مضرصحت ،خوراک، مشروب، مٹھائی اورایک خدشہ
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
خوراک کی انسان کی زندگی میں کیااہمیت ہے۔
اس سے ہرشخص بخوبی واقف ہے۔خوراک متوازن اورحفظان صحت کے اصولوں کے مطابق
ہوگی تواس کے انسان کی صحت پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے اس کے برعکس خوراک
ناقص ، مضرصحت اورغیرمعیاری ہوگی تواس کے انسان کی زندگی اورجسم پرمنفی
اثرات مرتب ہوں گے۔ناقص خوراک کی وجہ سے ہی معدہ اورپیٹ کے امراض عام پائے
جاتے ہیں۔ڈاکٹررات کو،صبح یادوپہرکوکیاکھایاتھا کاسوال اس لیے کرتاہے تاکہ
مرض کی تشخیص میں آسانی ہوسکے۔کیونکہ اس مرض کی بنیاداس مریض کی خوراک ہی
ہوتی ہے۔ڈاکٹریاحکیم مختلف مریضوں کوپرہیزبھی بتاتے ہیں اسی پرہیزمیں وہ
مریض کوبعض چیزیں کھانے سے روک دیتے ہیں ۔ اس مقصدصرف اورصرف یہ ہوتاہے کہ
مریض جلدسے جلدصحت یاب ہواس کی صحت پرمنفی اثرات مرتب نہ ہوں۔اس سے بخوبی
اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ انسان کی زندگی اورصحت میں خوراک کی کیااہمیت
وافادیت ہے۔انسان کوجان سے مارنے کے جتنے بھی طریقے ہیں ان میں کھانے
یامشروب میں زہرملاکرکھلانایاپلانا بھی شامل ہے۔خوراک میں زہرملانے کاسلسلہ
کئی صدیوں سے جاری ہے۔خوراک میں زہرملانے یامل جانے کے واقعات میں اب تیزی
آرہی ہے۔ایسے واقعات اتفاقیہ بھی ہوسکتے ہیں اورجان بوجھ کربھی کیے جاسکتے
ہیں۔ایسے ہی چندواقعات اس تحریرمیں شامل کیے جارہے ہیں تاکہ بات سمجھانے
اورسمجھنے میں آسانی رہے۔رواں سال کے بیس ستمبرکے قومی اخبارمیں ڈیرہ غازی
خان سے خبرہے کہ گدائی پولیس کے مطابق ڈیرہ غازی خان تھانہ گدائی کے علاقہ
گلشن اعجازکالونی میں زہریلادودھ پینے سے تین ،بچوں اورخواتین سمیت آٹھ
افرادکی حالت غیرہوگئی متاثرہ افرادکوٹیچنگ ہسپتال منتقل کردیاگیا۔انتیس
ستمبرکے اسی اخبارمیں خانیوال سے خبرہے کہ مضرصحت دودھ پینے سے بستی پیرایک
ہی گھرکے پانچ افرادکی حالت شدیدغیرہوگئی۔جن میں تین تین سال کے دوکمسن بچے
بھی شامل ہیں۔حالت غیرہونے پرتمام متاثرہ افرادکوڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل
کردیاگیا۔بارہ اکتوبر کے ایک اورقومی اخبارمیں وہواسے خبرہے کہ وہواکے وارڈ
درولی کے قریب خواتین کپاس کی فصل چننے میں مصروف تھیں کہ اس دوران زہریلی
لسی پینے سے متعدد خواتین کی حالت غیرہوگئی متاثرین کوتحصیل ہسپتال تونسہ
شریف داخل کرادیاگیا۔تیرہ اکتوبرکے ایک قومی اخبارمیں اوچ شریف سے خبرہے کہ
مضرصحت پانی پینے سے اوچ شریف میں چارہفتوں میں ایک ہی خاندان کے سات
افرادہلاک ہوگئے۔ستائیس اکتوبرکے قومی اخبارات میں ملتان، مظفرگڑھ، کوٹ ادو،
راجن پور ،جام پوراوردیگرشہروں سے مشترکہ خبرہے کہ تحصیل علی پورکے تھانہ
کندائی کے دریاپارکچہ کے علاقہ موضع والوٹ کی بستی لاشاری میں چوبیس
اکتوبرکوایک ہی خاندان کے پندرہ افرادنے دوپہرکوزہریلی لسی پی ،لسی کے پینے
سے تمام افرادکی حالت بگڑتی چلی گئی۔جنہیں کسی ہسپتال میں لے جانے کے بجائے
دیسی ٹوٹکوں سے علاج شروع کردیاگیا۔جنہیں پچیس اکتوبرکوڈسٹرکٹ ہیڈ
کوارٹرہسپتال راجن پوراورڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال ڈیرہ غازی خان داخل
کرادیاگیاتھا۔ لیکن انتہائی تشویش ناک حالت کے پیش نظرڈاکٹرزنے تمام مریضوں
کونشترہسپتال ملتان ریفرکردیاجہاں رات دس بجے زندگی اورموت کشمکش کے
بعدپانچ افرادنے دم توڑ دیا جبکہ لسی پینے والے چھٹے متاثرہ بارہ سالہ
اورنو سالہ دولڑکوں اورایک خاتون نے نشترہسپتال ملتان میں دم توڑدیااس طرح
مرنے والوں کی تعدادآٹھ ہوگئی۔ نشترہسپتال میں داخل زہریلی لسی پینے سے
متاثرہ باقی افرادمیں سے مختلف اوقات میں اموات ہوتی رہیں اخبارات کے مطابق
زہریلی لسی سے متاثرہ مرنے والے افرادکی تعدادپندرہ ہوگئی ہے سات افراداب
بھی نشترہسپتال ملتان میں زیرعلاج ہیں۔ متاثرین کی تعدادپندرہ نہیں ۳۲
ہے۔میڈیاپرخبریں آنے کے بعد سرکاری مشینری حرکت میں آئی۔اطلاع ملنے پرڈی سی
راجن پور، اے سی راجن پور،اے سی علی پور، ڈی ایس پی علی پور، ای ڈی اوہیلتھ
،ڈی ایچ اومظفرگڑھ، راجن پوراورمظفرگڑھ سے محکمہ صحت کی ٹیمیں
،ریسکیو۲۲۱۱کی ٹیمیں ایس ایچ اوتھانہ کندانی، چیئرمین یونین کونسل لنگرواہ
اوردیگرمعززین دریاپارکچہ کے علاقہ میں پہنچ گئے۔جہاں پرپولیس کی نگرانی
میں ڈپٹی ڈی ایچ اوعلی پورنے لاشوں کاپوسٹ مارٹم شروع کردیاتاکہ اصل حقائق
تک پہنچاجاسکے۔ڈی ایس پی علی پورنے صحافیوں کوبتایاکہ متاثرین کوقے آناشروع
ہوئی توانہوں نے اندازہ لگایا کہ شایدلسی پینے سے یہ قے شروع ہوئی
ہے۔اورشایدلسی میں چھپکلی گرکرمرگئی تھی جولسی بناتے وقت گرینڈہوچکی
تھی۔اصل حقائق پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعدمعلوم ہوسکیں گے۔ڈپٹی کمشنرراجن
پوراشفاق احمدچوہدری زہریلی لسی پینے والے متاثرین کے خاندان سے ہمدردی کے
لیے ان کے گھرتھانہ کندائی تحصیل علی پوربستی لاشاری پہنچے۔ڈی سی راجن
پورکے ساتھ دیگرافسران بھی موجودتھے۔ڈی پی او مظفر گڑھ کے دفترمیں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے آرپی اوڈیرہ سہیل تاجک اورڈی پی اواویس احمدکاکہناتھا کہ
چوبیس اکتوبرکوستائیس افرادنے زہریلی لسی پی۔جس کے باعث تیرہ افرادجاں بحق
ہوئے۔ورثاء قانونی کارروائی سے انکارکرتے رہے تاہم پولیس نے سائنسی طریقہ
تفتیش اپناتے ہوئے تیرہ افرادکی ہلاکت کامعمہ حل کرلیا۔لسی میں چوہے
مارزہرملایاگیاتھا۔آرپی اوڈیرہ کے مطابق متاثرہ خاندان کی بہوشاہدسے پسندکی
شادی کرناچاہتی تھی مگراس کی شادی امجدسے کردی گئی ۔متاثرہ خاندان کی
بہوچندروزقبل میکے گئی جہاں سے اسے زبردستی سسرال بھجوایاگیاتھا۔آرپی
اوسہیل تاجک کے مطابق اس بہونے آشناشاہدکے ذریعے چوہے
مارزہرمنگوایااورشاہداوراس کی ممانی کے مشورے سے دودھ میں ملادیا۔جس کے
ذریعے لسی بنائی جانی تھی۔بعدازاں ستائیس افرادنے لسی پی جس کے باعث بچوں
اورخواتین سمیت تیرہ افرادجاں بحق ہوگئے۔واقعہ میں ملوث بہو، شاہداوراس کی
ممانی کوگرفتارکرلیاگیا۔ملزمان کے خلاف تھانہ کندائی میں انسداددہشت گردی
کی دفعہ سمیت دیگردفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا۔ملزمان سے وہ پڑیابھی
برآمدکرلی گئی جس میں زہرمنگوایاگیاتھا۔اس موقع پرمیڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے
ملزمہ بہونے خودپرلگے الزام کومستردکردیااس کاکہناتھا کہ شاہدنے اسے چائے
کی سفیدپتی لاکردی جسے اس نے لسی میں ملایا۔اس نے لسی میں زہرملانے سے
لاعلمی کااظہارکیا۔یکم نومبرکے ایک قومی اخبارمیں جہانیاں اورکبیروالاسے
مشترکہ خبرہے کہ جہانیاں کے نواحی چک نمبرایک سواڑتالیس دس آرمیں اہل خانہ
نے چائے بناکرپی جس سے ان کی حالت غیرہوگئی ۔چاروں کوتشویش ناک حالت میں
تحصیل ہسپتال منتقل کردیاگیا۔دوافرادجاں بحق ہوگئے جب کہ
دوافرادکونشترہسپتال منتقل کردیاگیا۔مقامی نوجوان غلام فریدآرائیں نے
خانیوال روڈ پرایک نجی شوارماپوائنٹ سے شوارماکھایاجسے کھانے سے اس کی حالت
غیرہوگئی اسے مقامی سول ہسپتال پہنچایاگیا تاہم تشویش ناک حالت کے باعث
ملتان کے پرائیویٹ ہسپتال لے جایاگیاجہاں آپریشن کرکے زہریلاموادنکال
دیاگیا۔عالمی یوم خوراک کے موقع پرفوڈ اتھارٹی اوردیگراداروں کے زیراہتمام
اچھی اورمتوازن غذاکی اہمیت اجاگرکرنے کے لیے سیمینارزکاانعقاد کیا گیا ۔
سیمینارزمیں کہاگیا کہ آلودہ خوراک اورمناسب حرارے نہ رکھنے والی غذائیں
استعمال کرنے سے امراض بڑھ رہے ہیں ۔سیمینارزمیں یہ بھی کہاگیا کہ فاسٹ فوڈ
صحت کے لیے مضر ہیں۔ٍ فیصل آبادڈویژن میں جھنگ ،چنیوٹ،ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت
مختلف علاقوں ایک ہزارچارسواڑتالیس کنال پراگائی گئی زہریلی سبزیاں تلف کی
گئیں ۔ اس حوالے سے ڈی جی فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کاکہناتھا کہ سبزیاں
صرف غیرآلودہ پانی سے اگانے کی اجازت ہے ایسے پانی سے کاشتکارصرف متبادل
فصلیں اگائیں زہریلے پانی سے اگنے والی سبزیوں میں ٹیکسٹائل ویسٹ ،
کیمیکلزاوردیگرزہریلے مادے شامل ہوکرخوراک کاحصہ بنتے ہیں جوانسانوں کے لیے
خطرناک بیماریوں کاسبب بنتی ہیں۔پنجاب فوڈ اتھارٹی رحیم یارخان کی ٹیم
ڈسپوزل ورکس حکیم آبادپہنچ گئی جنہوں نے ڈسپوزل ورکس کے گندے پانی سے اگائی
جانے والی مختلف سبزیوں کاجائزہ لے کرانہیں مضرصحت قراردیا۔انہوں نے سبزیاں
اگانے والے افرادکوہدایت کی کہ وہ ایک ہفتہ کے اندرتمام کاشتہ سبزیاں تلف
کردیں اگرایک ہفتہ تک اس پرعمل نہ گیاتوکاشتکارکے خلاف پنجاب فوڈ ایکٹ کے
تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اخبارات میں خبریں شائع شدہ مزیدخبریں اس طرح بھی ہیں کہ چاول کھانے سے
اتنے افرادکی حالت غیرہوگئی۔ سویاں کھانے سے اتنے افرادہسپتال پہنچ گئے۔سیب
کھانے سے اتنے افرادکی حالت غیرہوگئی۔ اس طرح کھانے پینے کی مختلف چیزیں
کھانے سے متعددافرادکی حالت غیرہوگئی۔کھانے پینے کی چیزوں میں زہرجان بوجھ
کربھی ملایاجاسکتاہے اورغلطی یالاعلمی کی صورت میں بھی ایساہوسکتاہے ۔خوراک
یامشروب میں زہرملایاجائے یامل جائے دونوں صورتوں میں قیمتی جانیں ہی ضائع
ہوتی ہیں اورانسانی صحت کانقصان ہی ہوتاہے۔لیہ کے نواحی چک میں زہریلی
مٹھائی کھانے سے ایک خاندان کے تیس سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔لیہ
کے نواحی قصبہ جمن شاہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے چندافرادکی حالت
غیرہوگئی ۔جوبعدمیں صحت یاب ہوگئے۔جودہشت گردی ہتھیاروں اورخودکش حملوں کی
صورت میں جاری ہے۔ اس میں توافواج پاکستان اورحکومت پاکستان کی کوششوں میں
نمایاں کمی آچکی ہے۔جس طرح جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی اس کے لیے
اورذرائع بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔جس طرح بھارت پاکستان کاپانی روک لیتا
ہے جس سے خشک سالی کے آثار پیداہوجاتے ہیں ۔پھروہ ذخیرہ شدہ پانی یکدم
چھوڑدیتاہے جس سے سیلاب آجاتاہے۔ اسی طرح دہشت گردی کے لیے بھی خودکش حملوں
اورروایتی ہتھیاروں کی جگہ دیگرذرائع بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔آگ لگائے
جانے کے واقعات توہوچکے ہیں۔دہشت گرداپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لیے
مٹھائی کااستعمال بھی کرسکتے ہیں۔مولاناغفورحیدری کے گھربھی زہریلاحلوہ
کھانے سے علماء کرام کی حالت غیرہوگئی تھی انہیں ہسپتال داخل
کرادیاگیاتھا۔حکومت پاکستان اور افواج پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کے
سدباب کے لیے دیگرآپشنز کااستعمال کیا اب مٹھائی کے آپشن پربھی غورکریں۔
دہشت گردمٹھائیوں میں بھی زہرملاسکتے ہیں۔جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی آمدآمدہے۔ بارہ ربیع الاول کے مبارک دن جشن عیدمیلادالنبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لاکھوں افرادشرکت کرتے ہیں اورملک بھرمیں سرکاری
اخراجات میں میلاد کمیٹیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں
ہرسال ہزاروں من مٹھائی تقسیم کرتی ہیں ۔ جودہشت گردنوگوایریازمیں
کارروائیاں کرسکتے ہیں ان کے لیے مٹھائی میں زہرملاناکون سامشکل کام
ہے۔خدانخواستہ کسی ایک شہرمیں بھی ایساہوگیاتوپاکستان کی تاریخ کاسب سے
بڑاسانحہ ہوگا۔ اس سے پہلے کہ ایساسانحہ اوراس کے بعدہم جاگیں بہترہے کہ
حفظ ماتقدم کے تحت اس کے سدباب کے لیے پہلے ہی اقدامات کرلیے
جائیں۔بہترتویہی ہے کہ ملک بھرمیں عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے جلوسوں کے افتتاحی پروگراموں سمیت دیگرپروگراموں میں مٹھائی تقسیم کرنے
پرپابندی لگادی جائے۔لنگرتقسیم کرنے کامتبادل انتظام کیاجائے ۔ بہترہوگا کہ
شرکاء میں فی کس پچاس روپے تقسیم کیے جائیں ۔ اس سے وہ جوچاہیں
خریدکرکھالیں۔ایسے پروگراموں میں مٹھائی یاکوئی اورکھانے کی چیزتقسیم
کرناضروری ہوتومٹھائی یاکوئی اورچیزتیارکرانے اورتقسیم کرنے کی ذمہ داری
فوڈ اتھارٹی کی ہونی چاہیے۔فوڈ اٹھارٹی خودہی ملک بھرمیں مٹھائی تیارکرے
یاکرائے اورخودہی اپنی نگرانی میں تقسیم بھی کرے۔صوبائی حکومتوں، ضلعی
انتظامیہ اورمیونسپل کمیٹیوں کی جانب سے جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی مٹھائی کے تمام ترفنڈزصرف اورصرف فوڈ اتھارٹی کوہی دیے جائیں
یہ فنڈزکسی اورسرکاری ادارے میلادکمیٹیوں سمیت کسی کونہ دیے جائیں ۔دہشت
گردوں کے ممکنہ عزائم کوناکام بنانے کے لیے مٹھائی کی تیاری اورتقسیم کی
ذمہ داری فوڈ اتھاٹی کو سونپنا بہت ضروری ہے۔مٹھائی کی آڑمیں ذاتی مفادحاصل
کرنے والے مٹھائی تقسیم کرنے کے اس نئے فارمولاکی مخالفت کرسکتے
ہیں۔میلادمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگرپروگراموں میں بازارسے
مٹھائی وغیرہ خریدنے کی بجائے گھروں میں کوئی چیزپکاکرتقسیم کی جائے
توبہترہے ۔ اس طرح تخریب کاری کے امکان کم ہوتے ہیں۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.