ملائیشیا کے دارلخلافہ کوالالمپور
کیلئے فوکٹ ائیر پورٹ سے ہوائی جہاز نے اُڑان بھری اور ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک
دفعہ پھر کوالالمپور ائیر پورٹ پر۔ آگے پیچھے چند اور فلایٹس بھی آئی تھیں
لہذا اِمیگریشن کلیرنس کیلئے لمبی لائنیں لگ گئیں۔مختلف ممالک کے خوبصورت و
خوش لباس سیاح ۔شاید اس لیئے بھی اچھے لگ رہے تھے کہ وہ غیر ملکی سیاح
مسلمان ملک کے شہر میں داخل ہونے کیلئے کافی حد مکمل لباس میں نظر آرہے
تھے۔
وہاں بھی اگلا مرحلہ تھا ویگن کروا کر ہوٹل تک پہنچنا ۔ ویسے ائیر پورٹ سے
ایکس پریس ٹرین (اورنج ٹرین) بھی شہر جاتی ہے۔ شام کے چار بج چکے تھے اور
تھائی لینڈ سے ٹائم ایک گھنٹہ آگے تھا اور اگر یاد ہو تو پاکستان سے تین
گھنٹے آگے۔ جب یہ معلوم پڑا کہ یہاں بھی ائیر پورٹ سے شہر میں" ہوٹل
ایمبسیڈر رو" تک کا سفر 1گھنٹے سے زائد کا ہے تو جسم میں تھکان کی لہر دوڑی
کیونکہ پہلے ہی صبح سے پیٹونگ سے ائیر پورٹ ، وہاں فلائٹ کا انتظار،ہوائی
جہاز کا سفر ،کوالالمپور میں اِمیگریشن کی لائن اور اب مزید 1گھنٹے کا سفر۔
ہندو ڈرائیو رو آبادی :
ائیر پورٹ کیب بوتھ کی انچارج مسلمان خاتون نے 180رِنگٹ میں اے سی ویگن بُک
کروا کرد ی ۔ ویگن میں بیٹھے تو چند لمحوں بعد ڈرائیور کے سامنے سپیڈ میٹر
کے اُوپر ڈیش بورڈ پر "ہنو مان" کا چھوٹا سا کانچ کا بُت چپکا ہوا
تھا۔ملائشیا میں ہندوؤں کی تعداد 7 فیصد ہے۔ راستے میں اُس نے اپنا تعارف
کرواتے ہوئے بتا بھی دیا کہ وہ بیس سال پہلے ہندوستان سے یہاں آیا تھا اور
ٹوریسٹ ٹیکسی چلاتا ہے۔اُس نے اپنا موبائل نمبر دے کر کہا کہ اگلے جتنے دِن
بھی یہاں رہیں رابطہ کر سکتے ہیں۔
کوالالمپور کی بڑی اور چوڑی سڑکیں اور اُن پر گاڑیوں کا رش ۔ایک بڑی تعداد
کا رُخ شہر کی طرف ۔دفتروں سے چھٹی کا وقت تھا۔ لیکن حیرانگی اس پر تھی کہ
اتنی ہی تعداد کا رُخ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کا تھا۔ یہ کہاں جارہی
تھیں؟ ہاہاہاہا یقیناًکہیں اپنے ہی راستے۔
بنگالی روم سروس بوائیز کی رہنمائی :
ہوٹل پہنچے تو ڈرائیور کے رویئے پر فیصلہ کیا کہ کوالالمپور شہر کی سیر
کیلئے اُسی سے رابطہ کریں گے ۔لیکن ہوٹل روم سروس کے دو بوائیز کی ویگن سے
سامان اُتارتے وقت اس بات سے دِل بہت کھٹا ہوا کہ اچھی طرف ویگن چیک کرلیں
کو ئی سامان ،شے یا موبائل وغیرہ تو اندر نہیں رہ گیا کیونکہ جو چیز بھول
گئے وہ واپس دینے کوئی نہیں آتا ۔استفسار پر اُن میں سے ایک نے کہا یہ بھی
نہیں۔
انٹر نیٹ پر بُکنگ کی سہولت کی وجہ سے استقبالیہ پر چند منٹ انتظار
کرناپڑااور پھر روم سروس ملازمین4سٹار ہوٹل کی 9ویں اور10ویں منزل پر بُک
تین کمروں میں سامان چھوڑ کر کہہ آئے ہر وقت خدمت کیلئے حاضر ہیں۔شام کے
6جب چکے تھے اور کم و بیش 20منزلہ انتہائی خوبصورت ،پُر سکون ہوٹل کو
دیکھنے کا دِل کر رہا تھا لیکن ٹانگیں جواب دے چکی تھیں لہذا چند منٹ بستر
پر انگڑایاں لینے کے بعد کچھ نے ہمت کی اور ہوٹل میں گھوم پھر کر روم سروس
ملازمین سے ہوٹل اور کوالالمپور شہر میں سیر کرنے کے بارے میں معلومات حاصل
کرنے شروع کیں۔
فوکٹ میں رہائشی ہو ٹل میں کھانا نہ کھانے کی وجہ حلال فوڈ کی عدم دستیابی
تھی اور کوالالمپور کے اس ہوٹل میں چند سینکس کے علاوہ کچھ خاص کھانوں
کیلئے روم سروس نہیں تھی۔ڈائنگ ہال میں جانے کا پروگرام نہ بنا تو روم سروس
بوائز نے رہنمائی کی کہ ہوٹل کے باہر پاس ہی چند ریسٹورنٹ ہیں جہاں سے
مناسب قیمت میں اچھے اور لذیذ کھانے مل جاتے ہیں۔ ٹریفک کی فراوانی کی وجہ
سے پیدل کراس کرنے والے پُل کے ذریعے وہاں پہنچے اور ایک ایرانی ہوٹل سے
کھانے کا انتخاب کر کے لے آئے اور کھانے کے پکوان کے دوران وہاں بھی ہوٹل
کے مالک سے اگلے دِنوں کیلئے رعایتی ڈیل کر لی۔
واقعی ایک اعلیٰ درجے کا ہوٹل اور اعلیٰ درجے کا ناشتہ جو یقیناً تمام غیر
ملکی رہائشی پیکج کے تحت فری ہی کر رہے تھے۔ اچھا لگ رہا تھا۔ناشتے کے
دوران روم سروس بوائے نے شہر کی سیر کرنے کیلئے ویگن بُک کروانے کیلئے
اجازت چاہی ۔اُس نے بتایا کہ فی گھنٹہ کے حساب سے وہ کرایہ لیتے ہیں اور کم
ازکم تین گھنٹے کی بُکنگ۔ظاہر تھا آئے کس لیئے تھے لہذا اُسکو چھ گھنٹے
کیلئے مناسب رعایت پر ویگن بُک کروانے کا کہا۔چند منٹ بعد اُس نے اطلاع دی
کہ آپ اپنے کمروں میں جا کر تیار ہو جائیں 11بجے ویگن آجائے گی۔اُس نے
بتایا کہ وہ اور اُسکے رات والے ساتھی کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے ۔ لیکن جس
طرح وہ گزشتہ شام سے مہربانیاں کر رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے پرانا
تعلق ہے۔
کوالالمپور کے" پیٹروناس ٹاورز":
المشہور" ٹیوین ٹاروز" پر سب سے پہلے پہنچے۔واقعی تعریف کے قابل تعمیر،جس
کے تحت دونوں ٹاورز کو حدِاُونچائی پر ایک کوڑد پُل نما بالکونی کے ساتھ
ملایا گیا ہے۔ 450میٹر سے زائد اونچائی 90سے زائد منزلیں ،1998ء تا 2004ء
تک دُنیا کی بلند ترین عمارت، دِن کو آئینہ نما چمکتے شیشوں میں اور رات
کودُور سے جھلملاتی روشنیوں میں دیکھنے میں ایک عجوبہ۔ اُس کے ارد گرد بھی
چنداُونچی خوبصورت عمارتیں سب دیکھنے کے قابل ہیں۔ اصل میں ائیر پورٹ سے
شہر کی طرف آتے ہوئے اندازہ ہو گیا تھا کہ بنکاک ، عرب امارات اور بہت سے
دُوسرے ممالک کی طرح ایک ہی طرح کے آرکیٹ کچرل اسٹائل میں اُونچی اُونچی
عمارات کوالالمپور میں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔
چینی ڈرائیو رو آبادی :
جتنی دیر فوٹوز ،سیلفیز اور فلم بنائی ویگن کا ڈرائیور اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ
پر بیٹھی ہو ئی خاتون سے باتیں کرتا رہا ۔ واپس ویگن میں جاکر بیٹھے تو کچھ
سکون ہوا کیونکہ موسم جولائی کے مطابق گرم تھا اور ویگن اے سی والی تھی۔
ڈرائیور نے خاتون کے بارے میں سوال پر مشکل سے سمجھنے والی انگریزی میں
بتایا کہ اُسکی بیوی ہے اور وہ دونوں چائنیز ہیں ۔ بچے بڑے ہیں کام پر چلے
جاتے ہیں ۔مزید تفصیل کی ضرورت نہیں تھی۔بہرحال یہ جاننا ضروری ہے کہ وہاں
23 فیصد چینی آباد ہیں۔
شاپنگ مال و بازار:
فوکٹ میں تحائف کے طور پر چند سوی نیئر خریدے تھے لہذا یہاں شاپنگ کا موقع
گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ ڈرائیور سے ذکر کیا تو اُس نے بات سمجھانے کی حد تک
چائنہ مارکیٹ، انڈین مارکیٹ اور ٹائم اسکوئیر شاپنگ مال کا نام لیا۔روم
سروس بوائے نے بھی جو گائیڈ پمفلٹ دیا تھا اُس میں بھی اہم جگہوں میں یہ
بھی شامل تھے۔
لہذا پہلے چائنہ بازار پہنچے۔کیا نہیں تھا؟ مرد و خواتین کا کپڑا، گارمنٹس،
جوتے،جوگرز، سینڈلز ،گھڑیاں۔پرس وغیرہ سب کچھ چائنہ کا اور قیمتیں بھی
مناسب۔بلکہ ہر ملک کا سیاح بھی وہاں خرید ار تھا اور مختلف اشیاء سے بھری
ہوئی ہر دُوکان کے باہر بھی ایک عارضی دوکان سجی ہوئی تھی۔ جسکی وجہ سے
درمیانی راستہ صرف پیدل چلنے کے قابل تھا ۔
انڈین بازار کچھ مختلف تھا ۔ سستی اشیاء کی وہاں کوالٹی نہیں تھی اور جہاں
کوالٹی تھی وہ واقعی انڈین کوالٹی تھی۔جس میں کپڑا خاص طور پر۔ وہاں سے
فارغ ہو کر پہلے میکڈونلڈز اور کچھ کی فرمائش پر برگر کنگ کا مزہ بھی چکھ
لیا ۔ ویگن کے دو گھنٹے پڑے تھا لہذ" برجیا ٹائم اسکوئر" مال کا رُخ
کیا۔بین الاقوامی سطح کا بہت بڑا اور کافی منزلوں والا مال جہاں " تھیم
پارک" جس میں بہت سی دِلچسپ "انڈور رائیڈز"کے ساتھ حیران کُن طور پر آؤٹ
ڈوررائیڈ "رولر کوسٹر" کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ وہ چلتا تھا اور سیر کرنے
والوں کی چیخیں فلور پر گونج کے ساتھ سُنائی دیتی تھیں اوراُنکے ساتھ آئے
ہوئے نیچے کھڑے دِل تھام کر بیٹھے تھے۔
اُس دِن بھی وہاں سے خریداری کی اور اس دوران ویگن والے کے 6گھنٹے پورے
ہونے کی وجہ سے اگلے دِن بھی سیر سے واپسی پر اس مال پر آئے اور کچھ مزید
شاپنگ کی۔جن میں ملائشیا کے سوی نیئر بھی ۔
مساجد اور گاؤن:
کوالالمپور بڑی اور خوبصورت مساجد کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے اور وہاں اُن
مسجدوں میں جاکر واقعی دِل پر گہرااثر ہوتا ہے۔ دِلچسپ یہ ہے کہ اُن مساجد
کو غیر ملکی سیاح بھی دیکھنے آتے ہیں لیکن اُنکے بے پردہ یا ستر نہ ڈھانپے
ہوئے لباس کی وجہ سے اُنکے لیئے وہاں خصوصی طور پر خوبصورت رنگوں کے "ہُڈ
گاؤن" رکھے ہوئے ہیں جنکو پہننے کے بعد مسجد دیکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
وہ بھی ایک خوبصورت منظر ہو تا ہے۔ایک اور مسجد "پوترا "واقع پوترا جایا
میں دیکھنے گئے تو اُس کے ساتھ ملائشیا کے وزیرِ اعظم کا سکرٹریٹ "پیردانا
پوترا"کو بھی باہر سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حیران کُن یہ ہے کہ وہاں عام
عوام و سیاح اور اُنکے وہیکلز آتے جاتے رہتے اور کسی قسم کی خاص سیکیورٹی
کے تحت روکا نہیں جا تا۔
دُلہا دُلہن:
ایک مسجد میں ظہر کی نماز کے بعد نکاح بھی پڑھایا جا رہا تھا جسکے خطبے اور
دُعا میں شرکت ایک خوشی کا لمحہ تھا۔ ویسے سچ پوچھیں تو اصل میں ملائشیاکے
دُلہا دُلہن دیکھ کر بہت اچھا لگا۔
"باتو کیوز " :
کوالالمپور کے نزدیک تحصیل گومبیک میں ہندوؤں کا ایک بہت بڑا ٹیمپل اور
ساتھ میں مندر جسکو وہاں جانے والا ہر سیاح دیکھنے جاتا ہے۔ایک بہت بڑے
احاطے میں داخل ہو نے کے بعدبائیں طرف دُور ہنو مان کا 15میٹر لمبا
بُت،سامنے کی طرف 43میٹر کا" کارٹیکیہ یا مرگان "کا سنہرے رنگ کا بُت اور
ساتھ ہی 272سیڑھیاں چڑھنے کے بعد100میٹر کی اُونچائی پر" باتو کیوز۔(غار)"
(400ملین قدیم ) تین میں سے سب سے بڑی ۔
کمال کی دیکھنے والی قدرتی غار جس میں بندر بھی موجود رہتے ہیں اور سیاحوں
کیلئے دِلچسپی کا باعث بھی۔ اُوپر جاکر اگر بُت کے پیچھے سے تصویر کسی کی
جائے تو دُور تک شہر نظر آتا ہے جو بہت اچھا لگتا ہے۔ ساتھ ہی نیچے احاطے
کے اندر بازار بھی ہے جہاں سے " مور" کے پَر خریدے۔ یقیناً فوٹوز، سلیفیز
اور ویڈیو فلم پھر گرمی ،سیڑھیاں چڑھنے کی وجہ سے پسینہ واپس ویگن میں آکر
ڈرائیور کو کہا سیدھا رُخ کر لے آج پھر دوپہر کے کھانے کیلئے "برگر کنگ" کا
اور جیسے بیان کیا ہے کہ پھر ٹائم اسکوئیر۔
واپسی اپنی پاک سر زمین پر:
کوالالمپور میں چار دِ ن ٹھہرنا تھا جسکی بڑی خوشی تھی لیکن جب چوتھے دِن
ناشتے کے بعد ائیر پورٹ جانے کی تیاری شروع کردی تو اندازہ ہو ا کہ پہلا دِ
ن بھی سفر میں تھکان کی وجہ سے ضائع ہوا اور آخری دِ ن بھی واپسی کے سفر
میں ۔رہ گئے بقایا2دِن تو کوالالمپور میں بہت کچھ دیکھنے کو رہ گیا۔ دو
نوعمر بہن بھائی امل اور ولید بن عامرجو ساتھ تھے اور جنکو سب سے زیادہ سیر
کا شوق تھا ۔خوب مزہ بھی کیا۔واپسی پر اُداس اور اگلے سفر کے نئے خوابوں کے
ساتھ واپس اپنے شہر لاہور میں لینڈ کر کے کہہ رہے تھے پاکستان زندہ باد۔
|