پاکستان میں جمہور کو تو کوئی پوچھتا نہیں البتہ جمہوریت
کی فکر سب کو لاحق رہتی ہے ۔ جمہوریت سے متعلق پاکستانی سیاستدانوں کے
اقوال زریں جیسے ''بد ترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے ''اور ''جمہوریت
بہترین انتقام ہے ''کافی پاپولر ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت ایک
انتقام کا نام ہے اور اگر ہے تو یہ انتقام کس سے لیا جاتا ہے جمہور سے جو
اپنے ووٹ سے جمہوریت کی بنیاد رکھتے ہیں یا پھر کسی اور سے اور یہ کسی اور
کون ہے ؟اور کیا واقعی بد ترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور اگر ہوتی
ہے تو کن معانوں میں ، کیا ان معانوں میں کہ اس میں اشرافیہ کو جمہور پر
حکمرانی کا حق حاصل ہوجاتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر جمہوریت جمہور
کیلئے نہیں بلکہ اشرافیہ کیلئے بہتر ہوتی ہے ۔ جمہور کو تو اس میں سوائے
بھوک و ننگ کے کچھ نہیں ملتا ۔ بچے سڑکو ں اور رکشوں میں پیدا ہو رہے ہیں ،
آٹے دال کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور جمہوری نمائندوں کا ایک
پاؤں لندن تو دوسرا واشنگٹن ۔نظام کوئی سا بھی ہو کم از کم غریب کو دو وقت
عزت کی روٹی تو ملے ۔ اسکے بیمار بچے کو سرکاری ہسپتال میں ایک بستر تو
میسر ہو نہ کہ درخت کے نیچے لٹاکر ڈرپ لگا دی جائے ۔ ایسی جمہوریت کس کام
کی ۔ اقبال نے کہا تھا : جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ؛ اس کھیت کے
ہر خوشہ گندم کو جلا دو ۔ میں اسکی یہ تشریح کرتا ہوں کہ اگر جمہوری نظام
deliverنہیں کر پا رہا تو اسے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے ۔
پارلیمنٹ کیا ہے ؟کوئی مسجد، مندر ، گرجا یا کلیسا ہے جس کی حرمت اور
بالادستی کی فکرسیاستدانوں کو کھائے جا رہی ہے ؟پارلیمنٹ کی حرمت کا سوال
اس وقت کیوں نہیں اٹھتا جب اسکے اندر ماں بہن کی ننگی گالیاں دی جاتی ہیں ،
ایک دوسرے پر لاتوں ، گھونسوں اور چپلوں کی بارش کی جاتی ہے ؟پارلیمنٹ کی
حرمت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب فلور کراسنگ ، ہارس ٹریڈنگ اور مال و
منسٹریاں لیکر وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہیں ؟کیا یہ سب پارلیمنٹ کی بے
حرمتی کے زمرے میں نہیں آتا ؟ شائد نہیں کیونکہ یہ تو جمہوریت کا حسن ہے ۔
کہتے ہیں جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔پوچھیں کیا سازش ہو رہی ہے تو
کہتے ہیں ٹیکنوکریٹس یا بنگلہ دیش ماڈل لانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔پوچھیں کو
ن کر رہا ہے تو کہتے ہیں اسٹیبلشمینٹ، پوچھیں اسٹیبلشمینٹ کون ہے تو دانت
نکال کر کہتے ہیں اب اتنے بھی بھولے نہ بنیں۔ بھئی بھولا کون بن رہا ہے اگر
اسٹیبلشمینٹ سے آپ کی مراد فوج ہے تو فوج نے تو واضح کہہ دیا کہ ٹیکنوکریٹس
سیٹ اپ لانے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی تو پھر کس ساز ش کا رونا رویا جا رہا
ہے ؟ افسوس ہے جب اپنی نااہلی چھپانے کی کوئی وجہ نہ ملے تو سازش کا شوشہ
چھوڑ دو ۔ ملک خداداد کو دہشتگردوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا ان افواہوں سے
ہے ۔ ہر روز ا یک نیا بیان ، ایک نئی کہانی، ایک نیا فتنہ جس کا نہ کوئی سر
نہ پیر ۔ اور اس فتنے کو ہوا دینے والابے لگام میڈیا جو آزادی صحافت اور
آزادی اظہار رائے کے نام پر صبح شام ایسے تبصرے ، تجزے اور من گھڑت خبریں
پیش کرتا رہتا ہے جن کا حقیقت سے دور پار کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ
رپورٹرز کل تک جن کے پاس ایک پھٹیچرسی موٹر سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی آج
نئے ماڈل کی گاڑیاں لیئے پھرتے ہیں۔ جو کل تک بچوں کے داخلے کیلئے ایم این
اے/ایم پی ایز کی سفارشیں تلاش کرتے تھے آج اینکر پرسن اور تجزیہ و تبصرہ
نگار بنے بیٹھے ہیں اور حکومتوں کے مستقبل پر رائے دے رہے ہیں ۔ جنہوں نے
اپنی زندگی میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا وہ دوسروں پہ بھبتیاں کس رہے
ہیں ۔ بلیک میلنگ اور کردار کشی کا دوسرا نام آزادی صحافت اور اظہار رائے
ہیں ۔جدید دنیا میں میڈیا عوام کو ایجوکیٹ کرنے کا م کررہا ہے جبکہ پاکستان
میں میڈیا عوام کو تقسیم در تقسیم کر رہا ہے ۔شر انگیزی اور فتنہ پروری
میڈیا ہاؤ سسز کا مشغلہ بن چکا ہے ۔ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون ہمہ وقت
جمہور کو نفسیاتی اور ہیجانی کیفیت میں متبلا رکھ کر جمہوریت کی خوب خدمت
سر انجام دے رہا ہے ۔
الیکشن مہم کا آغاز ہو چکا ہے ۔ سال 2018میں جمہور اپنا وزن کس کے پلڑے میں
ڈالیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ مقابلہ کانٹے کا نہیں بلکہ
کاٹنے کا ہے ۔ کاٹنا کیا ہے ، ایک دوسرے کا راستہ ۔کھیل یہ ہے کہ نہ کھیلیں
گے اور نہ کھیلنے دینگے ۔ حکمت عملی یہ ہے کہ دھول اتنی اڑائی جائے کہ سچ
کا چہرہ دھندلا جائے ۔منصوبہ یہ ہے کہ فوج کو لتاڑو، جمہوریت کو خطرئے کا
راگ الاپو، سازش کا واویلا کرو،خود کو عوام کا خادم اور جمہوریت کا عاشق
ثابت کرو۔ سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہوتا تو خطرناک ہے پر بلندی پر پہنچنے کی
فطری خواہش انسان کو کھیلنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اقتدار کا نشہ ہر نشے پہ
بھاری ہوتا ہے ۔
فوج اس سب کو کیسے دیکھتی ہے ؟ کہیں پڑھا تھا ''ڈگڈگی بجانے والے مداری
ہوتے ہیں لیڈر نہیں ''کیا فوج بھی ایسا سوچتی ہے ؟مگر فوج کے پاس سوچنے کا
وقت ہی کہاں ہے ۔ مشرق و مغرب دونوں بارڈر گرم ہیں اور ملک کے اندر بھی
دہشتگردوں کے خلاف فوج سر گرم عمل ہے ۔ ایسے میں فوج پرتنقید اور الزام
تراشی فوج کے ساتھ نہیں پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے ۔ جمہوریت کے متوالے
جمہوریت کی جئے جئے کار ضرور کریں ، زور و شور سے الیکشن مہم چلائیں اور
جمہورکو رام کرنے کیلئے اپنی بھر پور لیڈرانہ صلاحیتیں استعمال کریں لیکن
خود کو ante-establishmentاور pro-democracyثابت کرنے کے چکر میں اس بات کو
نہ بھولیں کہ عوام اپنی مسلح افواج سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور بخوبی
سمجھتے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوری نظام کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں ۔ |