سندھ کے شہر کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہر طرف اندھیر
نگری چوپٹ راج قائم ہے۔ اس کے معصوم لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرتے اب عادت
سی ہوگئی ہے اگر کبھی غلطی سے کچھ اچھا ہو جائے تب بھی دل ناداں کو آسانی
سے یقین نہیں ہو پاتا اور جو اچھا ہوا ہو اس کی مکمل تصدیق ہو جانے پر ہی
دل ناداں کہتا ہے کہ چلو اپنے مفاد میں زیادہ اور عوام کے حق میں چلو برابر
ہی سہی ان موروثی حکمرانوں سے کچھ تو بھلا ہوا۔ کراچی دنیا کا تیسرا اور
پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی لگ بھگ 2 کروڑ سے زائد ہے یہ بات
الگ ہے کہ مردم شماری میں شہر قائد کی آبادی کو اپنے مفادات یا یوں کہا
جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچا تانی میں مصروف
سندھ کی 2 بڑی جماعتوں نے ہمیشہ کی طرح روایتی سیاست کرتے سارا وقت برباد
کردیا اور اس بات کا پورا فائدہ پنجاب کو ہی ملا جو برسوں سے ہوتا چلا آ
رہا ہے۔ آدم شماری کا نتیجہ اس وقت تک پنجاب کے حق میں آئے گا جب تک مردم
شماری کے پورے عمل پر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان شروع سے آخر تک کڑی
نگاہ نہ رکھیں ورنہ پنجاب اپنی آبادی میں اضافہ کرکے تینوں صوبوں کی حق
تلفی کرتا رہے گا کیونکہ پاکستان کے آئین میں لکھ رکھا ہے کہ آبادی کی
بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی جائے جبکہ موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ مسائل کی
بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہو۔ جب مسائل کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوگی تب
جا کے غربت اور بنیادی مسائل کے خاتمے کے ساتھ پاکستان میں ناصرف امن
وشانتی کے بادل منڈلائیں گے بلکہ سارے صوبے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی
منازل طے کرتے جائیں گے کیونکہ عالمی اور فطری تحقیق کہتی ہے کہ جہاں
خوشحالی ہو، روزگار ہو، سستا اور فوری انصاف میسر ہو وہاں جرائم کی شرح بھی
کم ہوتی ہے۔ کراچی کو پاکستان کا معاشی حب بھی کہا جاتا ہے لیکن اس پر
برسوں سے برسراقتدار رہنے والوں نے اس کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں والا سلوک
ہی رواں رکھا۔ کراچی کو انتظامی طور پر 6 اضلاع وسطی، غربی، شرقی، جنوبی،
کورنگی اور ضلع ملیر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس شہر کی تاریخ صدیوں پرانی
ہے۔ اس کا پہلا نام دبیل جو آگے چل کر کولاچی اور بعدازاں کراچی رکھ دیا
گیا اور اب پھر سے سندھ حکومت کراچی کا نام تبدیل کرکے کولاچی کردینے کی
خواہشمند ہے۔ کراچی کو پاکستان کے پہلے دارالخلافہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل
ہے۔ گذشتہ 30 برس سے اس شہر میں مقیم لوگوں کی حق تلفی کا نہ ختم ہونے والا
سلسہ جاری ہے۔ سندھ کا شہر کراچی مسائلستان بن چکا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ
یہاں ٹریفک جام کا ہے جس کی بڑی وجہ نئی سڑکوں کا نہ بننا اور جو سڑکیں
غلطی سے بن چکی ہیں ان کی مرمت نہ ہونے کے ساتھ برسراقتدار حکمرانوں کا بھی
اس میں مرکزی کردار ہے کیونکہ خود کو عوامی نمائندے کہنے والے جب سڑکوں پر
اپنے کسی کام سے نکلتے ہیں تو انہیں سیکورٹی کا مسئلہ یاد آ جاتا ہے اور
اپنی جان کی حفاظت کیلئے یہ ان شاہراؤں کو عوام کی آمدورفت کیلئے بند
کردیتے ہیں جہاں سے انہیں گزرنا ہوتا ہے۔ لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب یہ
مفاد پرست کسی ٹی وی چینل کے پروگرام یا پریس کانفرنس میں خود کو عوامی
نمائندہ اور خادم کہتے دکھائی دیتے ہیں اور خاص کر عام انتخابات قریب آنے
سے چند ماہ قبل ان کی ڈکشنری سے ڈر خوف مٹ جاتا ہے ہیں ووٹوں کی بھیکمانگنے
کیلئے یہ مفاد پرست گلی گلی، گاؤں گاؤں اور گھر گھر جا کر عوام میں اس طرح
گھل مل جاتے ہیں کہ جیسے عوام کا اور ان کا خون کا رشتہ ہو۔ بس الیکشن سے
چند ماہ قبل ان کے عوامی اور قومی مفادات کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں
کی ٹوکری کا منہ کھل جاتا ہے جبکہ حقیقی طور پر عوامی نمائندگی کے یہ
دعویدار عوام میں جانا تو درکنار سڑکوں سے اپنی گاڑیوں میں گزرتے وقت بھی
عوام کے قریب سے گزرنا پسند نہیں کرتے اور شاید ان کی یہ سوچ ایک لحاظ سے
درست بھی ہے کیونکہ یہ زندہ رہیں گے تب ہی عوام کی خدمت کے نام پہ لوٹ
کھسوٹ کر سکیں گے۔کراچی کے باسیوں کو ہر دور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
ہے۔ پہلے یہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، ایک طویل عرصے بعد سیکورٹی
اداروں کی بے شمار قربانیوں کے مرہون منت کسی حد تک دہشت گردی سے جان بخشی
ہو پائی ہے تو لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ، قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے نادرا
کی ہٹ دھرمی، سیورج کے ناقص سسٹم کے باعث گلی محلوں میں ابلتے گٹر، جگہ جگہ
منہ چڑاتے گندگی کے ڈھیروں اور پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام کے
مسائل نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور سونے پہ سہاگہ ٹریفک جام روز کا معمول
بن چکا ہے۔ ایک خاص شخص کا قول ہے کہ کسی قوم اور حکومت کے بارے میں اچھی
یا بری رائے قائم کرنی ہو تو سب سے پہلے ان کے واش رومز، سڑکیں اور گلی
محلوں کی حالت دیکھ لی جائے اگر یہ سب درست اور ان کی صفائی ستھرائی کا
خیال رکھا گیا ہو تو اس قوم یا حکومت کو اچھے ہونے کا اعزاز دیا جائے ورنہ
منفی رائے قائم کرنے میں دیر نہ کی جائے۔ جب تک یہ تمام چیزیں درست نہ ہوں
تو بیرون ممالک سے آنے والوں کے ذہن میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ اس ملک کے
لوگ حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے یا حکومت لٹ دا مال سمجھ کر عوام سے مختلف
ٹیکسز کی مد میں حاصل رقم اپنی شاہ خرچیوں پر خرچ کر رہی ہے۔ اس بات کا
جواب تو برسوں سے برسراقتدار رہنے والے موروثی حکمران ہی دے سکتے ہیں کہ
کیا واقعی انہیں ووٹ کی طاقت سے ہر بار اپنے مسائل کے حل کیلئے اقتدار کے
ایوانوں تک پہنچانے والے عوام سہی نہیں یا یہ خود سہی نہیں۔
|