دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ سہی مگر جس نقصان سے پاکستان
کو گزرنا پڑا وہ کسی دوسری ملک کونہیں ہوا۔اب جبکہ دہشت گردی کا دیو بڑی حد
تک قابو میں آچکا۔پاکستان کو کچھ سکون نصیب ہواہے۔نیٹو کے دیگر ممالک بھی
اب نئے حالات کے مطابق اپنی ترجیحات مرتب کررہے ہیں۔اکا دکا دہشت گردی کے
واقعات بھلے ہی اب بھی ہوتے رہتے ہیں۔مگران کے مقاصد اور شدت اب ویسی نہیں
جو ماضی قریب میں دیکھی گئی۔دہشت گرد کے بچے کھچے دھڑے اب اس خطے سے تعلق
نہیں رکھتے جو ماضی میں دہشت گردوں کا گڑھ تصور کیا جاتاتھا۔جسے دہشت گردوں
کے محفوظ ٹھکانے قراردیا جاتاتھا۔بد تدریج یہاں سے ان کا خاتمہ ہوتاچلا
گیا۔ان کے خلاف اس قدر موثر کاروائیاں ہوئیں کہ یا تو وہ مارے گئے۔یہاں ان
ٹھکانوں کو چھوڑ گئے۔اس ہزیمت کی ایک بڑی وجہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کا
بدلتا امیج بھی تھا۔اکثریتی متحارب دھڑے خود کو نام نہاد اسلامی جہادی
کہلواتے تھے۔اپنے مخالفین کو وہ اسلام دشمن کہتے اور ان کے خلاف لڑنے کو
جہاد۔ان کے اس پراپیگنڈے کے سبب انہیں عوام کی خاموش حمایت حاصل تھی۔یہ
حمایت بد تدریج گھٹنے کے بعد ان جنگجوؤں کو سوائے میدان چھوڑنے کے کوئی
راستہ نہ تھا۔یہ حمایت ان حالات میں مذید تقویت پکڑگئی جب عوام کو اپنے
حکمران کرپٹ اور یہودو نصاری کے پٹھو محسوس ہوئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ
حمایت قائم رکھنا ان جنگجوؤں کے لیے ممکن نہ رہا۔
لگتاہے پاک امریکہ تعلقات ایک بار پھر نئی کروٹ لینے جارہے ہیں۔ امریکہ کی
طرف سے خودغرضانہ رویہ مسلسل بڑھتا جارہاہے۔ایک وقت تھا۔جب وہ پاکستان پر
نوازشا ت کی بارش کررہا تھا۔تب اسے پاکستان کی کوئی کوتاہی نظر نہ آتی
تھی۔پاکستان کو ٹررزم کے خلاف سپورٹ کرنے کے بھاری فند دیے گئے۔تب پاکستان
کے دشمن امریکہ کے دشمن تھے۔ان دنوں بھارت اور افغانستان سے متعلق امریکہ
موقف وہی تھا جو پاکستان رکھتاتھا۔پاکستان کے دوستوں کے دوست بھی امریکہ کی
توجہ سے مستفید ہوتے رہے۔اب جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کا مشن بڑی حد تک مکمل
ہوچکا۔اب امریکہ کو پاکستانی فورسز کی وہ محتاجی نہیں رہی جو ماضی قریب میں
تھی۔آج جب اس کی ضروت پوری ہو چکی توامریکہ کے انداز بدل رہے ہیں۔اس کی طرف
سے ڈور مور کے مہذبانہ انداز میں دھمکیاں شروع ہوچکی ہیں۔اس حقیقت کے
باوجود کہ پاکستان ساتوں قبائلی ایجنسیوں کا کنٹرول مکمل طورپر سنبھال
چکاہے۔امریکہ اس حقیقت کو ماننے کو تیارنہیں کہ ان علاقوں سے حقانی گرو پ
کا مکمل طور پر صفایا ہوچکاہے۔امریکہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہاہے کہ
وہ حقانی گروپ او ربھارت مخالف جنگجوؤں کے ٹھکانو ں کا خاتمہ کیا جائے۔جب
کہ پاکستان کا موقف ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے کسی گروپ کا کوئی منظم
ڈھانچہ موجود نہیں۔امریکی سیکرٹری ٹیلرسن نے بتایاہے کہ پاکستان امریکہ کی
طرف سے فراہم کردہ قابل قدر معلومات شئیر کرنے پر کاروائی کے لیے تیار
ہوسکتاہے۔حالیہ دنوں میں کینیڈین جوڑے کی بازیابی اس ضمن کی مثال ہے۔
پاکستان کی کوشش سے دہشت گردی کادیو کنٹرول کیا جاچکا۔مشر ف اور زرداری دور
کی نالائقیوں کے سبب یہ معاملہ بگڑاتھا۔اب مناسب حکمت عملی کے ذریعے یہ
بگاڑ دور کرلیا گیا۔دہشت گردوں کے خلاف اپریشن کو عوام کا اعتماد حاصل
تھا۔دراصل اس اعتماد نے ہی اس اپریشن کی کامیابی کی را ہ ہموار کی۔اگر ماضی
کی طرح عوام دہشت گردوں کے بعض دھڑوں کی طرف سے نام نہاد جہادی پراپیگنڈے
کو قبول کرتے رہتے تو یہ اپریشن کارگر ثابت نہ ہوتا۔خود ساختہ اسلامی
مجاہدین کی طرف سے عبادت گاہوں۔مزاروں۔او ردرس گاہوں پر حملوں کی ذمہ داری
قبول کرنے کے بعد عوام کے پاس اپنی خاموش حمایت واپس لینے کے سو ا کوئی
چارہ نہ تھا۔ان کے لیے یہ بات ہضم کرنا آسان نہ تھی کہ خود کو اسلامی خدمت
گارقرار دینے والا کوئی گروہ عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنا سکتاہے۔اسے
درباروں اور مزاروں سے بھی اس قدر بے زاری ہوسکتی ہے۔کہ وہ ان بزرگان کی
آخری آرام گاہوں کو نشانہ بنانے لگے۔معصوم بچوں کو نشانہ بنانے کی زمہ داری
جب اس طرح کے نام نہاد اسلامی مجاہدین کے گروہوں کی طرف سے قبول کی جانے
لگی۔تو عوام کے پاس اپنے دلوں میں قائم ان لوگوں کا احترام اکھاڑ پھینکنے
کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔اس طرح کے جنگجو ؤں کے خلاف عوامی بے زاری دراصل
یہ ثبو ت تھی ناانصافی اور لادینیت کا رویہ اسے کسی صورت قابل قبول
نہیں۔غیرانسانی کردار کرنے والے بالکل ناقابل قبول ہیں۔ |