پشاورسے قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی الیکشن کوقومی
میڈیاکے بعض حلقے صوبائی حکومت کی اعلیٰ کارکردگی قراردے رہے ہیں ان میں سے
ایک صاحب نے تو ٹی وی سکرین کے سامنے اس بات کااعتراف بھی فرمایاکہ وہ دس
بارہ سال سے پشاورتشریف ہی نہیں لائے کچھ اسی سے ملتی جلتی حالت ان تمام
تجزیہ نگاروں کی بھی ہے جوصوبائی حکومت کوایک انقلابی حکومت سمجھتے ہیں
اوران کاخیال ہے کہ خیبرپختونخواکی موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے کی تقدیرکے
ساتھ ساتھ اس کی شکل بھی بدل کے رکھ دی ہے حالانکہ ایسابالکل نہیں اس صوبے
کو2013کے انتخابات میں ایک روایتی لولی لنگڑی ’’کہاں کی اینٹ کہاں کاروڑا،
بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ سے مشابہہ ناتجربہ کاراورغیرسنجیدہ حکومت ملی شروع
کے چھ مہینے میں چھ مرتبہ ہی کابینہ اراکین کوردوبدل کے عمل سے گزرناپڑااس
ایک حکومت کے اب تک تین وزرائے خزانہ کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں
ناکام رہے گزشتہ پانچوں صوبائی بجٹس عوام کوکوئی ریلیف فراہم نہ کرسکے بجلی
اورگیس کے محکموں نے عوام کاجینادوبھرکررکھاہے صوبائی حکومت زیادہ سے زیادہ
اس ناانصافی اورظلم کووفاق کے کھاتے میں ڈالکربزعم خود برالذمہ ہوجاتی ہے
یہ محکمے اگرچہ وفاقی ہیں مگریہاں رٹ توصوبائی حکومت کی ہے گیس اوربجلی کے
بڑے چوروں کوپکڑناصوبائی حکومت کی ذمے داری ہے مگراس ذمے داری کوپوراکرنے
کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی چند بااثرافراد،ادارے ،پلازے ،کارخانے
اورمحل والے دھڑلے سے بجلی اورگیس چوری کررہے ہیں جس کی سزاعوام کو دی
جارہی ہے مگرعوام کی فریادوفاق تک کیاپہنچے گی صوبائی تک نہیں پہنچ
پارہی،تعلیم میں انقلابی اصلاحات کاڈھنڈورابھی اس وقت بیکارگیاجب میٹرک کے
گزشتہ امتحانات میں سرکاری سکولوں سے کسی طالبعلم نے بیسویں پوزیشن بھی
حاصل نہیں کی اساتذہ ہڑتال پرہیں اوروہ بنی گالہ اورپشاورمیں سڑکوں
پرخوارہورہے ہیں امتحانات آرہے ہیں مگرحکومت کویہ پتاتک نہیں کہ اسکی سستی
اورقوت فیصلہ کی کمی سے تعلیم کاکس قدربیڑاغرق ہورہاہے کوئی نئی یونیورسٹی
بنانے کی بجائے گزشتہ حکومت کے قائم کردہ کیمپس کویونیورسٹیوں کادرجہ
دیاگیاان میں سے ایک یونیورسٹی گرلزپرائمری سکول میں قائم ہے جس سے ’’اعلیٰ
معیارتعلیم‘‘ کے دعوے ٹھس ہوجاتے ہیں ہربجٹ میں 70%فنڈزلیپس کرنے والی
حکومت نے کسی میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیاہوگایہ شیخ چلی کی کہانیوں
میں ضروراضافے کاباعث بن سکتاہے زمین پربسنے والوں کواس کاکوئی فائدہ نہیں
اس حکومت کاسب سے بڑامسئلہ ہی یہی چلاآرہاہے جوعمران خان کے منہ سے رواروی
میں نکلاکہ ’’ایک سال تک کسی پتانہیں تھاکہ کیاہورہاہے؟‘‘اس حکومت کے پاس
اب بھی وہی ناتجربہ کار،بے صلاحیت اورنااہل ٹیم موجودہے وزرات اطلاعات
ونشریات گزشتہ چارسال سے تجربہ گاہ بناہواہے ڈمی اخبارات ورسائل کوتھوک کے
حساب سے اشتہارات دئے جارہے ہیں کبھی کسی کواس محکمے کاوزیرلگایاجاتاہے ،
کبھی دوسرے کومشیربنایاجاتاہے اورکبھی محکمے کو’’خالی‘‘چھوڑدیاجاتاہے
محکمہء صحت کی حالت کاتوڈینگی سے سب کواندازہ ہوگیاہوگاکہ ایک معمولی
مچھرنے ڈھائی مہینے میں کس طرح سترسے زائدافرادکولقمہء اجل بنایامگراس عظیم
محکمے کوتین مہینے تک متاثرہ علاقوں میں زوداثرمچھرمارسپرے کرنے کی توفیق
نہ ہوسکی جن علاقوں میں سپرے کیاگیااس کامعیارانتہائی ناقص تھاجس سے
مچھرختم ہونے کی بجائے بڑھ گئے اس سپرے میں کرپشن کے جوقصے سامنے آئے اس
پرالگ سے ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے موجودہ صوبائی حکومت کرپشن میں کوئی
کمی لانے کی بجائے اس میں بڑھاوے کاباعث بنی ہے 90%تعمیراتی کاموں کے ٹھیکے
کونسلرز،ناظمین ،ڈسٹرکٹ وتحصیل کونسلز ممبران،سرکاری افسران کے رشتے داروں
یاایم پی ایز،ایم این ایزکے بھائی بھتیجوں کے پاس ہیں ’’حکومتی جیب ‘‘ سے
جب 100روپے نکلتے ہیں توعوام تک پہنچتے پہنچتے یہ 25سے30روپے رہ جاتے ہیں
بقیہ رقم راستے کے مگرمچھ ہڑپ کرجاتے ہیں اوران مگرمچھوں کی اکثریت حکومتی
حامی ہے جس کی وجہ سے روایتی طورپرناہی یہاں کرپشن پرکوئی ہاتھ ڈالاجاسکاہے
اورناہی کرپشن کاکوئی بڑاکیس پکڑاگیاہے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ احتساب
کمیشن بنایاگیامگراس نے جوسب سے پہلاکیس پکڑاوہ حکومتی رکن کاتھابس
پھرکیاتھاآج احتساب کمیشن اس قوم کے اربوں روپے کھاکرزندہ ہے مگراسکی اس
زندگی کاعوام کوکوئی فیض فائدہ نہیں اسکے دفاتراورمراعات پراس خانماں
بربادقوم کے اربوں روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں مگراسے مشہورزمانہ اصلاحات
اورقوانین کے پنجرے میں بندکرکے سرکس کاشیربنادیاگیاہے پولیس کومثالی بنانے
کاڈھنڈورابڑے تواترکے ساتھ پیٹاجارہاہے جس کاکوئی سرہے نہ پیر،جس حکومت کے
پاس زکوٰۃ ،خزانہ ،تعلیم، صحت اوربلدیات کے ماہرموجودنہیں اسکے پاس پولیس
نظام کاکونساماہرموجودتھاجس نے پولیس کومثالی بنادیا؟ پولیس وہی ہے ، اسی
طرح ہے ،کوئی تبدیلی نہیں آئی،اب بھی تھانے میں عام آدمی خوارہورہاہے شریف
آدمی کی موٹرسائیکل بندہوجاتی ہے تواس پرتھانے میں جوگزرتی ہے جس روئیے
کاسامناکرناپڑتاہے اس سے وہ زندگی سے ہی بیزاری کااظہارکرتاہے ہاں سابق آئی
جی ناصردرانی نے پولیس کے مورال کیلئے انتھک محنت کی آئے روزلاشیں اٹھاتی
پولیس کونیاولولہ اورحوصلہ دیاٹرانسفر،ترقی ،تقرری اورتبادلوں کوقابل قبول
بنانے کی کوشش کی یادرہے انہوں نے صرف کوشش کی ہے یہ کوشش کامیابی سے
ہمکنارہوگی اگرانکی پالیسیاں آٹھ دس سال تک جاری رکھی جائیں مگرپولیس کی
ڈیوٹی شفٹوں میں وہ بھی نہ کرواسکے،پولیس کوسیاسی اثرورسوخ سے وہ بھی
آزادنہ کراسکے،پولیس کی مراعات میں کوئی انقلابی اضافہ وہ بھی نہ
کرواسکے،وزراکے من پسنداہلکاراب بھی مرضی کی تعیناتی پاتے ہیں ضلعی ناظمین
اورایم پی اے و ایم این اے سے بگاڑکراب بھی کوئی پولیس افسرترقی کاخواب
نہیں دیکھ سکتاالغرض محکمہء پولیس کی حالت اگردیکھنی ہے تواسے قریب سے
مشاہدہ کیجئے زیادہ تگ ودودکی ضرورت نہیں پڑے گی اسی طرح اس ناتجربہ
کارحکومت اوراسکی ناتجربہ کارٹیم کسی بھی شعبے میں کوئی انقلاب برپانہ
کرسکی نوجوانوں کے نام پرووٹ سمیٹنے والی پارٹی نے پچاس سال سے کم عمرکسی
آدمی کوکوئی اعلیٰ یاادنیٰ عہدہ نہیں دیاوہی روایتی اور’’سدابہارحکومتی
چہرے‘‘ اس حکومت میں بھی نظرآئے گزشتہ حکومت نے نوجوانوں ،ہنرمندوں
اورفنکاروں کیلئے قرضہ سکیم متعارف کرائی موجودہ حکومت کوئی نیاسکیم
کیالاتی پہلے سے چلتی سکیموں کوبھی بندکردیاگیاطلبہ کیلئے لیپ ٹاپ سکیم
کابھی یہی حال ہے یونیورسٹی میں مذہب کے نام پہ طلبہ قتل کئے جارہے ہیں
جبکہ حکومت سابقہ حکومت کوذمے دارقراردیتی ہے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جن
کااحاطہ ایک کالم میں ممکن نہیں ان ناگفتہ بہہ حالات میں این اے چارمیں
حکومتی پارٹی کی جیت کسی اعلیٰ کارکردگی کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ ایک
روایتی الیکشن تھاجس میں روایتی حکومتی جیت سامنے آئی اس کیلئے حکومتی
جماعت نے ہرجائزوناجائزحربہ بروئے کارلاکرکامیابی حاصل کی وننگ کنڈیڈیٹ
کوشامل کرایاگیا،پیسہ پانی کی طرح بہایاگیا،مرضی کاعملہ تعینات
کیاگیااورہرصورت کامیابی کوٹارگٹ بنایاگیاآئندہ عام انتخابات میں جب یہ
سہولیات حاصل نہیں ہونگیں تومقبولیت اورکارکردگی سب پرعیاں ہوجائیگی۔
|