اگر شریعت نافذ ہوجائے تو حکمران
آئمہ مسجد ہوجائیں گے، لوگ شرعی مسائل لئے قاضیوں کا رخ کریں گے، مدارس
قومیا لی جائیں گی، مقابر پر بھی شریعت کا اطلاق ہوگا، کوئی حلوے مانڈے پر
نیاز کرانے والا باقی نہیں بچے گا اور نکاح تو کوئی ایرا غیرا نتھو بھی
پڑھا لیا کرے گا۔ پھر ضرورت اور اہمیت باقی رہے گی تو جید علماء کرام کی،
ان گلی محلے کے خطیبوں (روایتی مولویوں) کا کیا ہوگا؟ میں کسی سامعی کو دخل
اندازی کا کوئی موقع دئے بغیر بے ساختہ بولتا گیا اور جب میں رکا تو میں نے
ان کے چہروں کے بدلتے ہوئے رنگ کو پہلی بار محسوس کیا۔ ایک لمحے کے لئے
ایسا لگا کہ گاؤ تکئے پر نیم دراز پڑے مولوی صاحب کی سانسیں رک گئی ہوں اور
ملک الموت بس آیا ہی چاہتے ہوں۔ لیکن پھر انہوں نے خود پر قابو پایا، اٹھ
کر بیٹھے اور سامنے رکھے پانی کے جگ سے گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں اسے
حلق میں انڈیل لیا۔ ابھی میں انکے اندر اپنی ایک چھوٹی اور بے موقع تقریر
کے ردعمل میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا
کہ انہوں نے انکھ اٹھا کر اپنے دائیں بائیں بیٹھے مریدین کو نظروں ہی نظروں
میں تخلیہ کا حکم دیا اور پھر نظریں جھکاکر کسی انجانے مراقبے میں گھوم
ہوگئے۔ پانچ منٹ کی کاٹ کھانے والی خاموشی کے بعد گویا ہوئے تو جو کچھ
ارشاد ہوا وہ میں تحریر میں لانے سے عاجز ہوں۔ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ جب وہ
دوبارہ خاموش ہوئے تو انکی تعظیم کے وہ تمام جذبات جو مجھے ورثہ میں ملے
تھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غائب ہوچکے تھے اور میرے اندر سے کہیں اقبال کی یہ
آواز بے چین ہوکر نکلا ہی چاہتی تھی کہ دین ملا فی سبیل اللہ فساد، لیکن
پھر مجھے اقبال کے ہی اس بانگ نے روک لیا کہ
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو اسکے کوہ دمن سے نکال دو
قصہ یوں ہے کہ ایک مشہور و معروف مولوی صاحب جو والد مرحوم کے پرانے دوست
بھی ہیں سے ایک نشست پر وہابیت کے خلاف اور ترک دنیا کی حمایت میں نصیحت
سنی تو میں نے موضوع بدلنے کے لئے سیکولرازم اور اسکے اثرات کا ذکر چھیڑ
دیا۔ ارشاد ہوا بری چیز ہے، روشن خیالوں کے ڈرائنگ روم کے نخرے ہیں لیکن تم
کیوں ہلکان ہوتے ہوئے، چھوڑو یہ چکر ہمارے پیر و مرشد کے ہوجاؤ، سکون ہی
سکون ہے، عافیت ہی عافیت ہے۔ میں اس سخت فرقہ وارانہ اور احمقانہ نصیحت کو
سن کر خود کو روک نہ سکا اور روایتی مولویت اور تصوف پر ایک چھوٹی سی تقریر
کر ڈالی، یا یوں سمجھیے کہ ایک روایتی مولوی کے سامنے ہی روایتی مولویوں کی
ایسی گردن موڑی کہ اللہ توبہ۔
مولوی صاحب میری بات آپکو بھلے بری لگے لیکن میں ایک احیائی اور انقلابی
مسلمان ہوں جو روایت پسندی سے سخت عاجز ہے، جسے خانقاہوں اور اپنی اپنی
ڈیڑھ انچ کی مساجد میں بیٹھے مذہب پرستوں اور دین فراموشوں سے بھی اتنا ہی
بیر ہے جتنا کہ نام نہاد روشن خیالوں سے۔ میں اس مذہب کو نہیں مانتا جو
تعویز کے گٹھوں اور قبروں کے پیٹ میں بند ہے۔ میں اس مذہب کو بھی نہیں
مانتا جو رواجوں، تہواروں، دنوں، موسموں اور شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ میں
اس مذہب کو بھی نہیں مانتا جو مرشد کی نظروں میں قید ہو، میں اس مذہب کو
بھی نہیں مانتا جسے نجی شعبے میں دے دیا جائے اور ریاست اور امراء کا اسکے
معاملات میں کوئی دخل باقی نہ رہے۔ میں اس مذہب کو بھی نہیں مانتا جسکے کئی
کئی فرقہ اور مسالک ہوں۔ میں امام ابو حنیفہ کا ٹھیٹ اور اختیاری مقلد ہوتے
ہوئے بھی آئمہ اربعہ کی تقلید پر صبر شکر کر کے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتا۔
مجھے حافظ ابن تیمیہ، ابن قیم، شیخ احمد سر ہندی، شاہ ولی اللہ، شیخ
عبدالوہاب نجدی، عثمان دان فودیو، سید احمد بریلی، شاہ اسمعیل دہلوی، رشید
گنگوہی، امام الہند محمود الحسن، عبیداللہ سندھی، ابوالکالم آزاد، علامہ
اقبال، سید مودودی، حسن البنا، سید القطب، عبداللہ عظام، ڈاکڑ اسرار، علامہ
عبدالرشید غازی اور ملا محمد عمر ایسے بھلے معلوم ہوتے ہیں جو جماعت کی
آستینوں میں بتوں کے انبار دیکھتے ہوئے بھی اپنی اپنی خانقاہوں سے نکل کر
بانگ درا پر آمادہ ہوتے ہیں اور خروج اور دعوت الحق پر یقین رکھتے ہیں۔
چاہے خلق خدا انکی قبروں پر عمارت بناکر تعظیم کی مثال قائم کرے لیکن مجھے
ایسے گوشہ نشین مذہب پرستوں سے سخت اختلاف ہے جو خود تو خانقاہوں میں بیٹھ
کر خلوت کا حق ادا کریں اور معاشرے کو جابر حکمرانوں کے حوالے کردیں، جو
دریاؤں کے کناروں پر بیٹھ کر اللہ کی بڑائی کے نغمے گائیں اور خلق خدا ایک
ایک بوند پانی کے لئے ترستی رہے اور جو سمع و تال پر تصوف کے دئے روشن کریں
لیکن اللہ کا برہان طاقوں کی تاریکی میں بند رہے۔ اگر اسے خارجیت کہتے ہیں
تو میں خارجی ہوں، اگر اسے وہابیت کہتے ہیں تو میں وہابی ہوں لیکن میں اسے
محمدیت سمجھتا ہوں اور میں ایک محمدی ہوں۔
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
آپکی یہ کیسی خلوت ہے کہ کافروں کے بنائے ہوئے ائر کنڈیشن کمرے میں، کافروں
کے بنائے ہوئے اعلیٰ قسم کے کارپیٹ پر لیٹے ہوئے، کافروں کے بنائے ہوئے
ریشمی گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے، کافروں کا بنایا ہوا مہنگا موبائل ہاتھ میں
لئے اور کافروں کی بنائے ہوئے سفید کارٹن میں ملبوس کافروں کی بنائی اس
مہنگی تسبیح کو مشین کی رفتار سے چلاتے ہوئے مجھے ترک دنیا کا مشورہ دیتے
ہیں لیکن صاحب میں ایسی خلوت پر لعنت بھیجتا ہوں، میں ایک محمدی ہوں جسکا
دین اور مذہب گوشہ نشینی نہیں دنیا پر چھا جانے اور غالب آنے کا نام ہے۔
مولوی صاحب سچ تو یہ ہے کہ اس سیکولرازم کا سب سے بڑا محافظ خود آپکا طبقہ
ہے جسکی دال روٹی اور حقہ پانی اس صدیوں پرانے نظام سے وابستہ ہے۔ اگر بنو
عباس کے نا اقبت اندیش روساء نے مذہب کی نجکاری نہ کی ہوتی، اگر انہوں نے
خاموشی کے ساتھ مسجد اور قصر خلافت کو الگ نہ کیا ہوتا ، اگر انہوں نے ممبر
مسجد کو نجی شعبے کیلئے خالی نہ چھوڑا ہوتا تو کیا امت شیعہ سنی فرقوں میں
بٹتی؟ کیا بادل ناخواستہ مذاہب اربعہ کی ضرورت ہوتی؟ تو کیا ابو الحسن
اشعری اور ابو منصور ماتریدی کو عقائد کی حفاظت کے لئے اہل سنت اور غیر اہل
سنت کی فصیل کھینچنی پڑتی۔ کیا دیگر مذاہب کی طرح فرزندان اسلام کو بھی
اپنے یہاں پیدائش، اموات، شادی بیاہ اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے ایک
پیشہ ور طبقے کی ضرورت پڑتی۔ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
تاریخ کیوں کہ دورِ بنو عباس میں از سر نو ترکیب دی گئی تھی اس لئے اس نے
بنو امیہ کے ظلم و جبر کے افسانے گھڑے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اموی محل نہیں
بناتے تھے، اموی نماز پڑھاتے تھے۔ تاریخ کے تقابلی مطالعہ سے یہ حقیقت واضع
ہوتی ہے کہ اگر خلافت راشدہ کے بعد اسلام کی کسی دور میں خدمت ہوئی تو وہ
دور بنو امیہ ہی تھا۔ جس میں ملائیت اور تصوف کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس سوا
سو سال میں جو جو امیرالمومنین اور گورنر ہوا ، وہ جمعہ کا خطبہ دیتا اور
ہر خاص و عام میت کا جنازہ پڑھاتا۔
عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر، عائشہ صدیقہ اور ابو ہریرہ اس دور کے
جید علماء شمار ہوتے تھے لیکن پیشہ ور نہیں، خود کماتے اور خود کھاتے تھے،
ان اصحاب کو بھی ملا یا مولوی کہا جاسکتا ہے لیکن ایسے جو قرآن اور حدیث کا
کاروبار نہیں کرتے تھے، انکے یہاں پڑھے پڑھائے قرآن ایصال ثواب کے لئے
بکاؤں مال نہیں بنا کرتے تھے۔ وہ چند ٹکوں کے عوض تنخواہ دار امام یا مؤزن
نہیں ہوتے تھے، انہوں نے کبھی سورۃ آل عمران اور سورۃ النسا کی چار آیتوں
کے بدلے ہزاروں کے سودے نہیں کئے، انہوں نے کبھی کسی رئیس کے گھر جاکر حلوے
اور پلاؤ پر نیاز نہیں دی، انہوں نے کبھی اپنے شاگردوں کو تیجے، چالیسویں
اور برسی کے ختم پر میت کے گھر نہیں بھیجا۔ کتنی ہی عید اور بقر عید گزر
جاتی تھی لیکن انہیں فطرے، زکوۃ اور قربانی کے کھالوں کا کوئی درد نہیں
ستاتا۔ کبھی کبھار خلیفہ یا گورنر وظیفہ بھیجتا جو وہ اپنے شاگردوں میں
تقسیم کردیتے اور عوام کی طرف نظر و نظرانے کا بھی کوئی تصور ان جید علماء
کرام کے یہاں نہیں تھا۔
امت مسلمہ کی خوش قسمتی ہے کہ جید اور راسخ علماء کرام بنو امیہ کے ساتھ
ختم نہیں ہوگئے، دور بنو عباس میں جہاں گلی گلی میں شعلہ بیان خطیب اور
فرقہ واریت پھیلاتے بال کی کھال نکالتے مولوی پیدا ہوئے وہیں جید اور راسخ
علماء کرام عباسی حکمرانوں کی زیادتیوں سے قطع نظر مسلسل اپنا کام کرتے
رہے۔ کون نہیں جانتا کہ امام مالک کا بڑھاپہ زندان کی قید تنہائی میں بسر
ہوا اور امام احمد کی کھال کو بھی جیتے جی کھینچا گیا۔ ادھر ہندوستان میں
اکبر اعظم کی اولاد نے شیخ احمد سر ہندی کو بھی پابند سلاسل کیا اور سید
احمد بریلی اور اسماعیل دہلوی بھی اسی مقصد میں کام آئے، حافظ زامن شہید،
قاسم نانتوی اور محمود الحسن بھی استعمار سے آخری وقت تک لڑتے رہے۔ لیکن
مولوی صاحب ہر گلی محلے کا خطیب (روایتی مولوی) عالم دین نہیں ہوا کرتا۔
اسے تو اپنے خطبے اور محلے کے روساء کے سوا کسی اور کی پرواہ کم ہی ہوا
کرتی ہے۔ انقلاب، احیاء اور اقامت دین کی بات ہوئی تو ڈر ہے کہیں مسجد و
مدرسہ کا خرچہ نہ روک جائے، صاحب حقہ پانی نہ بند ہوجائے۔
مولوی صاحب سیکولرازم صرف روشن خیالوں کے ڈرائنگ روم کے ہی نخرے نہیں بلکہ
فی الحقیقت روایتی مولویوں اور مشائخ کو بھی اسکی اتنی ہی ضرورت ہے بلکہ
برصغیر کے روایتی مولوی طبقہ کے لئے تو سیکولرازم گویا آکسیجن گیس ہے اقبال
نے ایسی ہی تھوڑی کہا تھا
ہند میں ملا کو ہے جو سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد |