موٹاپا پیدا کرنے والی عادتیں

تحریر: عائشہ صدیقہ (سیالکوٹ)
دور جدید میں بدلتے ہوئے طرز زندگی سے جہاں ہمارے رہن سہن میں تبدیلی آئی تو طرز طعام اور عادات بھی اثر انداز ہوئیں اور کچھ مسائل نے جنم لیا جس میں ’’موٹاپا‘‘ گزشتہ کئی سالوں سے قابل توجہ موضوع رہا ہے۔ دنیا کے کچھ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر چار میں سے ایک فرد موٹاپے کا شکار ہورہا ہے جو عارضہ قلب، ذیابیطس، فشار خون اور بلڈ پریشر جیسے امراض کو گود مہیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس سے بچنے اور بہتر صحت کی نعمت سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صحت مند خوراک کے استعمال کے ساتھ ساتھ ایسی عادتیں بھی بدلیں جو ہمیں موٹاپے کا شکار بناتی ہیں۔

1۔ ناشتہ نا کرنا:
بہت سے لوگ صبح کا ناشتہ اسکول، کالج یا دفتر جانے کی عجلت میں چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ اسے ضروری ہی نہیں سمجھتے۔ دراصل آپ کے جسم اور ذہن کے لیے ناشتہ چھوڑ دینا انتہائی نقصان دہ فعل ہے۔ کیونکہ ناشتہ چھوڑ دینے کے بعد باقی دن آپ جو کچھ کھاتے ہیں وہ میٹابولزم سست ہونے کے باعث جسم کے لیے زائد خوراک بن جاتا ہے۔ امریکن جرنل آف ایپی ڈیمالوجی کے مطابق ناشتہ نا کرنے والوں میں موٹاپے کے امکانات 4۔5 گنا بڑھ جاتے ہیں لہٰذا میٹابولزم کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ غذائیت سے بھرپور خوراک تھوڑی تھوری مقدار میں وقفے سے استعمال کریں۔

2۔ تیزی سے کھانا:
بہت سے لوگ تیزی سے کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ یہ عادت بھی اچھی صحت کے لیے ناموزوں ہے۔ یونیورسٹی آف روڈ آئیلینڈ کے مطابق جو لوگ آہستہ چبا کر کھانا کھاتے ہیں وہ تیز کھانے والوں کی نِسبت خوراک کا تیسرا حصہ لیتے ہیں۔ ہمارا معدہ سیر ہوجانے کا پیغام دماغ تک پہنچانے میں تقریباً 20 منٹ لگاتا ہے لہذا آپ کو 5 منٹ میں کھانے کے بجائے کم از کم 20 منٹ میں کھانا ختم کرنا چاہیے اور ایک لْقمے کو کم از کم بیس مرتبہ چبا کر کھانا چاہیے۔

3: بڑے لقموں میں کھانا:
خوراک کو چھوٹے لقموں میں چبا کر کھانا لطف دیتا ہے اور زیادہ وقت لیتا ہے جس سے آپ کی بھوک بھی سیر ہو جاتی ہے۔ امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن کے مطابق جو لوگ بڑے لقموں میں کھاتے ہیں وہ چھوٹے لقموں میں دیر تک چبانے والوں کی نسبت 52% زیادہ کیلوریز حاصل کرتے ہیں۔

4: کھاتے ہوئے ٹی وی یا موبائل فون کا استعمال کرنا:
ٹیلی وڑن یا موبائل فون استعمال کرنے والوں کی اکثریت کی توَجّْہ کسی بھی دوسری چیز بشمْول کھانے کی طرف کم ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف برمِنگھم کے محققین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کی توجّہ کھانے پر نہیں تھی وہ پوری توجہ سے کھانا کھانے والوں کی نسبت 5 سے 10 گنا زیادہ مقدار میں اسنیکس وغیرہ کھا گئے یہاں تک کہ ان میں اکثر کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کھایا۔

5: کم چکنائی والی خوراک کا استعمال :
کم چکنائی والی خوراک جس پر Low fat food یا Fat free کا لیبل لگا ہوتا ہے۔ ایسی خوراک بظاہر آپ کو کم کیلوریز کی وجہ سے مناسب لگتی ہے مگر دراصل اس میں چکنائی کو نشاستہ یا دوسرے کیمیکلز میں تبدیل کردیا جاتا ہے جو کہ چکنائی سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ ایسی خوراک جلد ہضم ہوجاتی ہے اور بھوک بھی جلد لگ جاتی ہے جس سے آپ خوراک زیادہ یا بار بار کھاتے ہیں۔

6: موٹے لوگوں سے دوستی کرنا :
دا نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کی تحقیق کے مطابق اگر آپ کے دوست یا زوج پیٹو ہیں تو آپ میں موٹاپے کے امکانات 57% بڑھ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کے آپ موٹے دوستوں سے تعلق نا رکھیں یا دوستی نا کریں بلکہ ان کے ساتھ باہر کھانا کھانے کے بجائے کھیل کود یا سیر و تفریح کے پروگرام ترتیب دیں جس سے آپ ان کی صحبت سے زیادہ لطف اٹھائیں گے اور ان کی کیلوریز جسم میں ذخیرہ ہونے کے بجائے استعمال ہوکر ان کے موٹاپے میں بھی کمی لائیں گی۔

7: جنک فوڈ اور مشروبات کا بکثرت استعمال :
جنک فوڈ اور کوک جیسے مشروبات کا بکثرت استعمال بھی وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن جاتا ہے۔ پھل اور سبزیوں کا کم استعمال خوراک کو غیر متوازن بنا دیتا ہے۔ لہٰذا موٹاپے سے بچنے اور اچھی صحت کے لیے غذا میں تمام ضروری اجزا کا مناسب مقدار میں ہونا ضروری ہے۔اپنے وزن کو وقتا فوقتا چیک کرتے رہنا اور خوراک پر تھوڑی سی توجہ دینا، ہلکی پھلکی ورزش، چہل قدمی اور بھوک رکھ کر کھانا کھانے سے آپ موٹاپے جیسے مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.