عالمی منڈی میں ہونے والی تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی پر
تجربہ کار حکومت کا تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی کرنامنطق سے باہر ہے ۔ ہونا
تو یہ چاہیے کہ اگرعالمی منڈی میں تیل کی چند پیسے قیمت بڑھنے سے تجربہ کار
حکومت ملک میں تیل کی قیمت میں بیش بہا اضافہ کرتی ہے تو عالمی منڈی میں
تیل کی قیمت جب کم ہوتی ہے تو اس وقت ملک میں تیل کی قیمت بھی بیش بہا کم
ہونی چاہیے مگر تجربہ کار حکومت پتا نہیں کسی فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے
تیل کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے ۔ خیر عالمی منڈی تو ایک بہانہ ہے تجربہ کار
حکومت ’’زیادہ‘‘ والا فارمولا استعمال کرتی ہے جس کے مطابق حکومت کو فائدہ
زیادہ اور عوام پر بوجھ زیادہ ۔۔ ۔خیر تجربہ کار حکومت کا چناؤ بھی ہماری
طرف سے ہی ہوا ہے کسی کو کیا گلہ کرنا ۔
عوام پر ٹیکسز کے بار بار اطلاق کو آفٹر شاکس سے تشبیہ دینادرست ہوگا۔زلزلہ
کے آفٹر شاکس سے پہلے آنے والا زلزلہ ایک ایسی قدرتی آفت ہے کہ جس کی آمد
پر محسوس یوں ہوتا ہے کہ ٹانگوں سے زورنکل چکا ہے۔ شدید زلزلہ جہاں اوسان
خطا کردیتا ہے وہاں ہی قیامت کا منظر بھی پیش کرتا ہے ۔ شدید زلزلہ شدت کے
بعد جب تھم جاتا ہے تو بستیوں کے مکینوں پر قیامت برپا کر جاتا یا اﷲ کی
طرف ایک اور موقع دے جاتا ہے کہ وہ فلاح کی طرف لوٹ آئیں ظلم کا دامن چھوڑ
کر بلاتفریق انصاف کو اپنا لیں ۔ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا بازارجب گرم
ہوتا ہے تو تب چرند و پرندبھی سہمے سہمے سے لگتے ہیں ان کا چہچہانا ڈرو خوف
سے مزین ہوتا ہے کیوں کہ وہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ بندہ ٔ خدادنیاوی مرتبہ
حاصل کرکے اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگیں ہیں یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اﷲ یاد
دہانی کے لیے قدرتی آفات سے عقل والوں کے لیے نشانیاں چھوڑتا ہے تب اﷲ
جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ بتاتا ہے کہ ’’کائنات کا مالک وخالق ہرچیز پر قادر
وہی ایک ذات واحد ہے ‘‘زلزلہ کے بعد آفٹر شاکس ، زلزلہ کے خوف و ہراس کو کم
نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ آفٹر شاکس اس خوف و ہراس کو بار بار جنم دیتے ہیں جو
شدید زلزلہ کے دوران دل و دماغ میں سرایت کر جاتا ہے ۔ یہ آفٹر شاکس جہاں
زلزلہ کے خوف و ہراس کو جگائے رکھتے ہیں وہاں ہی یہ آفٹر شاکس اﷲ کی
حکمرانیت کی دلیل دیتے ہیں۔انسان جو دنیاوی جاہ و جلال پر اتراتا ہے گھمنڈ
اور غرور کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنے آپ کو نائب کے بجائے مالک
سمجھنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ آفٹر شاکس اسے یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ زمین
پراﷲ تعالیٰ کا نائب ہے دنیاوی جاہ و جلال پر اترانا ، غرور و گھمنڈ اس کا
بے سود ہے ۔
کچھ افراد جن کو اﷲ تعالیٰ اپنا نائب چن کر منصب حکمرانیت سونپا ہے وہ بھی
اپنے ماتحتوں کو کچھ معاملات میں آفٹر شاکس دیتے ہیں ۔ انھی میں ایک مِنی
بجٹ بھی ہے اگر حکمرانوں کے پاس تجربہ کار ٹیم ہوتو یہ منی بجٹ سالانہ بجٹ
جیسے ہی شدت کا ہوتا ہے ۔ یہ منی بجٹ بھی ان آفٹر شاکس کی طرح ہوتا ہے جو
زلزلہ کے بعد آتے ہیں اور لوگوں کو سوچنے اور غور و فکر پر مجبور کرتے ہیں
۔ایسا ہی ایک آفٹر شاک موجودہ تجربہ کار ٹیم نے منگل ۱۷ اکتوبر کو دیا جب
۷۲۱ اشیاء کو مزید مہنگا کر دیا ۔ ان اشیاء کے بارے مین ہیڈ لائنز تو یہی
تھی کہ یہ اشیا ء درآمدی اشیا ء ہیں اور ان کا تعلق غریب افراد سے نہیں ہے۔
ہیڈ لائنز پڑھنے کے بعد خبر تفصیل میں اس لیے نہیں پڑھی کہ یہ خبر مجھے
اپنے متعلق نہ لگی مگر جب ان ۷۲۱ اشیا ء کے بارے میں پڑھا تو حیران ہوا کہ
گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دودھ ، مکھن ، ٹوتھ پیسٹ ، سبزیاں حتیٰ کہ بچوں کے
پیمپرز تک بھی ان مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں ۔
ان اشیا ء کی تفصیل کے بعد حکومت کی طرف سے دئیے گئے اس بیان پر حیران رہ
گیا کہ ان مہنگی کی گئی اشیاء کا اثر غریب عوام پر نہیں پڑے گا ۔ ویسے
حکومت کا یہ بیان بالکل درست ہے کیوں کہ غریب کو یہ اشیاء اب میسر ہی کہاں
ہوتی ہے کہ ان پر اثر پڑے ۔ سبزیاں غریب کی پہنچ سے باہر ، دودھ ، دھی ،
مکھن تو دور کی بات صابن بھی سونگھنے کے لیے نہیں ملتا ہے ۔ جو غریب غرباء
اس’’کرم نوازی ‘‘ پر صف ماتم بچھائے بیٹھے تھے ان کو حکومتی تجربہ کار ٹیم
کے ایک فرد نے باور کروایا کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور جنگ میں لوگوں نے
کتے بلیاں بھی کھائیں ہیں ۔ تجربہ کار ٹیم کے اس ممبر کی بات درست ہے مگر
پہلی بات یہ کہ ملک قطعاًحالت جنگ میں نہیں ہے ،دوسری بات ان حکومتی ممبر
کے ساتھ ساتھ جن جن افراد کو ایسا لگتا ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے تو پہلے
کتے بلیوں والا
مشورہ یہ اپنے آپ پرلاگو کریں اورکتے بلیاں کھا کر دکھائیں بلکہ تب تک
کھائیں جب تک انھیں ایسا لگے کہ ملک اب حالت جنگ میں نہیں ہے ۔
ویسے ایسی نصیحتیں کرنے والے بے حس لوگ منظر سے تو غائب ہو جاتے ہیں مگر
تاریخ میں ان کے یہ قول ہمیشہ رہتے ہیں جن کی ذہانت پر آنے والے لوگ تف تف
کرتے ہیں ۔ جیسیاکہ ماضی میں کسی نے کہا تھا کہ اگر آٹا مہنگا ہے تو لوگ
برگر کھائیں ، دالیں مہنگی ہیں تو لوگ چکن کھائیں ۔ واہ واہ کیا کیا عجوبے
ہم پر مسلط رہے، ان کو قابض اس لیے نہیں کہوں گا کیوں کہ یہ چناؤ بھی ہمارے
ہی ہیں ۔تاریخ پڑھنے والے جب تجربہ کار حکومت کا یہ باب پڑھیں گے اور تجربہ
کار ٹیم کی سوچ اور تجربہ پر رشک کریں گے تو وہ اس عوام کو بھی سوچ کر حیرت
کدہ ہوں گے جنھوں نے ان تجربہ کار افراد کو حکمرانیت کے لیے چنا۔ |