جب بھی جمہوری قیاد ت پر کٹھن وقت آیا۔وہ ثابت قدمی نہیں
دکھا پائی۔ سبھی سیاسی جماعتیں کمزوری دکھاتی رہیں۔کوئی بھی جماعت ثابت
قدمی کا دعوی نہیں کرسکتی۔ کم ہمتی دکھائی گئی۔قیادت نے پیش قدمی کی بجائے
دو قدم پیچھے ہٹنے کی راہ اپنائی۔پامردی دکھانے اور مقابلہ کرنے کی بجائے
شارٹ کٹ کار استہ اختیار کیا گیا۔یہ راستہ۔کبھی کوئی خفیہ ڈیل کہلایااور
کبھی اسے این آر او کا نام ملا۔نوازشریف جب راتوں رات جدہ نکل لیے تو یہ
بھی ایک ڈیل تھی۔جب بے نظیر 2007 میں وطن واپسی آئیں تو وہ بھی این آر او
کرکے آئیں۔نوازشریف اور بے نظیر کو دور حاضر کی بڑی لیڈر شپ میں شمار کیا
جاتاہے۔دونوں نے وقت آنے پرکم ہمتی دکھائی۔عوام پر اعتماد کرنے کی بجائے
شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کرکے اپنا مطلب نکالنے کی غلطی کی۔کچھ یہی حال
عمران خاں کا ہے۔آج تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی دھوم ہے۔مگریہ ڈنکا بھی اس مک
مکے کی دین ہے۔جو عمران خاں کو سیدھا راستہ ترک کرکے کچھ لوگوں کے لیے کام
کرنے کاتھا۔ان لوگوں نے ناکامیوں اور تنہائیوں کے شکار عمران خاں کو پالش
کرکے ان کی دھوم مچوادی۔یہ شہر ت ایک انقلابی ذہن رکھنے ولے سیدھے اور مخلص
شخص کی ساری محنت اکار ت کرگئی۔ برسوں سے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھگایا جارہا
ہے۔ ٹاپ لیڈر شپ کی طرف سے شارٹ کٹ کا انتخاب قوم کے لیے بد قسمتی ثابت
ہواہے۔گھوم پھر کر اسے پھر سے ایک جیسے حالات کا سامنا ہوجاتاہے۔ریاست کا
نظام اس کولہوکے بیل کی طرح ہے جو ایک ہی دائرے میں گردش کرتے ہلکان تو
ہورہا ہے۔مگر منزل اب بھی کوسوں دور ہے۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف نے احتساب عدالت پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت
کرتے ہوئے غیر متوقع طور پر پی پی کی قیادت پر کڑی تنقید کردی۔کہا کہ
زرداری صاحب کسی کو خوش کرنے کے لیے انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ان کے بیان کے
بعد پی پی کے قریبا درجن کے قریب لوگوں نے میاں صاحب کو اپنے اندازمیں جواب
دیا۔ پی پی رہنما سعید غنی کی جانب سے دیا گیا جواب ان سب کی عکاسی کر
سکتاہے۔انہون نے کہا کہ نوازشریف نے ملک سے جانے کے لیے این آر اوکیا جبکہ
بے نظیرنے وطن آنے کے لیے این آراو رکیا۔
سعید غنی صاحب غلطی تو غلطی ہے۔چاہے جب بھی کی جائے۔آ پ کابڑا پن ہے کہ آپ
نے بے نظیر بھٹوکے وطن آنے سے متعلق آین آر او کرنے کو تسلیم تو کیا۔ورنہ
آج تک نہ مسلم لیگ ن والے کسی قسم کے این آر او رکو تسلیم کرتے ہیں۔نہ پی
پی والے۔دنوں اس طرح کی باتوں کو لغو اور بے بنیاد الزام قرار دیتے ہیں۔آپ
کا بڑا پن ہے کہ آپ نے کسی حدتک ایک بڑی سچائی کی تصدیق کی۔البتہ قوم کو
دونوں این آر او ز کی کچھ مذید تفصیلات سے آگاہ کرنا بھی بے محل نہ ہوگا۔آپ
کا یہ کہنا تو درست ہے کہ ایک این آر اوجانے کے لیے کیا گیا۔او رایک آنے کے
لیے۔مگر آپ دونوں این آر اور کے اثرات اور مضمرات کا فرق گول کرگئے۔حالانکہ
دونوں کے درمیاں بڑا واضح فرق تھا۔نوازشریف کیمپ اب تک یہ دعوی کرتاہے کہ
انہیں زبردستی باہر بھجوایا گیاتھا۔ان کے مخالفین ان کا دعوی نہیں
مانتے۔مگرمیاں صاحب کی 10ستمبر2007 کی واپسی کاوقوعہ ان کے دعوے کو تقویت
فراہم کرتاہے۔کس طرح وہ پاکستان آنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ
کرآئے۔او رجس طرح دنیا بھر کو اکٹھا کرکے انہیں زبردستی دوبارہ باہر
بھجوادیا گیا۔یہ طریقہ نوازشریف کے زبردستی بھجوائے جانے کے دعوے کو سچ
ثابت کرنے میں مدد دیتاہے۔۔دوسری طرف بے نظیر بھٹو نے جو این آراو کیا وہ
سراسر اپنی حفاظت کے لیے کیے تھا۔جب تک انہیں اس بات کی یقین دہانی نہ
کروادی گئی کہ انہیں پاکستان میں مکمل تحفظ دلوایا جائے گا۔وہ پاکستان واپس
آنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔لیگی قیادت تو یہ دعوی کرتی ہے کہ اسے دھکے شاہی سے
ملک بد ر کیا گیا۔جب کہ محترمہ اس وقت خود ملک چھوڑ گئیں۔جب انہیں یہ
معلومات ملیں کہ ان کے خلاف عدالتی فیصلہ دلوایا جانے والا ہے۔محترمہ متوقع
سزا سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ کرچلی گئیں۔ان کی واپسی تب تک نہ ہوئی جب تک
مقتدر حلقوں کی طرف سے انہیں ہر طرح کے تحفظ کی یقین دہانی نہ کروادی گئی۔
محترم سعید غنی صاحب آپ کی قیادت قوم سے سچ چھپانے کا خمیازہ بھگت رہی
ہے۔میڈیا کی چکا چوند روشنیا ں ان ڈھونگ ڈراموں کی قلعی کھول رہی ہیں۔جو کل
تک کامیاب ہوجایا کرتے تھے۔جب شعور کم تھا۔جب بدحالیاں زیادہ ہوا کرتی
تھیں۔اب قوم میں مزاحمت بڑھ چکی۔وہ ور قدرے بے نیاز ہوچکی۔اب اسے کچھ بھی
منوالینا آسان نہیں رہا۔آپ کی پارٹی عوامی مینڈیٹ پانے سے متعلق جو رویہ
اختیار کررہی ہے۔وہ دن میں خواب دیکھنے جیساہے۔اس رویہ کو قوم بار بار
مسترد کرچکی مگر آپ اصلاح کی ضرورت مھسوس نہیں کررہے۔اگر آپ کی پارٹی کسی
نئی اٹھا ن کی متلاشی ہے تو دورحاضر کے مطابق پالیسیاں اختیار کرنا پڑیں
گے۔ماضی میں کس نے کیا کیا یہ کہانیاں اب کوئی نہیں سننا چاہتا۔ہر کوئی یہ
دیکھ رہا ہے کہ آج کون کیا کررہاہے۔کیا آپ کی قیادت نئے دور کے نئے تقاضے
سمجھنے پر آمادہ ہے یا پھر آگے بھی دل کو بہلانے کا سامان ہی کیا جاتارہے
گا۔ |