرسکتا ہے اور اگر کوشش کرے تو حکمرانوں کو بھی راہ راست پر لا سکتا ہے۔

اگر پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں کے عوام دن بدن ”مردانہ قوت“ کی کمی کا شکار ہورہے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب ایوب خان کے دور میں چینی تھوڑی سی مہنگی ہوئی تھی اور ایوب خان کو گھر جانا پڑ گیا تھا، یہ ایسا وقت تھا جب عوام میں ابھی کچھ نہ کچھ ”مردانہ قوت“ باقی تھی جس کے مردانہ وار اظہار نے ایک آمر کو رخصت کردیا لیکن اس کے بعد چالاک اور عیار اشرافیہ نے اس ملک کے عوام اور اس کے احساسات کو اس طرح روندا اور پامال کیا کہ وہ دوبارہ کوئی ایسی جرات نہ کرسکیں چنانچہ اس کے بعد پہلے تو عوام کو آہستہ آہستہ غیر ضروری اشیاء کے استعمال کا عادی بنایا گیا کہ اب ان کے بغیر نہ صرف زندگی گزارنا ممکن ہی نظر نہیں آتا، بلکہ یہ عوام کو ”××××ד کرنے کا نکتہ آغاز تھا، عوام نے بھی بخوشی اس تبدیلی کو قبول کرلیا، نہ صرف قبول کرلیا بلکہ عیش و آرام کی زندگی کو اپنا حق سمجھنا شروع کردیا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جدید سائنسی ایجادات کا فائدہ اٹھانا ہر کسی کا حق ہے لیکن اپنی چادر کو دیکھ کر پاﺅں پھیلانا ہی دانشمندی ہے، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی، گھر کو سامان تعیش سے بھرنے کی دوڑ نے آج ہر انسان کو تھکا دیا ہوا ہے، ہر وقت سانس پھولا رہتا ہے، زیادہ کمانے کی دھن اور محنت کی کمائی کو اللوں تللوں میں اڑانے کی روش نے ہمیں گھر کا رکھا نہ گھاٹ کا، کسی نے خود ساختہ مجبوریاں بنا رکھی ہیں تو کسی کو سچ مچ مجبوریوں نے بے کس و بے بس کررکھا ہے۔ غیر محسوس انداز میں عیاشیوں کو ضروریات بنانے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے پر پرزے نکالنے شروع کئے اور دن رات مہنگائی کی جانے لگی تو بجائے اس کے کہ عوام کی جانب سے ان اشیاء کا بائیکاٹ کیا جاتا یا حکومت اور ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قیمتیں کم کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا اور اس مقصد کے لئے احتجاج کیا جاتا، جس کا جس جگہ ہاتھ پڑتا تھا، لوٹ مار شروع کردی گئی، سرکاری ملازمین نے رشوت ستانی کی انتہاء کردی، دکانداروں نے کم تولنے کی، مل مالکان اور ٹریڈرز نے ذخیرہ اندوزی کی، مختصراً یہ کہ جس شعبے کو دیکھیں اس میں ایک ”شاندار“ تنزلی، بے حسی حتیٰ کہ بے غیرتی کا رواج پڑتا گیا۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی، شروع ہوئی تھی ”مردانہ کمزوری“ سے، تو کیا یہ ”مردانہ کمزوری“ نہیں کہ غریب آدمی اپنے بچے تو برائے فروخت کا بورڈ لگا کر بیچنے کو تیار ہوجاتا ہے لیکن مہنگائی کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا، چند مخصوص لوگوں کو چھوڑ کر کوئی بندہ سڑکوں پر آکر اتنی شدید مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے اور حکومت پر دباﺅ ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ بجلی، پانی، گیس، پٹرول۔ ڈیزل، مٹی کے تیل سمیت ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، اب تو اچھے بھلے ، کھاتے پیتے گھرانوں میں گوشت بکرا عید پر پکنے کی نوبت آگئی ہے، دال اورسبزی کی قیمتوں کو بھی ایسے پر لگ گئے ہیں کہ وہ بھی عام آدمی کی بس سے باہر ہوگئی ہیں، باقی ضروریات زندگی بھی ایسی رفتار سے بڑھ رہی ہیں کہ ان کی رفتار کا مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں لیکن پوری قوم کو ایسی بے حسی نے جکڑا ہوا ہے کہ سو جوتے بھی کھاتے ہیں اور سو پیاز بھی لیکن اف تک نہیں کرتے....!عوام تو ”مردانہ کمزوری“ کا شکار ہیں ہی لیکن انہی عوام کا دم بھرنے والے بڑے بڑے لیڈر سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر، بھی عوام سے زیادہ اس کا شکار ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے ہیں، اپوزیشن میں بھی ہیں لیکن کوئی اس مہنگائی پر نہیں بولتا، اگر بولتا ہے تو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے، ایک افراتفری کا عالم ہے، ہر کوئی بھاگا پھرتا ہے لیکن صرف ذاتی فائدے کے لئے، کسی کو اپنے بچوں کے اجتماعی مستقبل کی نہ کوئی فکر ہے نہ اندیشہ! عوام کو کیا لینا دینا سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کے طریقہ کار سے، عوام کا کیا تعلق رہنے دیا گیا ہے جمہوریت سے یا آمریت سے، عوام کا کیا سروکار ہے بین الاقوامی سیاسی کھیلوں یا قومی سیاسی بازی گریوں سے، عوام کا تو مسئلہ ہی اور ہے، جو مہنگائی، کرپشن، اقرباء پروری، امن و امان سے تعلق رکھتا ہے لیکن عوام تو ”مخصوص“ کمزوری کا شکار ہے تو ایسے میں کیا برا ہے اگر کوئی سیاسی حکیم مل جائے جو اس قوم کو اور خصوصاً عوام کو ”مردانہ کمزوری“ کا کوئی نسخہ بتا سکے، یہ کمزوری ختم کرسکے،انہیں اپنے حقوق اور فرائض کا ادراک کرواسکے، انہیں بتا سکے کہ جان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، ایک دن تو مرنا ہی ہے لیکن اگر ایسی کسمپرسی کی موت کو عوام کا نصیب بنا دیا جائے جس میں کفن کے لئے بھی کسی کے اہل خانہ کو قرض لینا پڑے تو لعنت ہے ایسی زندگی پر، لعنت ہے ایسی حکومتوں اور ایسے سیاستدانوں پر، عوام اکیلی کیوں مرتی ہے، کیوں اپنے بچوں کو بیچنے پر تیار ہے، کیوں لوگ کھل کر نہیں بولتے، کیوں لائنوں میں لگ کر ، بل بھی ادا کرتے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھاتے ہیں، آخر کب تک یہ تماشہ ہوتا رہے گا، آخر کب عوام ”مردانہ وار“ ان بے غیرتیوں اور بدمعاشیوں کا مقابلہ کرنے کا ٹھانیں گے، آخر کب....؟

تو ہے کوئی سیاسی حکیم جو عوام کو ”مردانہ قوت“ کا ”کشتہ“ دے سکے، جسے کھا کر، جس کے استعمال سے عوام کی بے حسی اور لاتعلقی کا خول ٹوٹ جائے، کوئی ہے؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207320 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.